تحریر: عمران ایوب لاہوری
ایک مؤذن کا جواب دیا جائے یا جتنے مؤذنوں کی اذان سنائی دے
سلف میں اس مسئلے میں بھی اختلاف رہا ہے۔ تو جنہوں نے صرف پہلے موذن کا جواب دینے پر ہی اکتفاء کا کہا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں موجود حکم تکرار کا تقاضہ نہیں کرتا حالانکہ اس سےتو یہ بھی لازم آتا ہے کہ زندگی میں ایک مرتبہ ہی مؤذن کا جواب دینا کافی ہو جائے گا۔
[ نيل الأوطار 519/1 ، الإحكام للأمدى 143/2]
ہمارے علم کے مطابق جس مؤذن کی اذان انسان پہلے سنے اسی کا جواب دے دے ہر مؤذن کا جواب دینا ضروری نہیں ۔