نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں – ایک سنت مظلومہ

 

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی، فعلی اور تقریری سنت ہے، اس کے ثبوت پر احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں:

قولی احادیث

دلیل نمبر (1)

سیدنا ابوسعید عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلّوا قبل صلاۃ المغرب، قال فی الثّالثۃ: لمن شاء، کراھیۃ أن یتّخذھا النّاس سنّۃ
”نماز مغرب سے پہلے (دو رکعتیں) پڑھو، (ایسا دو بار فرمایا ) ، تیسری بار فرمایا، جو چاہے (پڑھے) ، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ کہیں لوگ اس (نماز ) کو (لازمی) سنت نہ بنا لیں۔“ [صحيح بخاري: 1183، سنن ابي داو، د: 1281]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔ 852ھ) لکھتے ہیں:
لم یرد نفی استحبابھا لأن لا یمکن أن یأمر بما لا یستحبّ، بل ھذا الحدیث من أقوی الأدلّۃ علی استحبابھا
” (اس حدیث سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب کی نفی نہیں، اس لیے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چیز کے بارے میں حکم فرمائیں اور وہ (کم از کم) مستحب (بھی) نہ ہو، بلکہ یہ حدیث تو مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب پر قوی ترین دلیلوں میں سے ایک ہے۔“ [ فتح الباري فى شرح صحيح البخاري: 3/60]

دلیل نمبر (2)

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے ہی سنن ابی داؤد میں حسن سند سے یہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلّوا قبل المغرب رکعتین ….
”نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو۔“ [سنن ابي داؤد 1/182، ح: 1281، وسنده، حسن]

دلیل نمبر (3)

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بین کلّ أذانین صلاۃ، ثلاثاً، لمن شاء
” (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا ) ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، تیسری بار فرمایا، اس کے لیے جو پڑھنا چاہے۔“ [صحيح بخاري: 624، صحيح مسلم: 1/287، ح: 838، سنن ابي داو، د: 1/182، ح: 1283، سنن ترمذي: 1/45، ح: 185، سنن ابن ماجه: 1/82، ح: 1162، سنن نسائي: 2/28، ح: 682، مسند الامام احمد: 4/86]
پہلی اذان سے مراد اذان اور دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔
مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کے جواز پر یہ تیسری قولی حدیث ہے، کیونکہ اس میں بلا استثنا پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے، محدثین کرام نے اس حدیث سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے۔

دلیل نمبر (4)

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من صلاۃ مفروضۃ الّا وبین یدیھا رکعتان
”کوئی فرضی نماز ایسی نہیں ہے، جس سے پہلے دو رکعتیں نہ ہوں۔“ [ سنن الدارقطني: 1/267، ح: 1٠34، وسنده، حسن]
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔
اس حدیث میں بھی بلااستثنا ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

فعلی حدیث

دلیل نمبر (5)

سیدنا عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
انّ رسول الله صلى الله عليه وسلم صلّٰی قبل المغرب رکعتین
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود) مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔“ [صحيح ابن حبان: 1588، قيام الليل للمروزي: 64، وسنده، صحيح]
اس روایت کے بارے میں علامہ مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم
”یہ سند امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔“ [اختصار قيام الليل للمقريزي: 64]
اس کے باوجود بعض جاہلوں کا کہنا ہے:
”مغرب سے پہلے غالباً آپ نے خود توکوئی نماز نہیں پڑھی۔“

تقریری احادیث

دلیل نمبر (6)

