قاضی کا اپنے کام میں رویہ اور طرز عمل
قاضی کو دانا ہونا چاہیے۔ جہاں نرمی کی ضرورت ہو وہاں نرمی استعمال کرے اور جہاں سختی کا مقام ہو وہاں سختی، جبکہ نرمی، حسن اخلاق اور عدم شدت کا پہلو غالب رہنا چاہیے، مگر جہاں ضروری ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ» [العنكبوت: 46]
”اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، مگر وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا۔“
لہٰذا ظالموں کے ساتھ احسن برتاؤ سے (بتدریج) سخت رویے کی طرف منتقل ہوا جائے جس کا قاعدہ یہ قول ربانی ہے:
«فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ» [آل عمران: 159]
”پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا ہے۔“
جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے
«وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا» [البقرة: 83]
”اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔“
لہٰذا ان کے ساتھ احسن انداز میں مجادلہ اور تکرار کرے لیکن اگر یہ دیکھے کہ بحث کرنے والا مد مقابل حق سے دور ہے اور مغالطہ دے رہا ہے تو تب سختی سے اس کو ڈانٹے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس کو اس کے عمل بد کے نتائج سے باخبر کرے۔ بعض اوقات اس کو جیل بھیج دینے یا سزا دینے جیسی کوئی بڑی ضرورت بھی پیش آجاتی ہے، لیکن جب تک مسائل احسن انداز، بہترین گفتگو اور خیر خواہی کے دائرے میں پیش کیے جاتے رہیں تو اسی کو مقدم رکھا جائے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 208/23]