سوال
کیا یہ واقعہ درست ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے درخواست کی کہ وہ ہرنی کو اس کے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے چھوڑ دے، اور ہرنی نے واپس آکر یہودی کو ایمان لانے پر آمادہ کیا؟
واقعے کی تحقیق
یہ قصہ مختلف کتب میں بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کی سند اور متن دونوں ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں۔
ماخذات
- دلائل النبوة للبيهقي (6/34-35)
- الدلائل لأبی نعيم الأصبھانی (ص 273)
ان کتب میں یہ واقعہ موجود ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
سند کی تحقیق
سند کی کمزوری
- یَعْلى بن إبراهيم اور ان کے شیخ الهيثم بن حماد دونوں راوی مجہول ہیں۔
- ان کے حالات اور وثاقت کے بارے میں محدثین کے ہاں کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔
حافظ ابن حجر کا قول
«وأما تسليم الغزالة فلم نَجِد له إسنادا لا مِن وَجْه قوي ولا مِن وَجْه ضعيف . اهـ»
ترجمہ: ہرنی کے بات کرنے کے واقعے کی کوئی قوی یا ضعیف سند نہیں ہے۔
امام سخاوی کا قول
«تسليم الغزالة ، اشتهر على الألسنة وفي المدائح النبوية ، وليس له كما – قال ابن كثير – أصل ، ومَن نَسَبَه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقد كذب . اهـ .»
ترجمہ: ہرنی کے بات کرنے کا واقعہ عوام اور مدائح نبویہ میں مشہور ہے، لیکن جیسا کہ امام ابن کثیر نے فرمایا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ جو شخص اسے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرے، وہ جھوٹ بولتا ہے۔
نتیجہ
- یہ واقعہ ضعیف سند اور ناقابل اعتبار ہے۔
- اس قصے کو نہ قرآن و سنت سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی شرعی دلیل قائم کی جا سکتی ہے۔
- محدثین کی تصریحات کے مطابق، اس واقعے کو نبی کریم ﷺ سے منسوب کرنا درست نہیں۔
نصیحت
ایسی روایات کو بیان کرنے یا سننے سے پہلے ان کی سند اور صحت کو جانچ لینا ضروری ہے۔ بغیر تحقیق کے ایسی باتیں نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرنا گناہ کا باعث ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