امام ابوحنیفہ کی طرف تین کتابیں اور دو رسالے منسوب ہیں، وہ یہ ہیں :
(1) الفقه الاكبر
(2) العالم والمتعلم
(3) كتاب الحيل
(4) الوصية
(5) رسالة الي عثمان البتي
ان میں سے كتاب الحيل کے علاوہ کوئی بھی کتاب امام صاحب سے ثابت نہیں بلکہ محض جھوٹی نسبت کی بنا پر مشہور ہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ پیش خدمت ہے :
(1) الفقه الاكبر اس کی ایک سند یہ ہے :
محمد بن مقاتل الرازي، عن عصام بن يوسف، عن حماد بن ابي حنيفة، عن ابي حنيفة .
کسی کتاب کی نسبت صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنف تک باسند صحیح ثابت ہو، اب ہم اس کتاب کی سند کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
اس کے راویوں کے حالات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں :
(1) محمد بن مقاتل رازی کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ [المغني فى الضعفاء: 635/2] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [تقريب التهذيب : 6319] نے ’’ ضعیف“ کہا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں، نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وهو من الضعفاء المتروكين.
’’ یہ راوی متروک درجے کے ضعیف راویوں میں سے ہے۔ “ [تاريخ الإسلام للذهبي : 1247/5]
(2) عصام بن یوسف بلخی راوی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد روى عصام هذا عن الثوري وعن غيره أحاديث لا يتابع عليها.
’’ اس عصام نے امام سفیان ثوری اور دیگر اساتذہ سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن کی کسی نے متابعت نہیں کی۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 371/5، وفي نسخة : 2008/5]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان صاحب حديث ثبتا فى الرواية، ربما اخطا
’’ یہ محدث تھا اور روایت میں قابل اعتماد تھا، کبھی کبھار غلطی کر لیتا تھا۔ “ [الثقات لابن حبان: 521/8]
امام خلیلی فرماتے ہیں :
وهو صدوق ’’ یہ سچاراوی ہے۔ “ [الإرشاد للخليلي : 937/3]
تنبیہ : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن سعد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں :
كان عندهم ضعيفا فى الحديث.
’’ یہ راوی محدثین کرام کے ہاں حدیث کے معاملے میں کمزور تھا۔ “ [لسان الميزان لابن حجر : 168/4]
لیکن یہ حوالہ طبقات ابن سعد سے نہیں مل سکا۔
(3) حماد بن ابی حنیفہ ’’ضعیف“ راوی ہے۔ اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا أعلم له رواية مستوية فأذكرها .
’’ میں اس کی ایک بھی درست روایت نہیں جانتا جسے ذکر کر سکوں۔ “ [الكامل لابن علي:253/2، وفي نسخة:669/2]
نیز فرماتے ہیں :
وإسماعيل بن حماد بن أبى حنيفة ليس له من الروايات شيء، ليس هو، ولا أبوه حماد، ولا جده أبو حنيفة من أهل الروايات شيء،ليس هو، ولا ابوه حماد، ولا جده ابوحنيفه من اهل الروايات، وثلاثتهم قد ذكرتهم في كتابي هذا في جملة الضعفاء .
’’ اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ اسماعیل بن حماد، اس کے والد حماد اور اس کے دادا ابوحنیفہ، تینوں ہی احادیث کے قابل (محدث) نہیں تھے۔ (یہی وجہ ہے کہ) میں نے ان تینوں کو اپنی کتاب میں ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي :314/1]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه ابن عدي وغيره من قبل حفظه.
’’ اسے امام ابن عدی وغیرہ نے حافظے کی کمزوری کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے۔ “ [ميزان الاعتدال للذهبي :590/1]
یہ تو تھا کتاب کی سند کا حال۔ علمی دنیا میں دل کیسے مطمئن ہو سکتا ہے کہ یہ تصنیف امام ابوحنیفہ کی ہے ؟ یہ جھوٹی نسبت ہے، اسی لیے محدثین اور علمائے حق نے اس کی طرف التفات تک نہیں کیا۔
پھر یہ پانچ چھ صفحات پر مشتمل رسالہ گمراہی و ضلالت سے لبریز ہے۔ اس میں گمراہ کن اشعری عقیدہ درج ہے۔ ملا علی قاری حنفی معتزلی نے اس کی شرح میں معتزلی عقیدہ کا اضافہ کر کے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اس میں اہل سنت والجماعت، اہل حق کے عقائد کے موافق کوئی بات نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ جہالت و ضلالت اور کذب و زور کا پلندہ ہے۔
(2) اس کی دوسری سند یہ ہے :
الحسين بن على الكاشغري” عن أبى مالك نصران بن نصر الختلي، عن ابي الحسن علي بن احمد الفارسي، عن نصر بن يحييٰ، عن أبى مطيع. [مقدمة كتاب العالم والتعلم للكوثري]
اس کے راویوں کا مختصر حال بھی ملاحظہ ہو :
(1) حسین بن علی کاشغری سخت جھوٹا راوی ہے۔ یہ خود احادیث گھڑ لیتا تھا۔
اس کے بارے میں :
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متهم بالكذب ’’ اس پر جھوٹ کا الزام ہے۔ “ [ميزان الاعتدال : 544/1]
٭حافظ سمعانی فرماتے ہیں :
يضع الحديث ’’ یہ خود حدیث گھڑ لیتا ہے۔ “ [لسان الميزان لابن حجر : 305/2]
٭ ابن نجارکہتے ہیں :
كان شيخا صالحا متدينا، الا انه كتب الغرائب، وقد ضعفوه واتهموه بالوضع.