قال: ‏‏‏‏ سمعت مرثد بن عبد الله اليزني، ‏‏‏‏ قال: ‏‏‏‏ أتيت عقبة بن عامر الجهني، ‏‏‏‏ فقلت: ‏‏‏‏ ألا أعجبك من أبي تميم يركع ركعتين قبل صلاة المغرب ! فقال عقبة: ‏‏‏‏ إنا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: ‏‏‏‏ فما يمنعك الآن، ‏‏‏‏ قال: ‏‏‏‏ الشغل
”مرثد بن عبداللہ یزنی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں (صحابی رسول) سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، کیا میں آپ کو ابوتمیم رحمہ اللہ (تابعی) کی وجہ سے تعجب میں نہ ڈالوں؟ وہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں، اس پر سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ (مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا اہتمام) کرتے تھے، میں نے عرض کی، اب آپ کو کس چیز نے روک دیا ہے؟ فرمایا، مصروفیت نے۔“ [صحيح بخاري: 1/158، ح: 1184]
علامہ سندھی حنفی (م 1139ھ) لکھتے ہیں:
والظّاھر أنّ الرّکعتین قبل صلاۃ المغرب جائزتان، بل مندوبتان، ولم أر للمانعین جواباً شافیاً
”ظاہر ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں جائز، بلکہ مستحب ہیں، میں منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں پا سکا۔“ [حاشية السندي على النسائي: 1/283، 2/28]
علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی (م986ھ) فرماتے ہیں:
الأصحّ أنّہ یستحبّ الرّکعتان قبلہ وعلیہ السّلف
”صحیح ترین بات یہ ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں مستحب ہیں اور ان پر سلف صالحین کا عمل رہا ہے۔“ [تكملة مجمع بحار الانوار: 4/106]
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وفیہ رد علی قول القاضی أبی بکر بن العربیّ: لم یفعلھما أحد بعد الصّحابۃ، لأنّ أبا تمیم تابعیّ، وقد فعلھما …
”اس حدیث میں قاضی ابوبکر بن العربی کے اس قول کا رد ہوتا ہے کہ یہ دو رکعتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کسی نے نہیں پڑھیں، کیونکہ ابوتمیم رحمہ اللہ تابعی ہیں اور انہوں نے یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں۔“ [فتح الباري: 2/60]

دلیل نمبر (7)

قال أنس بن مالك: كنا نصلى علي عھد رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد غروب الشمس قبل صلاة المغرب، فقلت له: أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاھما؟ قال: كان يرانا نصليھما، فلم يأمرنا ولم ينھنا.
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں غروب آفتاب کے بعد اور نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، (راوی مختار بن فلفل تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے عرض کی، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دو رکعتیں پڑھتے دیکھتے تھے، لیکن نہ ہمیں (واجبی) حکم دیتے تھے، نہ ہی منع کرتے تھے۔“ [ صحيح مسلم: 1/278، ح: 836]

دلیل نمبر (8)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صليت الركعتين قبل المغرب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔“ [ سنن ابي داو، د: 1/189، ح: 1282، وسنده، صحيح]

دلیل نمبر (9)

عن أنس بن مالك قال: ‏‏‏‏ كان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يبتدرون السواري حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهم كذلك يصلون الركعتين قبل المغرب ولم يكن بين الأذان والإقامة شيء.
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مؤذن اذان (مغرب) کہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (کبار) صحابہ کرام ستونوں کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کرتے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے، وہ (صحابہ) اسی حالت میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے، اذان اور اقامت کے درمیان کثیر وقت نہیں ہوتا تھا۔“ [صحيح بخاري: 1/87، ح: 625، صحيح مسلم: 1/287، ح: 837]
صحیح مسلم میں یہ الفاظ زائد بیان ہوئے ہیں:
حتّٰی انّ الرّجل الغریب لیدخل المسجد، فیحسب أنّ الصّلاۃ قد صلّیت، من کثرۃ من یصلّیھا.
”یہاں تک کہ کوئی اجنبی (مسافر) مسجد میں داخل ہوتا تو وہ مغرب سے پہلے دو نفل پڑھتے والوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ خیال کرتا کہ نماز مغرب پڑھی جا چکی ہے۔“

دلیل نمبر (10)

زر بن حبیش کہتے ہیں:
انّ أبیّ بن کعب وعبد الرّحمٰن ابن عوف کانا یصلّیان قبل المغرب رکعتین رکعتین.
”سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما دونوں مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔“ [شرح مشكل الآثار للطحاوي: 14/121، وسنده، حسن]

