یہ سوال مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے
میرے نزدیک اس معاملے کو دو بنیادی پہلوؤں سے سمجھنے کی ضرورت ہے:
گروہ کی حقیقی حیثیت کا تعین
پہلا نکتہ یہ ہے کہ جس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا جا رہا ہے، کیا وہ واقعی اسلامی عقائد سے باہر ہے یا اس پر اختلاف پایا جاتا ہے؟ اسلام میں توحید کے بعد رسالت کا مقام ہے اور اس کی اہمیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول اور آخری نبی تسلیم کرنا اسلام کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ قرآن و سنت میں اس پر ٹھوس اور واضح دلائل موجود ہیں، جن پر امت مسلمہ صدیوں سے متفق رہی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرتا تھا، اسے جھوٹا سمجھا گیا اور اسلامی ریاست نے سختی سے اس کا مقابلہ کیا۔ ایسے دعوے کرنے والے افراد کو قتل تک کیا گیا اور ان کے پیروکاروں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس معاملے پر امت مسلمہ کے تمام فرقے، خواہ وہ شیعہ ہوں، سنی، بریلوی، دیوبندی یا اہل حدیث، مکمل اتفاق رکھتے ہیں۔
قادیانی مسئلہ
مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے والے قادیانی حضرات نے یہ دعویٰ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں لیکن ان کے نزدیک مرزا صاحب ایک "ظل نبی” ہیں۔ اس نظریے کو علمائے کرام نے مکمل طور پر رد کر دیا اور اس کے خلاف تحریک شروع کی۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق تھے کہ قادیانی کافر ہیں اور انہیں غیر مسلم قرار دیا جانا چاہیے۔
عوامی تحریک اور ریاست کا ردِ عمل
قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر عوامی سطح پر کبھی کوئی اختلاف نہیں تھا، مگر قادیانی حضرات کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ابتدا میں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں جیسے عقائد کا اظہار کرتے اور جب اعتماد حاصل کر لیتے تو لوگوں کو قادیانیت کی طرف مائل کرتے۔ اس طریقۂ کار کے باعث علما اور دینی حلقے متفکر ہوئے اور ریاستی سطح پر انہیں غیر مسلم قرار دینے کے لیے آئینی ترمیم کی تحریک شروع ہوئی۔
دیگر گروہوں کی مثالیں
پاکستان میں کئی گروہ ایسے ہیں جن کے عقائد عمومی اسلامی عقائد سے مختلف ہیں، مگر چونکہ وہ خود کو مسلمانوں سے الگ رکھتے ہیں اور خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم قرار دینے کے لیے کبھی تحریک نہیں چلی۔ مثلاً بلوچستان کے علاقوں میں موجود "ذکری”، ایران سے آئے ہوئے بہائی، بوہری اور اسماعیلی کمیونٹی وغیرہ۔ یہ سب گروہ پرامن طریقے سے رہتے ہیں اور مسلمانوں کے عقائد کو نقصان نہیں پہنچاتے، اس لیے ان کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔
قادیانیوں کے خلاف آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
قادیانی حضرات عام اقلیتوں کی طرح اپنی عبادت کے بجائے دھوکہ دہی، منافقت اور جھوٹ سے کام لے کر مسلمانوں کو گمراہ کرتے تھے۔ ان کے اس طرزِ عمل سے سماج میں انتشار اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ مختلف مقامات پر عوامی تصادم کی شکایات سامنے آئیں جس کے بعد ریاستی سطح پر ان کے خلاف آئینی کارروائی کی گئی۔
مسئلے کے حل کے دو راستے
اگر ریاستی سطح پر مداخلت نہ کی جاتی تو عوام اور دینی جماعتیں خود اپنے طور پر قادیانیوں کے خلاف کارروائیاں کرتیں۔ اس سے معاشرتی بدامنی اور خونریزی بڑھ جاتی۔
دوسری صورت یہ تھی کہ ریاست اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرے، جہاں قادیانی قیادت کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا بھرپور موقع ملے۔ پارلیمنٹ میں کئی دنوں تک بحث کے بعد، متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم منظور کی گئی۔
بھٹو حکومت اور آئینی ترمیم
ذوالفقار علی بھٹو نے شروع میں سوچا کہ پارلیمنٹ میں قادیانی قیادت کو مولویوں کے خلاف اپنا مؤقف پیش کرنے دیا جائے تاکہ وہ خود ہی عوام کو قائل کر سکیں۔ لیکن جب قادیانی رہنما مرزا ناصر الدین نے کہا کہ جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانے گا، وہ کافر اور اس کی اولاد ناجائز ہوگی، تو بھٹو صاحب کو قادیانیوں کے عام مسلمانوں سے مختلف ہونے کا اندازہ ہوگیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے قادیانیوں اور لاہوری گروپ دونوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔
اجتہاد اور پارلیمنٹ کا کردار
علامہ اقبال کے مطابق، پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق حاصل ہے اور اسے علمائے کرام کی رائے کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔ قادیانیوں کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنایا گیا اور آئینی ترمیم کو منطقی اور درست فیصلہ قرار دیا گیا۔
قادیانیوں کی جانب سے پیش کردہ خدشات
قادیانیوں اور ان کے حامیوں نے اس وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ آج ہمیں غیر مسلم قرار دیا جا رہا ہے، کل شیعہ، بریلوی اور دیگر فرقوں کو کافر قرار دیا جائے گا۔ مگر چالیس سال گزر جانے کے باوجود کسی بھی بڑی دینی یا سیاسی جماعت نے شیعہ یا بریلوی مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس طرح وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ خدشات بے بنیاد تھے۔