وعن بهز بن حكيم عن ابيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل له ثم ويل له . اخرجه الثلاثة وإسناده قوي.
” بہز بن حکیم اپنے باپ سے وہ اس (بہز) کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ویل ہے اس شخص کے لئے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ساتھ لوگوں کو ہنسائے ویل ہے اس کے لیے پھر ویل ہے اس کے لیے۔ “ (اسے تینوں نے روایت کیا اور اس کی اسناد قوی ہیں۔ )
تخریج :
صحيح [ ابوداود 4990] [ ترمذي 2315] [ السنن الكبري للنسائي التفسير /410۔ ]
ترمذی اور البانی نے اسے صحیح کہا: دیکھئے [صحيح الترمذي 1885] [غاية 376] [مشكوة 4838]
فوائد :
➊ ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی باعث ہلاکت ہے :
جھوٹ بولنے سے ممانعت کے متعلق بہت سی احادیث آئی ہیں دیکھئے اسی کتاب کی حدیث (1400) اور (1432) کی تشریح زیر بحث حدیث میں جھوٹ کی ایک خاص صورت کو حرام قرار دیا گیا ہے جسے معمولی سمجھا جاتا ہے یعنی لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا۔ فرمایا ایسا کرنے والے کے لیے بار بار ہلاکت ہے۔
➋ ہنسانے کے لیے جھوٹ سننا بھی منع ہے :
جب لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی باتیں کرنا باعث ہلاکت ہے تو اس گناہ پر خاموش رہنا بلکہ سن کر لطف اٹھانا بھی اس گناہ میں شریک ہونا ہے اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جب کسی شخص سے اس قسم کی بات سنے تو اسے منع کر دے اگر وہ باز نہ آئے اور یہ اسے بزور بازو بھی نہ روک سکتا ہو تو اس کی مجلس سے اٹھ جائے۔
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [6-الأنعام:68]
” یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔ “
➌ وہ صورتیں جن میں جھوٹ بولنا جائز ہے :
ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے اور اچھی بات کہے اور اچھی بات پہنچائے۔ [مسلم البروالصلة 1/باب27 ]
اور فرماتی ہیں کہ لوگ جو کچھ (جھوٹ) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ اس میں سے کسی چیز کی رخصت دیتے ہوں سوائے تین چیزوں کے۔ لڑائی میں، لوگوں کے درمیان صلح کروانے میں، اور خاوند کی بیوی کے ساتھ بات چیت اور بیوی کی خاوند کے ساتھ بات چیت میں۔ [مسلم البروالصله /باب27 ]
➍ چغلی اور اصلاح کا موازنہ :
اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کی باہمی محبت اور دلی الفت کس قدر عزیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اس سچ کو حرام فرما دیا جو چغلی کی صورت میں ہو اور باہمی بگاڑ کا باعث بنے اور اس جھوٹ کی اجازت دے دی جس سے لوگوں کے درمیان صلح ہوتی ہو یا میاں بیوی کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہوں۔
➎ لڑائی میں جھوٹ بولنا کیوں جائز ہے ؟ : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے ایک جان کو قتل کیا کسی جان کے بغیر یا زمین میں کسی فساد کے بغیر تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جس نے اسے بچایا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو بچایا۔ [المائده : 32 ]
اب جنگ میں اگر دشمن کو اپنی تمام باتیں صحیح صحیح بتا دی جائیں تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کی ہلاکت کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا اور اس سچ کا نقصان ناقابل تلافی ہو گا۔ اسی طرح دشمن پر جنگی چالیں استعمال نہ کی جائیں تو اس کا نتیجہ بھی اہل اسلام کی شکست ہو سکتا ہے۔
اہل علم اس حدیث کو مدنظر رکھ کر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ظالم کسی شخص کی جان یا مال کے درپے ہو اور ہمیں علم ہو کہ وہ کہاں ہے یا اس کا مال کہاں ہے اور سچ بولنے سے اس کے قتل کا یا مال کے لٹنے کا خطرہ ہو تو اس موقعہ پر جھوٹ بول کر اس کی جان اور مال بچانا فرض ہے۔
اس قسم کے تمام موقعوں پر اگر ممکن ہو کہ انسان صاف جھوٹ سے بچے اور ذومعنی بات کہہ کر کام نکال لے کے سننے والا اس کا مطلب کچھ اور سمجھتا رہے اور کہنے والے کی مراد کچھ اور ہو تو یہ سب سے بہتر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے اور دوسرے انبیاء اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کا بھی یہی طریقہ تھا۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین موقعوں پر بظاہر خلاف واقعہ جو بات کی ان کی نیت میں ان کا وہ مطلب تھا جو بالکل درست تھا۔
اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہجرت کے سفر میں کسی نے پوچھا: تمہارے ساتھ کون ہے تو فرمایا : هذا الرجل يهديني السبيل ” یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے “ [ بخاري، مناقب الانصار/45 ]
اسی قسم کے الفاظ کو معاریض کہتے ہیں اور ان کے ذریعے آدمی صریح جھوٹ سے بچ جاتا ہے : ان فى المعاريض لمندوحة عن الكذب ” معاریض میں جھوٹ سے بچنے کی بہت گنجائش ہے۔ “ لیکن اگر صاف جھوٹ کے بغیر حالت جنگ میں گزارا نہ ہو تو اس کی اجازت ہے۔