’’ یہ نیک اور دیندار شیخ تھا لیکن اس نے منکر روایات لکھیں۔ محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا اور اس کو حدیثیں گھڑنے کے ساتھ متہم کیا۔ “ [لسان الميزان: 305/3]
(2) نصران بن نصر ختلی راوی ’’ مجہول“ ہے۔ اس کی توثیق تو درکنار اس کا ذکر تک کہیں سے نہیں ملتا۔
(3) علی بن احمد فارسی راوی بھی ’’ مجہول“ ہے۔ کتب رجال میں اس کا ذکرتک نہیں ملتا۔
(4) نصر بن یحییٰ بلخی راوی بھی نامعلوم ہے۔ اس کا بھی رجال کی کتب میں نام و نشان نہیں۔
(5) ابومطیع حکم بن عبداللہ بلخی راوی سخت ترین مجروح اور ’’ ضعیف“ ہے۔
ثابت ہوا کہ فقہ اکبر جھوٹی کتاب ہے جو امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کر دی گئی ہے۔
لہٰذا جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ :
’’ بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی کوئی تصنیف نہیں اور خصوصا الفقہ الاکبر ان کی نہیں، لیکن یہ ان حضرات کا نرا وہم ہے۔ “ [مقام أبى حنيفه از صفدر، ص : 108]
معلوم ہوا کہ فقہ اکبر کو امام صاحب کی تصنیف قرار دینا صفدر صاحب کا ’’ نرا وہم“ ہے۔
(2) العالم والمتعلم : اس کتاب کی بھی نسبت امام ابوحنیفہ کی طرف بالکل غلط ہے۔ اس کی سند یہ ہے :
ابو محمد الحارثي البخاري، عن محمد بن يزيد، عن الحسن بن صالح، عن أبى مقاتل، عن أبى حنيفة. [مقدمة كتاب العالم والمتعلم للكوثري]
اس سند کے راویوں کے مختصر حالات یہ ہیں :
(1) ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب حارثی بخاری سخت مجروح راوی ہے۔
* امام ابوزرعہ احمد بن حسین رازی رحمہ اللہ (م :357 ھ) فرماتے ہیں :
ضعيف.
’’ یہ ضعیف راوی تھا۔ “ [سوالات السهمي للدارقطني، ص : 228، ت: 318 ۰ تاريخ بغداد للخطيب : 127/10]
* علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قال أبو سعيد الرؤاس : يتهم بوضع الحديث
’’ ابوسعید رواس کا کہنا ہے کہ یہ متہم بالکذب راوی تھا۔ “ [ميزان الاعتدال للذهبي : 496/4]
* احمد سلیمانی کہتے ہیں :
كان يضع هذا الإسناد على هذا المتن، وهذا المتن علٰي هذا الاسناد .
’’ یہ شخص ایک سند کو دوسرے متن کے ساتھ اور ایک متن کو دوسری سند کے ساتھ لگا دیتا تھا۔ “ [ميزان الاعتدال : 496/4]
* حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا ضرب من الوضع . ’’ ایساکرنا حدیث گھڑنے کی ایک قسم ہے۔ “ [ميزان الاعتدال: 496/4]
* امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هو صاحب عجائب وأفراد عن الثقات .
’’ یہ ثقہ راویوں سے عجیب و غریب روایات بیان کرنے والا شخص تھا۔ “ [ميزان الاعتدال : 496/4]
* حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صاحب عجائب ومناكير وغرائب .
’’ یہ شخص عجیب و غریب اور منکر روایات بیان کرنے والا تھا۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب : 127/10]
نیز فرماتے ہیں :
وليس بموضع الحجة. ’’ یہ حجت پکڑنے کے قابل نہیں۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب:127/10]
* حافظ خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يعرف بالأستاذ، له معرفة بهذا الشأن، هو لين، ضعفوه، يأتي بأحاديث يخالف فيها، حدثنا عنه الملاحمي وأحمد بن محمد بن الحسين البصير بعجائب.