دلیل نمبر (11)

عبداللہ بن ابی الہذیل کہتے ہیں:
دعوت رجلاً من أصحاب النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الی منزلی، فلمّا أذّن المؤذّن المغرب، فصلّٰی، فسألت عن ذلک، فقال: کان أبیّ بن کعب یصلّیھما
”میں نے ایک صحابی رسول کو اپنے گھر میں دعوت دی، جب مؤذن نے مغرب کی اذان کہی تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔“
[ مسند المسدد بحواله المطالب العالية لابن حجر: 621، وسنده، صحيح ]

دلیل نمبر (12)

امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
حسنتان جمیلتان لمن أراد الله بھما.
”جو آدمی ان دو رکعتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ادا کرے، اس کے لیے بہت بہترین اور اچھی ہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 2/356، وسنده، صحيح]

دلیل نمبر (13)

حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رأیت ابن أبی لیلٰی صلّٰی رکعتین قبل المغرب.
”میں نے ابن ابی لیلیٰ کو دیکھا کہ انہوں نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 2/355، وسنده، صحيح]

دلیل نمبر (14)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقال أحمد واسحاق: ان صلّاھما فحسن، وھذا عندھما علی الاستحباب.
”امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے کہا ہے، اگر آدمی یہ دو رکعتیں ادا کر لے تو اچھا ہے، یہ دو رکعتیں ان کے نزدیک مستحب ہیں۔“ [ جامع ترمذي، تحت حديث: 185]
قارئین کرام ! ان صحیح احادیث اور آثار صحیحہ سے نماز مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ان پر عمل ہونا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وما آتاکم الرّسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا﴾ [الحشر: 7]
”جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں، اسے پکڑ لو، اور جس سے وہ منع فرما دیں، اس سے رک جاؤ۔“
جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری سنت سے منع کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور آج سے ہی اس سنت پر عمل کرنا چاہیے، سنت کی پیروی ہی محبت رسول کی حقیقی علامت ہے۔
اب ہم (دوسرے حصہ میں) انتہائی اختصار کے ساتھ ان لوگوں کے دلائل کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں، جو ان دو رکعتوں کے استحباب کے قائل نہیں ہیں اور محض اپنے امام کے ”بے سند“ اور ”ضعیف“ قول کے مقابلہ میں ان احادیث صحیحہ و آثار کی تاویل یا رد کرتے ہیں۔

