سوال :
ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی تقریبات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب :
① ہوٹلوں میں منعقدہ تقریبات میں متعدد قباحتیں (کئی خرابیاں) ہیں، ایسی تقریبات عام طور پر فضول خرچی اور غیر ضروری اخراجات کا باعث بنتی ہیں۔
② ہوٹلوں میں تقریبات دعوت ولیمہ کے موقعہ پر تکلفات، بے پناہ اخراجات اور غیر متعلقہ لوگوں کی شرکت پر منتج ہوتی ہیں۔
③ ایسی تقریبات کبھی مرد وزن کے اختلاط کا سبب بنتی ہیں، جو کہ انتہائی معیوب اور منکر انداز میں سامنے آتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر ممتاز علماء پر مشتمل بورڈ (کمیٹی) نے ایک قرارداد سعودی فرمانروا کی خدمت میں پیش کی، جس میں مفاد عامہ اور خیرخواہی کے پیش نظر اس امر کی سفارش کی گئی کہ شادی بیاہ اور دعوت ہائے ولیمہ کے پروگرام ہوٹلوں میں منعقد کرنے پر عائد کر دی جائے۔ لوگ ایسی تقریبات اپنے گھروں میں رکھیں اور ہوٹلوں میں تکلفات سے کام نہ لیں کہ اس طرح ولیمہ کی دعوتیں کئی طرح کی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی طرح ایسی دعوتوں کا انعقاد شادی گھروں میں بھی ممنوع قرار دیا جائے جو کہ بھاری رقوم کے بدلے سے کرائے پر حاصل کئے جاتے ہیں، یہ سب کچھ خیرخواہی کے نتیجے کے طور پر تھا۔ پابندی کی سفارش کا مقصد عوام الناس کا مفاد، ملکی اقتصادیات کا تحفظ اور اسراف و تیذیر کا خاتمہ تھا تاکہ متوسط طبقے کے لوگ بھی شادی رچانے پر قادر ہو سکیں اور تکلفات سے محفوظ رہ سکیں۔ جب ایک شخص اپنے چچا زاد یا کسی عزیز کو ہوٹلوں اور دعوت ولیمہ کے پروگراموں میں اس قدر تکلف کرتے دیکھتا ہے تو اب اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا کہ یا تو وہ بھی ان کی دیکھا دیکھی شاہانہ تکلفات سے کام لے اور اس طرح قرضہ جات اور بھاری بھر کم اخراجات کے بوجھ تلے کراہتا رہے، دوسری صورت یہ ہے کہ ان تکلفات کے ڈر سے شادی کے بھاری پتھر کو اٹھائے سے ہی باز رہے۔
تمام مسلمان بھائیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اس طرح کی دعوتیں ہوٹلوں اور مہنگے قسم کے شادی گھروں میں ہرگز نہ کریں بلاشبہ ایسی تقریبات کا اہتمام سستے قسم کے شادی گھروں اپنے ہی گھر یا اگر ممکن ہو تو اپنے کسی قریبی عزیز کے گھر میں بلاولیٰ بہتر ہے۔