’’ یہ راوی استاذ کے نام سے معروف ہے۔ یہ علم حدیث کی معرفت رکھتا تھا۔ لیکن کمزور تھا، محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہ ایسی احادیث بیان کرتا ہے جن میں ثقہ راوی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے ملاحمی اور احمد بن محمد بن حسین بصیر نے منکر روایات بیان کی ہیں۔ “ [الارشاد فى معرفة علماء الحديث للخليلي : 185/3]
یہ تو استاذ حارثی کا حال ہے جس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
(2) محمد بن یزید ’’ مجہول“ اور نامعلوم راوی ہے۔ کتب رجال میں اس کا ذکر نہیں مل سکا۔
(3) حفص بن اسلم سمرقندی ’’ کذاب“ اور ’’ وضاع“ راوی ہے۔
* امام قتیبہ بن مسلم فرماتے ہیں : میں نے ابومقاتل سے اس کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
يا أبا مقاتل ! هو موضوع ؟، قال : بابا، جو فى كتابي، وتقول: هو موضوع ؟ قال: قلت : نعم، وضعوه فى كتابك.
’’ اے ابومقاتل ! کیا یہ من گھڑت ہے ؟ اس نے کہا: بابا ! یہ میری کتاب میں درج ہے اور تم کہتے ہو کہ کیا یہ موضوع ہے ؟ میں نے کہا: ہاں، جھوٹے لوگوں نے اس حدیث کو تیری کتاب میں ڈال دیا ہے۔ “ [الكامل لابن عدي : 393,392/2 وسندۂ صحيح]
* احمد سلیمانی کہتے ہیں :
فى عداد من يضع الحديث .
’’ اس راوی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خود احادیث گھڑ لیتے تھے۔ “ [لسان الميزان لابن حجر : 323/2]
* امام جوزجانی کہتے ہیں :
كان ينشي للكلام الحسن إسنادا.
’’ یہ راوی اچھی بات کو کوئی سند لگا کر حدیث بنا دیتا تھا۔ “ [احوال الرجال: 345]
* امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وليس هو ممن يعتمد على رواياته .
’’ یہ ان راویوں میں سے نہیں جن کی روایات پر اعتماد کیا جا سکے۔ “ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 394/2]
* امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ياتي بالاشياء المنكرة التى يعلم من كتب الحديث أنه ليس لها أصل يرجع إليه.
’’ یہ ایسی منکر روایات بیان کرتا ہے کہ کتب حدیث کی طرف رجوع کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی ایسی اصل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ “ [المجروحين :256/1]
* امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن عبيد الله، وأيوب السختياني، ومسعر، وغيره بأحاديث موضوعة.
’’ اس نے عبیداللہ، امام ایوب سختیانی، مسعر وغیرہ کی طرف منسوب کر کے من گھڑت احادیث بیان کی ہیں۔ “ [المدخل إلى الصحيح للحاكم، ص :131، 130]
* امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کو ’’ غیرقوی“ قرار دیا ہے۔ [شعب الإيمان للبيهقي : 187/6، ح : 7861]
* حافظ ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن أيوب السختياني، وعبيد الله بن عمر، ومسعر بالمناكير
’’ اس نے امام ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور مسعر کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کی ہیں۔ “ [الضعفاء للأصبهاني : 52]
* حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔ [الكشف الحثيث : 718]
نیز فرماتے ہیں :
أحد المتروكين ’’ یہ ایک متروک راوی ہے۔ “ [المغني للذهبي : 809/2]
مزید فرماتے ہیں :
وهومتهم، واه. ’’ یہ متہم بالکذب اور کمزور راوی ہے۔ “ [تاريخ الإسلام للذهبي : 458/6]
* ابن طاہرمقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
متروك الحديث. ’’ یہ متروک الحدیث راوی ہے۔ “ [معرفة التذكرة فى الأحاديث الموضوعة:214/1]
البتہ اس کے بارے میں حافظ خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مشهور بالصدق والعلم ’’ یہ شخص صدق اور علم کے ساتھ مشہور ہے۔ “ [الارشاد للخليلي : 975/3]
یہ حافظ خلیلی رحمہ اللہ کا تسامح ہے، انہیں اس کی شخصیت کے بارے میں علمائے کرام کی جروح کا علم نہیں ہو سکا ہو گا۔ محدثین کرام کے اتفاقی فیصلے کے خلاف ان کی یہ رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
ثابت ہوا کہ یہ کتاب بھی امام ابوحنیفہ کی طرف جھوٹی منسوب ہے۔ یہ کتاب بھی ضلالت و گمراہی سے اٹی پڑی ہے۔ اس میں بھی اہل سنت والجماعت کے اتفاقی عقائد کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔
(3) كتاب الحيل : یہ کتاب امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے، لیکن اللہ تعالیٰٰ نے اسے دنیا میں باقی نہیں رکھا۔ اس کا اب کوئی وجود نہیں ملتا۔
اس کتاب کے بارے میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أخبرنا محمد بن عبيد الله الحنائي، قال : أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي، قال: حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي، قال: حدتنا أبو توبة الربيع بن نافع، قال : حدثنا عبد الله بن المبارك، قال : من نظر فى كتاب الحيل لأبي حنيفة، أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله.