دلیل نمبر: 1
عن طاؤس قال: سئل ابن عمر عن الرّكعتين قبل المغرب فقال: ما رأيت أحداً علی عھد رسول الله صلّی الله عليه وسلم يصلّيھما ورخّص في الرّكعتين بعد العصر.
”طاؤس کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دو رکعتوں کے پڑھنے کی اجازت دی۔“ [سنن ابي داود: 182/1، ح: 1284، مسند عبد بن حميد: ق 105، ح: 804 مختصرا، السنن الكبرٰي للبيهقي: 476/2، وسنده حسن]
تبصرہ:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مغرب سے پہلے کسی کو نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا، جبکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے دیکھا ہے، حجت اس کی بات ہو گی، جس نے دیکھا ہے نہ کہ اس کی بات جس نے نہیں دیکھا، یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ مثبت اور منفی میں تعارض ہو تو مثبت کو ترجیح ہوتی ہے۔
امام ِ بیہقی رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ـ:
القول في مثل ھذا قول من شاھد دون من لم يشاھد …
”اس طرح کے (تعارض ) میں اس شخص کی بات حجت ہو گی، جس نے مشاہدہ کیا ہے، نہ کہ اس کی جس نے مشاہدہ نہیں کیا۔“
تنبیہ:
یہاں پر بطور فائدہ عرض ہے کہ بعض الناس اس روایت کو پیش کرتے وقت اس کا آخری حصہ ترک کر دیتے ہیں کہ:
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دور کعتیں پڑھنے کی اجازت دی“ ۔
کیونکہ یہ ان کے خلاف ہے، یہ بدترین خیانت اور دین میں تحریف ہے۔
فائدہ:
قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے کہا کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، انہوں نے کہا، وہ تو ان دو رکعتوں سے منع کرتے تھے، میں نے سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوا کسی صحابی کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا۔ [مشكل الآثار للطحاوي: 122/14]
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، اس کے راوی ہارون بن کامل کی توثیق نہیں مل سکی، ابن یونس مصری نے اسے اپنی تاریخ میں بغیر توثیق کے ذکر کیا ہے۔
دلیل نمبر: 2
قال عبدالرّزّاق عن الثّوری عن منصور عن ابراھيم، قال: لم يصلّ أبوبكر ولا عمر ولا عثمان الرّكعتين قبل المغرب.
”ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں نہیں پڑھیں۔“ [مصنف عبدالرزاق: 435/2، 3985]
تبصرہ:
یہ روایت کئی وجوہ سے ”ضعیف“ ہے:
(ا) امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی ”مدلس“ ہیں اور سماع کی تصریح ثابت نہیں ہے۔
(ب) امام ابراہیم نخعی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات اور سیدنا عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد پیدا ہوئے ہیں، لہٰذا یہ روایت سخت ”منقطع“ ہے، ”منقطع“ سے حجت لینا صحیح نہیں۔
فائدہ:
المطالب العالیہ لابن حجر (623) میں ہے:
قال مسدّد: حدّثنا یحیٰی عن سفیان، حدّثنی منصور عن أبیہ، قال….
منصور کے باپ کے حالات نہیں مل سکے، لہٰذا سند مردود ہے۔
دلیل نمبر: 3
عن حماد قال: سألت ابراہیم عن الصّلاۃ قبل المغرب فنھانی عنھا وقال: انّ النّبیّ صلّی الله علیہ وسلم و أبابکر و عمر لم یصلّوھا.
”حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے، کہتے ہیں، میں نے امام ابراہیم نخعی سے مغرب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے مجھے اس سے منع فرما دیا اور کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یہ نماز نہیں پڑھی۔“ [كتاب الآثار للامام ابي حنيفة برواية محمد: 32]
تبصرہ:
یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، اس کا راوی محمد بن حسن شیبانی بالاتفاق ”ضعیف“ اور ”کذاب“ ہے، اسے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ وغیرہ نے مجروح قرار دیا ہے۔
امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:
محمّد جہمیّ کذّاب.
