اسلام میں نکاح اور طلاق کے اصول و ضوابط

اسلام نے نکاح کو ایک پاکیزہ رشتہ قرار دیا ہے

اسلام نے نکاح کو ایک پاکیزہ رشتہ قرار دیا ہے، جو محبت، وفاداری اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یہ محض ایک وقتی یا کاروباری معاہدہ نہیں بلکہ پوری زندگی کا عہد و پیمان ہے۔ اسلام مرد کو بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتا ہے اور اس کی عزت و حفاظت پر زور دیتا ہے۔ نبی اکرم نے فرمایا:

"وَمَن قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ” (ابوداود)
(جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے)

اسی طرح آپ نے فرمایا:
"حَتَّى اللُّقْمَةُ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ”
(تمہاری بیوی کے منہ میں ڈالی گئی ایک لقمہ بھی باعثِ اجر ہے)
(بخاری)

اسلام عورت کے معاملے میں مرد کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہے:
"اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ”
(عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو)

نبی کریم نے فرمایا:
"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي”
(تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے سب سے بہتر ہوں)

مرد پر عائد ذمہ داریاں

  • اسلام نے مرد پر بیوی کے تمام اخراجات کی ذمہ داری ڈالی ہے، جس میں کھانے پینے سے لے کر رہائش، لباس، علاج معالجہ، اور دیگر ضروریات شامل ہیں۔
  • بچوں کی پرورش، تعلیم، صحت اور دیگر تمام مالی ذمہ داریاں بھی مرد پر ہی عائد ہوتی ہیں۔
  • نکاح کے وقت مہر کی ادائیگی مرد پر فرض کی گئی ہے۔
  • حتیٰ کہ بیوی کے انتقال کی صورت میں کفن دفن کا انتظام بھی مرد کے ذمے ہے۔

عورت پر ذمہ داری

عورت پر شوہر کی خدمت، وفاداری، اور گھر و بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مرد پر اس قدر مالی ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد اسلام نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے۔

عورت کو طلاق کا حق دینے میں کیا قباحت ہے؟

فرض کریں، نکاح کے بعد بیوی مہر وصول کرکے فوراً طلاق دے دے اور پھر کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے، اس طرح اگر یہ عمل بار بار دہرایا جائے تو نہ صرف مرد کی دل آزاری ہوگی بلکہ یہ رشتے کی حرمت اور اعتماد کو بھی ختم کر دے گا۔ اس کے نتیجے میں مرد بیوی پر اعتماد کھو بیٹھے گا اور اپنی ذمہ داریوں سے کترانے لگے گا، جس سے دونوں کی زندگی مشکلات میں گھر جائے گی۔

ایسی صورت میں کیا کیا جائے جب مرد بیوی پر ظلم کرے؟

اگر مرد بیوی کے ساتھ انصاف نہ کرے اور اسے تنگ کرے تو اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ اسلامی نظام کے تحت عورت اسلامی عدالت سے رجوع کرکے اپنے حق کی طلب کر سکتی ہے۔ قاضی فریقین کا مؤقف سن کر فوری طور پر انصاف فراہم کرے گا۔ اگر شوہر اپنی اصلاح نہ کرے یا عورت کے حقوق ادا کرنے سے انکار کرے تو عدالت اسے سزا دے گی۔

نفسیاتی پہلو

اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ عورت کی فطرت میں مرد کی نسبت جلد متاثر ہونے اور جذباتی فیصلے کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے طلاق کا حق مرد کو دیا گیا تاکہ جذباتی یا جلد بازی میں فیصلے سے بچا جا سکے۔

معاشرتی تحفظ

اسلام نے نکاح کے رشتے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اہم تدابیر اپنائی ہیں، تاکہ طلاق کی نوبت کم سے کم آئے۔ اگر دونوں میں اختلاف ہو تو قرآن کہتا ہے:
"فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا”
(النساء: ۳۵)
(دونوں خاندانوں میں سے ایک ایک ثالث مقرر کرو)

اگر تمام کوششوں کے باوجود صلح نہ ہوسکے تو عورت خلع لے سکتی ہے، لیکن اسلام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ رشتہ ختم ہونے سے عورت اور اس کے بچوں کو زیادہ نقصان نہ پہنچے۔

نتیجہ

اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد رشتوں میں استحکام اور معاشرتی امن قائم رکھنا ہے۔ اسلامی نظام کے مکمل نفاذ سے ہی ان تمام مسائل کا حل ممکن ہے، جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہو اور ان پر عمل کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے