ڈالر خریدنے اور فوریکس ٹریڈنگ کے شرعی اصول

سوال

کیا یہ جائز ہے کہ ڈالر خرید کر رکھ لیں اور جب اس کی قیمت بڑھے تو اسے ملک کی کرنسی میں تبدیل کر لیں؟ اسی طرح، کیا آن لائن کمپنیوں جیسے فوریکس ٹریڈنگ میں پیسے انویسٹ کرکے دوسرے ممالک کی کرنسی خریدنا اور قیمت بڑھنے پر فروخت کرنا جائز ہے؟ اس میں نقصان اور نفع دونوں کے امکانات ہوتے ہیں۔

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

1. ڈالر خرید کر رکھنا:

شرعی اصول: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سونا اور چاندی بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے، جن کی جنس مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے تبادلے میں کمی بیشی جائز تھی، بشرطیکہ لین دین نقد ہو اور ادھار شامل نہ ہو۔

کرنسی کا تبادلہ: آج کے دور میں روپے کے عوض ڈالر یا کسی اور ملک کی کرنسی خریدنا اور قیمت بڑھنے پر فروخت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ:

  • یہ لین دین نقد ہو۔
  • کوئی بھی ادھار یا قرض شامل نہ ہو۔

2. ایک ہی کرنسی کا تبادلہ:

ناجائز صورت: ایک ہی کرنسی کو کمی بیشی کے ساتھ بیچنا یا خریدنا (مثلاً: نئے نوٹ کو اضافی قیمت پر خریدنا) جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔

3. فوریکس ٹریڈنگ کا حکم:

فوریکس ٹریڈنگ میں:

  • آپ رقم انویسٹ کرتے ہیں۔
  • بروکر آپ کی طرف سے خرید و فروخت کرتا ہے۔
  • کرنسی کی قیمت بڑھنے یا گھٹنے پر نفع یا نقصان ہوتا ہے۔

شرعی حکم:

  • ملکیت کی شرط: یہ کاروبار اس وقت جائز نہیں جب:
    • خریدی گئی کرنسی آپ کے حقیقی قبضے میں نہ آئے۔
    • خرید و فروخت صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر ہو۔
  • مشکوک طریقہ: یہ معاملہ قمار (جوا) اور دھوکہ دہی کی جدید شکل ہوسکتا ہے کیونکہ:
    • خریدار کے پاس چیز کی ملکیت نہیں ہوتی۔
    • معاملات شفاف نہیں ہوتے۔

خلاصہ:

  • ڈالر یا دوسری کرنسی کو خرید کر رکھنا اور قیمت بڑھنے پر فروخت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ادھار شامل نہ ہو۔
  • فوریکس ٹریڈنگ جیسے طریقے مشکوک ہیں اور ان میں جوا اور دھوکہ دہی کے امکانات زیادہ ہیں، لہذا ان سے اجتناب کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1