”محمد (بن حسن شیبانی) جہمی (گمراہ فرقے کا) اور کذاب (پرلے درجے کا جھوٹا) ہے۔“ [الضعفاء للعقيلي: 52/4، وسنده صحيح]
نیز فرماتے ہیں:
لیس بشیء.
”یہ کچھ بھی نہیں ہے۔“ [تاريخ ابن معين: 177]
انہوں نے محمد بن حسن کو ”ضعیف“ بھی قرار دیا ہے۔ [الكامل لابن عدي: 174/6، وسنده صحيح]
مزید فرماتے ہیں:
اجتمع النّاس علی طرح ھؤلاء النفر، لیس یذاکر بحدیثھم، ولا یعتمد بھم، منھم محمّد بن الحسن…
”لوگوں (محدثین) کا ان راویوں کو ترک کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے، ان کی احادیث کا مذاکرہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان پر اعتماد کیا جاتا ہے، ان (متروک) راویوں میں سے ایک محمد بن حسن ہے۔“ [الكامل لابن عدي: 175/6، وسنده صحيح]
امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا أروی عنہ شیأ.
”میں اس سے کوئی روایت نہیں لیتا۔“ [الجرح والتعديل: 27/7، وسنده صحيح]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت کے خلاف ایسے جھوٹے راوی کی روایت پیش کرنا دین اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
(ب) حماد بن ابی سلیمان آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔
امام ابن سعد لکھتے ہیں:
اختلط فی آخر أمرہٖ.
”یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔“ [تهذيب التهذيب: 15/3]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (م 807ھ) لکھتے ہیں:
ولا یقبل من حدیث حمّاد الّا ما رواہ عنہ القدماء: شعبۃ، وسفیان الثّوریّ، والدّستوائیّ، ومن عدا ھؤلاء رووا عنہ بعد الاختلاط.
”حماد بن ابی سلیمان کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی، سوائے اس حدیث کے جو ان سے قدیم شاگرد، شعبہ، سفیان ثوری، دستوائی رحمہم اللہ بیان کریں، ان کے علاوہ سارے لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے۔“ [مجمع الزوائد: 119/1۔ 120]
امام ابوحنیفہ بھی حماد کے ان شاگردوں میں سے ہیں، جنہوں نے ان سے اختلاط کے بعد سماع کیا ہے،
لہٰذا یہ روایت ”ضعیف“ و مردود ہے، اس میں نعمان بن ثابت راوی بھی بالاتفاق ”ضعیف ومتروک“ ہے۔
امام زیلعی حنفی (م 726ھ) نے بھی اس روایت کو ”معضل“ (سخت منقطع) قرار دیا ہے۔ [نصب الراية فى تخريج احاديث الهداية: 141/2]
دلیل نمبر: 4
قال الطّبرانی: حدّثنا يحيی بن صاعد ، ثنا محمّد بن منصور المكّی ، ثنا يحيی بن أبي الحجّاج ، ثنا عيسی بن سنان عن رجاء بن حيوة عن جابر ، قال: سألنا نساء رسول اللہ صلّی اللہ عليه وسلم: ھل رأيتنّ رسول اللہ صلّی اللہ عليه وسلم يصلّي الرّكعتين قبل المغرب؟ فقلن: لا ، غير أنّ أمّ سلمة قالت: صلّاھما عندي مرّة ، فسألته: ما ھذه الصّلاة؟ فقال: نسيت الرّكعتين قبل العصر ، فصلّيتھما الآن.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے سوال کیا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا، نہیں، سوائے اس کے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا، آپ نے ایک دفعہ یہ دو رکعتیں میرے ہاں پڑھی تھیں، میں نے پوچھا، یہ کیسی نماز ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عصر سے پہلے دو رکعتیں ادا کرنا بھول گیا تھا تو اب ان کو ادا کیا ہے۔“ [مسند الشاميين للطبراني: 212/2، ح: 2110]
تبصرہ:
یہ روایت ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کی سند میں عیسیٰ بن سنان الحنفی راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ (765۔ 806ھ) فرماتے ہیں:
ضعّفہ الجمہور.
”اس کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [المغني عن حمل الاسفار فى الاسفار: ٢/٢٠٨]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وضعّفہ الجمہور.
