قصر نماز کے لیے سفر اور شہر کی حدود کا شرعی معیار

سوال

کیا قصر نماز کے لیے فصیلِ شہر کی قید لگانا درست ہے، خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں 30 سے 35 کلومیٹر سفر عام ہے؟ علماء کرام سے وضاحت درکار ہے۔

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

عرف کے مطابق سفر کی تعریف

عرف عام میں سفر:
سفر وہی شمار ہوتا ہے جسے عرف عام میں سفر کہا جائے۔
اگر ایک ہی شہر میں 35 یا 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا جائے، تو یہ عرفاً روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہے اور اسے سفر نہیں کہا جاتا۔
مثال کے طور پر، کراچی جیسے بڑے شہر میں اورنگی ٹاؤن سے گلشن حدید تک 36 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، لیکن اسے عرفاً سفر نہیں کہا جاتا۔

قصر نماز کی شرط

قصر نماز اس وقت واجب ہوتی ہے جب عرف عام کے مطابق سفر کا اطلاق ہو۔

فقہاء کی رائے

سفر کی تعریف میں سرحدوں یا فصیلِ شہر کی قید بعض فقہاء کی اجتہادی رائے ہے، لیکن اصل معیار عرف عام ہے۔
جدید دور میں شہروں کی وسعت کے پیش نظر عرف کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

مختلف علماء کی رائے

    • سفر وہی ہے جو عرف میں سفر کہلاتا ہے۔
    • ایک ہی شہر کے اندر 35 یا 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہے اور اسے سفر نہیں کہا جاتا۔
    • عرف کے مطابق ہی قصر نماز کی شرط عائد ہوگی۔
    • یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔
    • احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ قصر نماز شہر کی حدود سے باہر جاکر ادا کی جائے۔
    • اگر کوئی قصر نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

خلاصہ

قصر نماز کے لیے عرف عام کے مطابق سفر کی تعریف معتبر ہے۔
بڑے شہروں میں 30 سے 40 کلومیٹر کا فاصلہ روزمرہ کے معمولات میں شامل ہوتا ہے اور اسے عرفاً سفر نہیں کہا جاتا۔
قصر نماز کے لیے احتیاط یہ ہے کہ شہر کی حدود سے باہر جانے پر قصر کی جائے۔
اگر کوئی قصر نہ کرے، تو یہ بھی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1