پرویز صاحب کے "نظام ربوبیت” کا علمی اور قرآنی جائزہ

پرویز صاحب کے نظریات اور ان کی تشریحات

قیامت کے مناظر کو "نظام ربوبیت” سے جوڑنا

پرویز صاحب نے اپنی کتاب "نظام ربوبیت” میں مختلف قرآنی آیات کو جوڑ کر قیامت کے مناظر کو اپنے خود ساختہ "نظام ربوبیت” کے انقلاب کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے یہ تشریحات قرآنی آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر کی ہیں، جس سے آیات کا مفہوم بگاڑ دیا گیا۔

  • انہوں نے "جس انقلابِ عظیم کے متعلق تمہیں کہا جا رہا ہے وہ آکر رہے گا”
    (22:201)
    کو قیامت کے بجائے کسی سماجی انقلاب سے جوڑا۔
  • مخالفین کے بارے میں "کہا جائے گا کہاں بھاگ رہے ہو؟”
    (21:23)
    اور "کہیں پناہ نہیں مل سکتی”
    (75:11)
    کو انقلابی حالات کے طور پر تعبیر کیا۔
  • ان کی حالت "جیسے کٹے کھیت یا بجھے کوئلے”
    (21:14)
    قرار دی۔
  • "نہ آسمان روئے گا نہ زمین”
    (44:29)
    کے مفہوم کو انقلاب کی تشریح میں شامل کیا۔

پرویز صاحب ان آیات کو اپنی تشریح کے ساتھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے یہ ان کے "نظام ربوبیت” کی ہی وضاحت کر رہی ہوں، جبکہ آیات کا اصل مفہوم قیامت اور اخروی معاملات پر دلالت کرتا ہے۔

فطرت کا فیصلہ اور انقلاب کی تشریح

انہوں نے
﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ﴾
"اور وہ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔”
(20:105)
اور دیگر آیات کا استعمال کرتے ہوئے سماجی تبدیلیوں کو قدرتی فیصلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قرآنی آیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی سماج میں بڑی طاقتوں کو مٹا کر "نظام ربوبیت” کا میدان صاف کیا جائے گا۔

صحابہ کرام پر اعتراض

پرویز صاحب نے صحابہ کرام کے بارے میں انتہائی عجیب نظریہ پیش کیا:

  • ان کا دعویٰ تھا کہ صحابہ کرام "نظام ربوبیت” کو سمجھنے کے قابل نہ تھے۔
  • ان کے مطابق، انسانی ذہن اس وقت اتنا بالغ نہیں تھا کہ اس نظام کو شعوری طور پر اپنا سکے۔
  • انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ نظام رسول اللہ ﷺ کے بعد ختم ہوگیا کیونکہ صحابہ اس کو ایمان بالغیب کے طور پر قبول نہ کر سکے۔

امت مسلمہ پر حیران کن دعویٰ

پرویز صاحب کا ماننا تھا کہ:

  • چودہ سو سال تک امت اس نظام سے محروم رہی۔
  • پہلی بار ان پر یہ نظام منکشف ہوا۔
  • ان کے مطابق، وہی اس نظام کو واضح کرنے والے پہلے شخص ہیں کیونکہ انسانی شعور اب اس کی ضرورت کو سمجھنے کے قابل ہوا ہے۔

"نظام ربوبیت” کا ثبوت؟

پرویز صاحب اپنی کتاب میں بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:

  • ان کے نظریے کی بنیاد صرف قرآن ہے۔
  • وہ حدیث، تفسیر یا کسی تاریخ کا حوالہ نہیں دیتے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے نظام کی تفصیلات بھی نہیں دیتے۔
  • وہ اپنی تشریحات کو قرآنی حقائق قرار دیتے ہیں اور انکار کو قرآن کا انکار ٹھہراتے ہیں۔

پرویز صاحب کی بزم طلوع اسلام کی حالت

(اخبار جہاں: 8 جنوری 1969ء) کے ایک مشاہدے کے مطابق:

  • بزم طلوع اسلام کے جلسوں میں نماز کو قضا کر دینا معمول تھا۔
  • مغرب کی نماز کے لیے ایک سامع کے احتجاج پر محض دس منٹ کا وقفہ دیا گیا، اور پانچ افراد نے نماز ادا کی جبکہ دیگر قرآنی مباحث میں مصروف رہے۔
  • بزم کے اراکین کا عمل اور دعوے واضح طور پر اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے۔

نتیجہ

پرویز صاحب نے قرآن کو اپنی خود ساختہ تعبیرات کے تحت پیش کیا اور نظام ربوبیت کو قرآنی تعلیمات سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ان کے نظریات نے اسلامی عقائد اور صحابہ کرام کے کردار پر سنگین اعتراضات اٹھائے، جنہیں علمی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے