شیطان اور انسان کے درمیان عداوت کا حجم کیا ہے
جواب :
ہمارے رب اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ﴿١٣﴾ قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤﴾ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ﴿١٥﴾ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿١٦﴾ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴿١٧﴾ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿١٨﴾ » [ الأعراف: 13-18]
”فرمایا پھر اس سے اتر جا، کیوں کہ تیرے لیے یہ نہ ہوگا کہ تو اس میں تکبر کرے۔ سو نکل جا، یقیناً تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جب یہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا بے شک تو مہلت دیے جانے والوں سے ہے۔ اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ہی ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرفوں سے اور ان کی بائیں طرفوں سے آوں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ فرمایا : اس سے نکل جا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا، بے شک ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا، میں ضرور ہی جہنم کوتم سب سے بھروں گا۔“
« فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴿٢١﴾ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٢﴾ » [الأعراف: 20-22]
”پھر شیطان نے ان دونوں کے لیے وسوسہ ڈالا، تا کہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو کچھ ان کی شرمگاہوں میں سے ان سے چھپایا گیا تھا اور اس نے کہا تم دونوں کے رب نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ، یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہو جائے۔ اور اس نے دونوں سے قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تم دونوں کے لیے یقیناً خیر خواہوں سے ہوں۔ پس اس نے دونوں کو دھوکے سے نیچے اتار لیا، پھر جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کے لیے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور دونوں جنت کے پتوں سے (لے لے کر) اپنے آپ پر چپکانے لگے اور ان دونوں کو ان کے رب نے آواز دی کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا اور تم دونوں سے نہیں کہا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔“
اللہ تعالیٰ اولاد آدم کو ابلیس اور اس کی پارٹی سے ڈراتا ہے، ان کے لیے ابلیس کی قدیم عداوت کو بیان کر کے جو اس نے تمام انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام سے کی، ان کو جنت سے نکالنے کی کوشش میں، جو نعمتوں والا گھر ہے، وہاں سے مشقت و تھکاوٹ والے گھر کی طرف اور ان کے مستور ہونے کے بعد اس نے ان کی پردہ دری کی۔ یہی تو بنی آدم اور اس کے درمیان ایک سخت عداوت ہے۔