’’جزاك الله خيراً‘‘ کہنا مشروع ہے
اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے، جس میں ہر اصولی و جزئی معاملے کے بارے میں رہنمائی موجود ہے۔ مسلمان تو اس کا دعویٰ کرتے ہی ہیں اور اپنے اس دعویٰ میں سچے بھی ہیں ، تا ہم اس بات کا اعتراف غیر مسلموں کو بھی ہے۔
سید نا سلمان فارسی رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے مشرکین نے کہا:
ہم دیکھتے ہیں کہ تمھارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تمھیں ہر بات کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ قضائے حاجت (کے آداب) کی بھی، تو سلمان رضی اللہ نے فرمایا:
ہاں ! بیشک انھوں نے ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع کیا ہے اور گوبر اور ہڈی کے استعمال سے منع کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کوئی تین پتھروں سے کم سے استنجا نہ کرے ۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الطهارة ، باب الاستطابة ، رقم الحديث: ٢٦٢ [٦٠٧])
یعنی اسلام کے ابتدائی ادوار ہی سے سب میں یہ بات معروف و مشہور ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر مسئلے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ والحمد للہ
آمد بر سر مطلب : کچھ عرصے سے یہ بات زیر بحث ہے کہ کسی بھائی کے تعاون پر جب اُسے دعائیہ کلمات: جزاك الله خيرًا کہے جائیں تو بعض احباب اسے چند وجوہ کی بنا پر غیر صحیح قرار دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں دلائل کے اعتبار سے راجح موقف کیا ہے؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ سے عار یتا ہار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، انھوں نے (بغیر وضو) نماز پڑھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمیم کی آیت اتاری۔ (اس موقع پر) سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ سے کہا:
’’جزاك اللهُ خَيْرًا‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ دے۔
واللہ ! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوا جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرمادی۔
(صحيح البخاري، كتاب التيمم – باب إذا لم يجد ماءً ولا ترابا، رقم الحديث: ٣٣٦ ، صحیح مسلم، کتاب الحيض ، باب التيمم رقم الحديث: ١٠٩/ ٣٦٧)
اس حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ان کلمات کے ساتھ دعا دینا صحابہ کرام رضی اللہ کے ہاں عہد نبوت میں بھی معروف تھا۔
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد (خنجر سے ) زخمی ہوئے، میں ان کے پاس گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ سیدنا عمر رضی اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرنے لگے اور کہا:
’’جَزَاكَ اللهُ خَيْرًا‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
تو سید ناعمر رضی اللہ نے کہا :
’’راغب و راھب‘‘
مجھے اللہ تعالیٰ سے امید بھی ہے اور میں خوف زدہ بھی ہوں ۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب الاستخلاف و ترکه رقم الحدیث: ۱۸۲۳/۱۱)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ ایک طویل حدیث بیان کرتی ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے کھجوروں کے بدلے میں اونٹ خریدے۔ گھر میں کھجوریں دستیاب نہ ہوئیں ،اعرابی کو بتایا تو وہ دھو کے کا واویلا کر نے لگا۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ سے کھجوروں کا پوچھ کر اعرابی کو ان کے پاس بھیجا۔
بعد میں جب اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو کہنے لگا:
’’جزاك الله خيرا فقد أوقيت وأطيبت.‘‘
اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے، آپ نے پورا پورا اور خوب عمدہ ادا کر دیا۔
(مسند أحمد ٦ / ٢٦٨ – ٢٦٩ و في نسخة ٤٣ / ٣٣٧ – ٣٣٩ ، رقم الحديث: ٢٦٣١٢، وسنده حسن، محمد بن إسحاق صرح بالسماع عنده)
تعامل صحابہ اور تقریری حدیث سے مذکورہ مسئلہ صراحتاً ثابت ہو جاتا ہے۔
اسی سلسلے میں بڑی واضح اور صریح دلیل درج ذیل ہے :
سید نا جابر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جزاكم الله معشر الأنصار خيرا، ولا سيما آل عمرو بن حرام و سعد بن عبادة.)
’’اے انصار! اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دے۔ خاص طور پر آل عمر و بن حرام اور سعد بن عبادہ کو۔‘‘
(السـنـن الـكـبـرىٰ للنسائي ٣٦١/٧ رقم الحديث: ۸۲۲۳ و في نسخة :۸۲۸۱ وسنده صحيح)
علاوہ ازیں ان احادیث سے بھی ہمارا مطلوبہ مفہوم واضح ہوتا ہے:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا يشكر الله من لا يشكر الناس))
’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا ۔‘‘
(سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب فى شكر المعروف ، رقم الحديث: ٤٨١١ ، سنن الترمذي كتاب البر والصلة – باب ماجاء في الشكر لمن أحسن إليك ، رقم الحديث: ١٩٥٧ ، و إسناده صحيح و صححه ابن حبان : ٣٤٠٧)
جہاں تک ان کلمات کی ترغیب والی روایات کا تعلق ہے تو ان کی مختصر تحقیق درج ذیل ہے:
① سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ سے مرفوعاً مروی ہے:
((من صنع إليه معروف فقال لفاعله : جزاك الله خيرا فقد أبلغ فى الثناء.))
جس کے ساتھ بھلائی کی جائے اور وہ جواباً جزاک اللہ خیر کہے تو اس نے تعریف کا حق ادا کر دیا۔
(سنن الترمذي ، كتاب البر والصلة، رقم الحديث: ٢٠٣٥ ، السنن الكبرىٰ للنسائي : ۹۹۳۷ وغيرهما وسنده ضعيف سلیمان التیمی مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں ہے)
② دوسری روایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے۔
دیکھئے مسند الحمیدی (۱۱۹۴) مصنف عبد الرزاق (۳۱۱۸) مصنف ابن ابی شیبہ (۷۰/۹ رقم الحدیث:۲۶۵۰۹) و غیر ہم وسندہ ضعیف ، موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔
③ اثر : سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ نے فرمایا:
’’لو يعلم أحدكم ما له فى قوله لأخيه : جزاك الله خيرا لأكثر منها بعضكم لبعض .‘‘
’’اگر کسی کو علم ہو جائے کہ اپنے بھائی کو جزاک اللہ خیرا کہنے کا کتنا اجر وثواب ہے تو تم کثرت سے ایک دوسرے کو یہ کلمات کہو ۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة ٩/ ٧٠-٧١ ح ٢٦٥١٠)
اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ سے راوی طلحہ بن عبید اللہ بن کریز کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ (المتوفی : ۵۰ھ) سے اس کی روایت کو منقطع قرار دیا ہے، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ کی وفات ۲۳ھ ہے۔
(المطالب العالية ح ٣٥٧)
حافظ سیوطی نے بھی طلحہ بن عبید اللہ بن کریز عن عمر (رضی اللہ) کی ایک سند کو منقطع قرار دیا ہے۔ دیکھئے:
جمع الجوامع (٢٤/١٢ ح ٢٢٥٠)
الجامع لعبد اللہ بن وهب (۱۷۴) میں اس کی ایک دوسری سند ہے، لیکن اس کے راوی حسن بن خلیل کے حالات نہیں ملے جوسید نا عمر رضی اللہ سے روایت کرتے ہیں۔
ان روایات کے ضعف کی وجہ سے صرف ان کلمات کی بیان کردہ فضیلت ثابت نہیں ہوتی ، تاہم ان کلمات کے مسنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور انھیں موقع برمحل ادا کیا جاسکتا ہے۔ والحمد للہ