خاندانی منصوبہ بندی اور نسل منقطع کرنے کے شرعی احکام
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

خاندانی منصوبہ بندی

سوال : کیا کسی مجبوری کی بنا پر نسل منقطع کرنے کا آپریشن کروایا جا سکتا ہے کہ بالخصوص جب زچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو؟
جواب : قطع نسل کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر و بیوی میں سے کسی ایک کے توالد و تناسل والے اعضاء میں داخلی یا خارجی ایسی تبدیلی کر دی جائے جس کی وجہ سے وہ ابدی طور پر اولاد کی نعمت سے محروم ہو جائیں اور بچہ جنم دینے کے بالکل قابل نہ رہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دور میں مردوں کو خصی کر دیا جاتا اور آج کے ترقی یافتہ دور میں نس بندی اور آپریشن وغیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ صورت ناجائز و حرام ہے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على وعثمان بن مظعون التبتل و لواذن له لا ختصينا» [بخاري، النكا ح : باب ما يكره من التبتل و الخصاء 5073، مسلم1402، ترمذي1083، نسائي3214، ابن ماجه2/ 593، مسند احمد1/ 175، دارمي2167]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو نکاح کے بغیر رہنے سے منع کر دیا۔ اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔“
سیدنا عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
«كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس لنا شيء، فقلنا: الا نستخصي؟ فنهانا عن ذلك، ثم رخص لنا ان ننكح المراة بالثوب، ثم قرا علينا: يايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين» [بخاري، كتاب النكا ح : باب ما يكره من التبتل والخصاء 5075]
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے پاس ہماری کوئی بیوی نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے کہا: ”کیا ہم خصی نہ ہو جائیں ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کیا پھر ہمیں رخصت دی کہ ہم ایک کپڑے کے عوض عورتوں سے نکاح کر لیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر قرآن کی یہ آیت پڑھی : ”اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو۔ یقینََا اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ نس بندی یا بذریعہ اپریشن آلات توالد و تناسل میں ایسا تغیر و تبدل کرنا جس سے نسل کا سلسلہ منقطع ہو جائے باکل ناجائز و حرام ہے۔ البتہ بعض اوقات ایسی صورت کچھ خواتین کے ساتھ پیش آ جاتی ہے کہ ان کے اعضائے تولید اس قابل نہیں ہوتے کہ جن سے فطری اور طبعی طریقے سے ولادت ہو سکے۔ مجبور غیر فطری طریقے سے بذریعہ آپریشن بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماہر ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق بذریعہ آپریشن دو یا تین مرتبہ ولادت کے بعد عورت میں بچہ جنم دینے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی بلکہ جان کے ضیاع کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت کا حاملہ ہونا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ چنانچہ اضطراری اور مجبوری کی حالت میں جب ماہر ڈاکٹر فیصلہ دے دیں کہ یہ عورت اب ولادت کے قابل نہیں رہی تو ایسی صورت اختیار کرنے کی گنجائش ہے کہ ولادت کا سلسلہ منقطع کر دیا جائے۔ کیونکہ اسلام کا اصول ہے :
«الضرورات تیبیح المحضورات» (شدید مجبوری حرام اشیاء کو جائز بنا دیتی ہے۔)
لہٰذا شدید مجبوری کی صورت میں ماہر مسلمان ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق اپریشن کروایا جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے