انسان کی تخلیق کا مقصد اور کائنات کا نظام
انسان ایک باشعور مخلوق ہے جو اپنے ہر کام میں ایک خاص مقصد اور نیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے اہداف کو پانے کے لیے محنت کرتا ہے، وقت اور وسائل صرف کرتا ہے اور رکاوٹوں کا سامنا خندہ پیشانی سے کرتا ہے۔ جب انسان اپنی زندگی کو مقصد کے بغیر نہیں گزارتا تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس کا اپنا وجود، یہ حیرت انگیز جسمانی نظام، اور کائنات یونہی بغیر مقصد کے تخلیق کی گئی ہو؟ قرآن کریم ہمیں واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کو زمین پر آباد کرنے کا ایک خاص مقصد رکھا ہے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۰ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰ۭوَہُوَالْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ۲ۙ
(الملک: ۱-۲)
"نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔”
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین کا خلیفہ بنایا تاکہ ان کی آزمائش ہو:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
(الانعام: ۱۶۵)
"وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔”
عبادت: زندگی کا حقیقی مقصد
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
(الذاریات: ۶۵)
"میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔”
عبادت کا صحیح معیار وہی ہے جو شریعت کے مطابق ہو:
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا۰ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ
(البقرہ: ۳۸)
"ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہوگا۔”
شریعت اور انبیاء کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اس مقصد کے لیے بھیجا کہ وہ انسانیت کو صحیح راستہ دکھائیں اور اللہ کی عبادت کی تلقین کریں:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ
(النحل: ۳۶)
"ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔”
تمام انبیاء علیہم السلام نے ایک ہی پیغام دیا: اللہ کی وحدانیت اور اسی کی بندگی۔ انہوں نے اپنی قوم کو واضح طور پر بتایا کہ معبود صرف اللہ کی ذات ہے اور دنیاوی چمک دمک سے دل نہ لگائیں۔ سورۂ شعراء میں انبیاء کے اس مشترکہ پیغام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
امتحانِ زندگی: کامیابی کا راستہ
زندگی کا اصل امتحان اللہ کی بندگی اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ
(المائدہ: ۴۸)
"لہذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو، آخر کار تم سب کو اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔”
خلاصہ
اللہ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا، اور وہ مقصد صرف اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے اسی پیغام کو انسانوں تک پہنچایا تاکہ وہ حقیقی کامیابی حاصل کرسکیں۔ یہ کامیابی اللہ کی عبادت، اس کی وحدانیت پر ایمان، اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں ہے۔