”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ [مجمع الزوائد: ١/٣٦]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسے لیّن الحدیث قرار دیتے ہیں۔ [تقريب التهذيب: ٥٢٩٥]
اس روایت کے دوسرے راوی یحییٰ بن ابی الحجاج کو بھی حافظ ابن حجر نے لیّن الحدیث لکھا ہے۔ [التقريب: 7527]
دلیل نمبر: 5
عن ابن المسیّب ، قال: کان المھاجرون لا یرکعون قبل المغرب وکانت الأنصار ترکع بھما.
”سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مہاجرین صحابہ کرام مغرب سے پہلے دو رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، جبکہ انصار پڑھتے تھے۔“
تبصرہ:
(ا) یہ روایت امام زہری رحمہ اللہ کی ”تدلیس“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، اس کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔
(ب) انصار صحابہ کا ان دو رکعتوں کو ادا کرنا تو ان کے مستحب ہونے کی واضح دلیل ہے، مہاجرین کے نہ پڑھنے سے وجوب کی نفی ہوتی ہے، جس کے ہم بھی قائل نہیں۔
دلیل نمبر: 6
عن عبدالله بن بريدة عن أبيه ، قال: قال رسول الله صلّی الله عليه وسلّم: انّ عند كلّ أذانين ركعتين ماخلا صلاة المغرب.
”عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر دو اذانوں (اذان اور تکبیر) کے درمیان دو رکعتیں (مستحب) ہیں، سوائے مغرب کی نماز کے۔“ [سنن الدارقطني: 265/1، ح: 1028، مسند البزار: 334/1]
تبصرہ:
(ا) یہ روایت حیان بن عبیداللہ (حسن الحدیث عند الجمہور) کے اختلاط کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذکر الصّلت منہ الاختلاط.
”صلت نے اس سے اختلاط کو ذکر کیا ہے۔“ [لسان الميزان: 370/2، التاريخ الكبير: 58/3]
یہ حدیث بھی اس کا اختلاط ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند و متن کو خطا پر مبنی قرار دیا ہے۔ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 9/4]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ذكره ابن عدی، وقيل: انّه اختلط.
”اس (حیان بن عبیداللہ) کو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، کہا گیا ہے کہ یہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔“ [مجمع الزوائد: 231/2]
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے ”ماخلا صلاة المغرب“ کی زیادت کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [البدر المنير لابن الملقن: 294/4]
(ب) عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ خود مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري: 157/1، ح: ١١٨٣]
نیز وہ خود یہ نماز پڑھتے بھی تھے۔ [صحيح ابن خزيمة: 1287، صحيح ابن حبان: 1559، وسنده صحيح]
دلیل نمبر: 7
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلّوا المغرب لفطر الصّائم وبادروا طلوع النّجوم.
”مغرب (کی نماز) روزہ دار کے افطار کے وقت پڑھو اور ستاروں کے طلوع ہونے سے سبقت لے جاؤ (یعنی پہلے ہی نماز پڑھ لو)“ ۔ [مسند الامام احمد: 421/4]
تبصرہ:
یہ روایت ”رجل مبهم“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
دلیل نمبر: 8
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
صلّوا صلاة المغرب مع سقوط الشّمس، بادروا بھا طلوع النّجوم
”مغرب سورج کے غروب ہوتے ہی پڑھ لو، اس کے پڑھنے میں ستاروں کے طلوع ہونے سے سبقت لے جاؤ۔“ [المعجم الكبير للطبراني: 176/4]
تبصرہ:
ان دونوں روایتوں میں نماز مغرب جلدی پڑھنے کا حکم ہے، اس نے نماز مغرب سے پہلے دو رکعتوں کی نفی یا عدم جواز ثابت نہیں ہوتا۔
مغرب کی اذان بھی تو سورج کے غروب ہونے کے بعد ہی کہی جاتی ہے، اگر اچھے طریقے سے کہی جائے تو چار پانچ منٹ اذان پر صرف ہو جاتے ہیں، اب اگر کوئی اس روایت کو لے کر مغرب کی اذان نہ کہنے کا شوشہ کھڑا کر دے تو کیا وہ حق بجانب ہو گا؟
