اعتراض کی تفصیل
اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین چیزیں منحوس ہیں: عورت، مکان اور گھوڑا”۔
اس بنیاد پر معترضین یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر یہ چیزیں منحوس تھیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے کیوں استفادہ کیا؟ نیز یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا وہ عورتیں منحوس تھیں جنہوں نے انبیاء، اولیاء اور حکیم پیدا کیے؟
اعتراض کی بنیاد
یہ اعتراض دراصل ایک خاص روایت کے غلط فہم پر مبنی ہے۔ اس میں منکرین حدیث یا اسلام مخالفین نے جان بوجھ کر سیاق و سباق کو نظر انداز کیا اور حدیث کے مکمل متن کو پیش نہیں کیا۔
حدیث کا متن اور سیاق
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"نحوست عورت، گھر اور گھوڑے میں ہے”۔
(صحیح بخاری، حدیث 4703)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی ایک روایت ملتی ہے جس میں یہی بات بیان ہوئی ہے:
(معجم اوسط طبرانی، حدیث 7710)
حدیث کی وضاحت
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی کئی احادیث میں کسی ایک قول کا وضاحتی حصہ دوسری جگہ موجود ہوتا ہے۔ اگر کسی حدیث کو الگ سے دیکھا جائے تو غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، لیکن دیگر احادیث کی روشنی میں اس کی وضاحت آسانی سے ہو جاتی ہے۔
اصل حقیقت
اس اعتراض کی حقیقت جاننے کے لیے درج ذیل نکات کا جائزہ لیتے ہیں:
- یہودیوں کا نظریہ: یہ بات یہودیوں کے عقائد میں شامل تھی کہ عورت، مکان اور گھوڑا نحوست کا سبب ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس عقیدے پر تنقید کی اور اس کو رد کیا۔
-
حضرت عائشہؓ کی وضاحت: حضرت عائشہؓ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ یہودیوں کو غارت کرے، وہ کہتے ہیں کہ نحوست عورت، مکان اور گھوڑے میں ہوتی ہے”۔
(مسند طیالسی، حدیث 1630)
حضرت ابو ہریرہؓ نے اس ارشاد کا صرف آخری حصہ سنا اور سیاق کو نہیں سنا، جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ -
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی تصحیح: ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
"اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو یہ عورت، مکان اور گھوڑے میں بھی ہوتی”۔
(صحیح بخاری)
اس جملے سے واضح ہوتا ہے کہ نحوست کسی چیز میں نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک مفروضہ ہے۔ -
دیگر روایات کی روشنی میں وضاحت: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"نحوست کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ تین چیزوں میں برکت ہوتی ہے: عورت، گھر اور گھوڑا”۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث 1993)
خلاصہ
یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عورت، مکان اور گھوڑے کو منحوس قرار نہیں دیا۔ یہودیوں کے اس عقیدے کی تردید کے طور پر آپ ﷺ نے ان کے نظریے کا ذکر کیا تھا۔ کچھ صحابہ نے آپ ﷺ کی بات کا مکمل سیاق نہ سنا، جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ لیکن صحابہ کے دور میں ہی اس کی وضاحت کردی گئی۔
اعتراض کا جواب
- نبی اکرم ﷺ نے عورت یا دیگر اشیاء کو منحوس قرار نہیں دیا بلکہ نحوست کے تصور کو ہی غلط قرار دیا۔
- یہ بات یہودیوں کے ایک عقیدے کی تردید تھی، جسے بعض صحابہ نے مکمل طور پر نہیں سنا، لیکن بعد میں دیگر روایات سے اس کی وضاحت ہو گئی۔
- عورت کی عزت و عظمت اسلام نے ہمیشہ بیان کی ہے۔ نکاح کو سنت قرار دینا اور عورت کے مقام کو بلند کرنا اس بات کا ثبوت ہے۔
2 Responses
کیا یہاں مسائل کے بارے پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی دیے جاتے ہیں؟
اگر آپ کا سوال ایسا ہے جس سے عام لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے تو ضرور آپ کمنسٹس کے زریعے پوچھ سکتے ہیں، ہم ان شاء اللہ جلد از جلد اس کا جواب دیں گے۔ اگر آپ کا سوال زاتی نوعیت کا ہے تو پھر آپ واٹس اپ پر ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ جزاک اللہ۔