وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من تسمع حديث قوم وهم له كارهون صب فى اذنيه الآنك يوم القيامة يعني الرصاص. اخرجه البخاري.
” ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی قوم کی باتوں پر کان لگائے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں اس کے کانوں میں قیامت کے سیسہ (سکہ) ڈالا جائے گا۔ “ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے )
تخریج :
بخاري (7042) كتاب التعبير باب من كذب فى حلمه۔ بلوغ المرام کے نسخوں میں من تسمع کے لفظ ہیں جبکہ بخاری میں استمع کے لفظ ہیں۔ معنی تقریباً ایک ہی ہے۔
فوائد :
کسی کی باہمی بات چیت پر کان لگانا ان کے ناپسند کرنے کی صورت میں حرام ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آپس میں کوئی بات کر رہے ہوں اگر وہ کسی شخص کا سننا پسند نہیں کرتے تو ایسے ان کی بات پر کان لگانا حرام ہے کیونکہ صرف مکروہ کام پر اتنی سخت سزا نہیں ہو سکتی کہ کانوں میں سکہ ڈالا جائے۔
اب یہ پتہ کیسے چلے گا کہ وہ اس کا سننا پسند نہیں کرتے تو یہ قرائن سے معلوم ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو دو یا زیادہ آدمی کہیں علیحدہ ہو کر بیٹھے ہوں تو صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں کسی کی شرکت پسند نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ اپنی ناگواری کا صاف اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اب قرائن سے یا صاف لفظوں میں ان کی ناگواری معلوم ہو جانے کے بعد کوئی شخص چھپ کر یا کسی طریقے سے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے کانوں میں سکہ ڈالا جائے گا۔ کیونکہ یہ گناہ کان کے ذریعے سرزد ہوا ہے۔
سعید مقبری فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرا تو ان کے پاس ایک آدمی کھڑا ہو کر باتیں کر رہا تھا۔ میں بھی ان کے پاس کھڑا ہو گیا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میرے سینے میں دھکا دے کر کہا: جب تم دیکھو کہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تو اجازت لینے کے بغیر ان کے پاس کھڑے مت ہو۔ [مسند احمد و سنده صحيح حديث نمبر 5949 تحقيق احمد شاكر]
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں گفتگو کرنے والے لوگ اگر اس کے اجازت طلب کرنے پر اسے اجازت دے بھی دیں، مگر اس کو سمجھ آ رہی ہو کہ انہوں نے یہ اجازت حیا کی وجہ سے یا بادل ناخواستہ دی ہے اور دل سے وہ اس کا سننا پسند نہیں کرتے تو اسے ان کی بات پر کان لگانا پھر بھی جائز نہیں۔
بعض لوگ ذرا دور بیٹھ کر ایک آدھ لفظ سن کر باقی خود بخود سمجھ جاتے ہیں اس طرح کرنے والے بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ اسی طرح کسی کے گھر جھانکنا، سونگھنا، ٹوہ لگانا بھی حرام ہے۔ بچوں سے گھر کی ایسی باتیں پوچھتے رہنا بھی حرام ہے جو اس کے گھر والے پسند نہیں کرتے۔ ہاں اگر کسی پختہ ذریعے سے معلوم ہو کہ یہ لوگ کسی گناہ یا ظلم کے منصوبے بنا رہے ہیں تو نہی عن المنکر کے لیے بات سننا جائز ہے۔