سیدھی سی بات ہے کہ جس ہستی نے مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم دیا ہے، اسی نے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا حکم دیا ہے، خود بھی پڑھ کر دکھائی ہیں، نیز اپنے صحابہ کرام کو پڑھتے ہوئے دیکھا تو اظہار رضامندی فرمایا ہے۔
پھر دو رکعتوں کے پڑھنے میں بھلا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کی نماز شروع کرنے، پڑھنے میں اتنی تاخیر نہ کرو کہ ستارے ظاہر ہو جائیں، اگر جلدی میں دو رکعتیں پڑھ لی جائیں تو ستارے کہاں ظاہر ہوتے ہیں؟
جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز مغرب میں قصار مفصّل (چھوٹی چھوٹی آخری سورتوں) کی قراءت ثابت ہے۔ [سنن النسائي: 176/2، ح: 984، 983، وسنده حسن ، وهاں آپ صلى الله عليه وسلم سے سوره طور كي قراءت بهي ثابت هے۔ صحيح بخاري: 105/1، ح: 765، صحيح مسلم: 187/1، ح: 463]
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
انّ رسول الله صلّی الله عليه وسلّم قرأ فی صلاة المغرب بسورة الأعراف، فرّقھا في ركعتين. ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب میں سورہ اعراف پڑھی، اس کو دو رکعتوں میں تقسیم کر دیا تھا۔“ [سنن النسائي: 154/1، ح: 991، وسنده صحيح]
سورہ طور اور سورہ اعراف کی تلاوت کرنے کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز مغرب یقیناً تاخیر سے ادا نہیں ہوئی تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز عین وقت پر پڑھتے تھے، کیا دو رکعتیں اس سے بھی زیادہ وقت لیتی ہیں؟
حافظ نووی رحمہ اللہ (631۔ 676ھ) لکھتے ہیں:
والمختار استحبابھا لھذه الأحاديث الصّحيحة الصّريحة
”ان صحیح و صریح احادیث کی روشنی میں مختار بات یہ ہے کہ مغرب سے پہلے (دو رکعت) نماز مستحب ہے۔“ [شرح صحيح مسلم للنووي: 278/1]
نیز لکھتے ہیں:
وأمّا قولھم: يؤدّي الٰی تأخير المغرب، فھذا خيال منابذ للسّنّة، فلا يلتفت اليه، ومع ھذا فھو زمن يسير، لا تتأخّر به الصّلاة عن أوّل وقتھا، وأمّا من زعم النّسخ، فھو مجازف، لأنّ النّسخ لا يصار اليه الّا اذا عجزنا عن التّأويل والجمع بين الأحاديث وعلمنا التّاريخ، وليس ھنا شيئ من ذلك.
”رہا ان (منکرین سنت) کا یہ کہنا کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مغرب کو لیٹ کر دیتا ہے، تو یہ سنت دشمنی پر مبنی خیال ہے، اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا، نیز ان دو رکعتوں کی ادائیگی میں تھوڑا سا وقت لگتا ہے، جس سے نماز اول وقت سے لیٹ نہیں ہوتی، جس نے یہ دعوی کیا کہ یہ نماز منسوخ ہے، وہ بے تکی اور بے اصولی باتیں کرنے والا ہے، کیونکہ منسوخیت کا دعوی تو تب ہو گا، جب ہم حدیثوں کی تاویل اور ان کے درمیان جمع و تطبیق سے عاجز آ جائیں اور ہمیں تاریخ کا علم ہو جائے، جبکہ یہاں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔“ [شرح مسلم للنووي: 278/1]
نیز دیکھیں [السعاية از عبدالحئ اللكنوي الحنفي: 31/2]
برصغیر کے مشہور حنفی عالم جناب عبدالحئ لکھنوی (1264۔ 1304ھ) حافظ قسطلانی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مجموع الأحاديث تدل علی استحباب تخفيفھا كركعتی الفجر
”احادیث کا مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتوں کو فجر کی نماز سے پہلے والی دو رکعتوں کی طرح تخفیف سے پڑھا جائے۔“ [السعاية: 29/2]
علامہ کرمانی حنفی بھی اس نماز کے استحباب کے قائل ہیں۔ [شرح الكرماني: 23/5]
جناب محمود الحسن دیوبندی اسیر مالٹا (م 1339ھ) کہتے ہیں:
”ہاں ! اگر بلا تاخیر مغرب نوافل پڑھ سکے یا کسی وجہ سے جماعت میں دیر ہو تو جائز ہے۔“ [تقارير شيخ الهند: 244، 52]
الحاصل:
مغرب سے پہلے دو نفل مستحب ہیں، کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے، دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے محبت کرنے والا بنائے۔ آمین !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے