مجسموں کی خرید و فروخت اور بطور زینت رکھنے کا شرعی حکم
مجسموں کی خرید و فروخت اور انہیں بطور زیبائش رکھنے کا حکم
گھروں میں رکھے ہوئے ان مجسموں کا حکم، خواہ یہ لٹکے ہوئے ہوں یا الماریوں میں رکھے ہوئے ہوں، یہ ہے کہ انہیں حاصل کرنا اور رکھنا حرام ہے، چاہے یہ مجسمے حیوانات کے ہوں، یا گھوڑوں، شیروں یا اونٹوں وغیرہ کے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہو۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 3226 صحيح مسلم 12106/86]
جب فرشتے اس گھر میں داخل نہ ہوں تو اس گھر میں کوئی خیر نہیں ہو سکتی، لہٰذا جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے اسے چاہیے کہ اسے تلف کر دے یا کم از کم اس کا سر کاٹ دے اور اسے مٹا دے، تاکہ فرشتے اس کے گھر میں داخل ہونے سے نہ رکیں۔
آپ ایسے لوگوں پر تعجب کریں گے کہ وہ ان جیسی اشیا خطیر رقم خرچ کر کے خریدتے ہیں، پھر انہیں اپنی مجالس کی زینت بناتے ہیں، گویا وہ بچے ہیں۔ حقیقت میں شیطان نے یہ چیز ان کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کی ہے وگرنہ اگر وہ اپنے دل میں جھاکیں تو اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ یہ بیوقوفی ہے، کیسی صاحب عقل کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے چہ جائیکہ کوئی مومن انہیں اپنے گھر میں رکھے۔ صرف ایمان اور مضبوط ارادے کے ذریعے سے اس سے چھٹکارا پانا، انہیں مٹانا اور ختم کرنا ممکن ہے، اگر لوگ انہیں اپنے پاس رکھنے پر اصرار کریں تو وہ گناہ گار ہوں گے اور ہرگزر تے لمحے کے ساتھ ان کا گناہ بڑھتا جائے گا، ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے اور اپنے لیے ہدایت مانگتے ہیں۔
جہاں تک ان کی خرید وفروخت کا تعلق ہے تو یہ حرام ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمان نبوی ہے:
”اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز حرام قرار دیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں۔“
[مسند أحمد 293/1 بلوغ المرام، رقم الحديث 318]
لہٰذا ان کی درآمد جائز ہے نہ برآمد اور نہ خرید و فروخت ہی حلال ہے، اس مقصد کے لیے دکان کرائے پر دینا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ گناہ اور زیادتی کے کام پر مدد دینے کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتے ہیں:
«وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ» [المائدة: 2]
”اور نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“
اسی طرح دیواروں اور کھڑکیوں پر ایسے پردے لگانا بھی حرام ہے، جن میں گھوڑوں، شیروں اور اونٹوں وغیرہ کی تصویریں ہوں کیونکہ تصویریں لٹکانا ان کی قدر و منزلت بڑھانے کے ضمن میں ہے اور یہ اس فرمان نبوی کے عمومی حکم میں داخل ہو جاتا ہے کہ ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 3226 صحيح مسلم 2106/86]
البتہ ان جیسی وہ تصویریں جو فرش پوشوں پر ہوں، جنھیں پاوں تلے روندا اور خوب رسوا کیا جاتا ہے، ان کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا یہ حرام ہیں کہ نہیں، جمہور علماء کرام کا یہ موقف ہے کہ یہ حلال ہیں تاہم جو ان سے بچنا چاہے اور پرہیز گاری اپنانا چاہے تو وہ ایسے فرش پوش نہ لے جن پر کسی جانور کی تصویر ہو، یہ زیادہ بہتر اور اچھا ہے لیکن اگر کوئی جمہور کا قول اختیار کرے تو میں امید کرتا ہوں کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 2/253]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1