«باب صلة الأخ المشرك»
مشرک بھائی کے ساتھ صلہ رحمی
«عن عبد الله بن عمر، ان عمر بن الخطاب راى حلة سيراء عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل فاعطى عمر بن الخطاب رضى الله عنه منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لم اكسكها لتلبسها فكساها عمر بن الخطاب رضى الله عنه اخا له بمكة مشركا. وفي لفظ للبخاري: اني لم اعطكها لتلبسها ولكن تبيعها او تكسوها.» [متفق عليه: رواه مالك فى اللباس 18، والبخاري 886، ومسلم 2068.]
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے ریشم کا دھاری دار جوڑا مسجد کے دروازے پر بکتا ہوا دیکھا تو فرمایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اس جوڑے کو خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب وفود آپ سے ملنے کے لیے آئیں، ان کے استقبال کے لیے پہن سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لباس تو صرف وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے چند جوڑے تحفے میں آئے تو آپ نے عمر بن خطاب کو ایک جوڑا عطا فرمایا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں جب کہ آپ نے عطارد کے جوڑے کے بارے میں اس طرح فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہتا تھا۔ اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ: یہ میں نے تمھیں پہننے کے لیے نہیں عطا کیا ہے، تم اس کو بیچو یا کسی کو پہنا دو۔