’’ ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے بتایا، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبداللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن اسماعیل سلمی نے بتایا، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبردی، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا : جو شخص امام ابوحنیفہ کی کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا، وہ اللہ تعالیٰٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔ “ [تاريخ بغداد :426/13، و سندهٔ صحيح]
اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے !
(1) امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادی رحمہ اللہ ثقہ امام ہیں۔ ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں :
أحد الحفاظ الاعلام، ومن ختم به اتقان هذا الشأن، وصاحب التصانيف المنتشرة فى البلدان.
’’ آپ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔ آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ “ [تاريخ الإسلام للذهبي : 175/10]
(2) محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں :
كتبنا عنه، وكان ثقة مأمونا، زاهدا، ملازما لبيته.
’’ ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 336/3]
(3) امام ابوبکر محمد بن عبداللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، المحدث، المتقن، الحجة، الفقيه، مسند العراق .
’’ آپ امام، محدث، راسخ فی العلم، حجت، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔ “ [سير اعلام النبلاء للذهبي : 40، 39/16]
(4) محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 5738]
(5) ابوتوبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 1902]
(6) امام عبداللہ بن مبارک ثقہ، ثبت، فقیہ، عالم، جواد اور مجاہد ہیں۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 3570]
(4) كتاب الوصیة: یہ کتاب بھی امام ابوحنیفہ کی طرف غلط منسوب کی گئی ہے۔ امام صاحب تک اس کتاب کی سند یہ ہے :
أبو طاهر محمد بن المهدي الحسيني، عن إسحاق بن منصور المسياري، عن أحمد بن على السليماني، عن حاتم بن عقيل الجوهري، عن أبى عبد الله محمد بن سماعة التميمي، عن أبى يوسف، عن الإمام أبى حنيفة. [أصول الدين عن أبى حنيفة للدكتور محمد الخميس، ص: 139]
اب اس سند کے راویوں کے بارے میں مختصر جائزہ پیش خدمت ہے :
(1۔ 4) محمد بن مہدی حسینی، اسحاق مسیاری، احمد سلیمانی اور حاتم جوہری، چاروں نامعلوم و مجہول ہیں۔ کتب رجال میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔
(5) قاضی ابویوسف جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ ضعیف“ راوی ہے۔
یہ کتاب اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے خلاف خرافات سے بھری پڑی ہے۔
(5) رسالة ابي حنيفة الي عثمان البتي: یہ رسالہ گمراہ کن عقیدہ ’’ ارجاء“ پر مشتمل ہے۔ اس کی سند امام ابوحنیفہ تک یہ بیان کی گئی ہے :
يحيي بن مطرف البلخي، عن أبى صالح محمد بن الحسين السمرقندي، عن أبى معيد سعدان بن محمد البستي، عن أبى الحسن على بن أحمد الفارسي، عن نصير بن يحيي البلخي، عن محمد بن سماعة التميمي، عن أبى يوسف، عن أبى حنيفة. [مقدمة كتاب العالم والمتعلم للكوثري، ص: 6,5]
اس کے راویوں کا مختصر حال درج ذیل ہے :
(1۔ 4) یحییٰ بن مطرف بلخی، محمد بن حسین سمرقندی، سعدان بن محمد بستی، علی بن احمد۔ فارسی، چاروں میں سے کسی کا کسی بھی کتاب میں تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ مجہول انسان ہیں۔
(5) نصیر بن یحییٰ بلخی راوی بھی ’’ مجہول“ ہے۔ اس کے متعلق ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ہو سکا۔
(6) قاضی ابویوسف جمہور کے نزدیک ’’ ضعیف“ راوی ہے۔ خود امام ابوحنیفہ نے ابو یوسف سے فرمایا تھا :
لا تزو عني شيئا، فإني والله ما أدري أخطئ أنا أم أصيب ؟
’’ تم مجھ سے کوئی بات روایت نہ کرنا کیونکہ اللہ کی قسم، میں نہیں جانتاکہ غلط بات کہہ رہا ہوتا ہوں یا درست !“