مردوں کو گالی دینے کی ممانعت اور حکمت
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا .‏‏‏‏ اخرجه البخاري
” عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مردوں کو گالی مت دو کیونکہ یقیناً وہ اس چیز کی طرف پہنچ چکے جو انہوں نے آگے بھیجی۔ “ (اسے بخاری نے روایت کیا)
تخریج :
[بخاري 6516] دیکھئے تحفۃ الاشراف [2/293 ]
مفردات :
لَا تَسُبُّوا سَبَّ يَسُبُّ (نصر ینصر) سے نہی کا صیغہ ہے یہ دراصل سَبَّةٌ سے مشتق ہے جس کا معنی ( است ) دبر ہوتا ہے سَبَّهُ اَيْ طَعَنَهُ فِى اِسْتِهِ یعنی اس نے اسے دبر میں کچوکا لگایا۔ اسی طرح یہ قبیح گالی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی مخفی اعضاء کا تذکرہ صاف لفظوں میں یا کنائے کے ساتھ کر کے کسی کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

فوائد :
مردوں کو گالی دینا کیوں منع ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ لوگوں کو گالی دینے سے منع فرمایا خواہ مسلمان ہوں یا کافر اور اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں۔ ایک تو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کے پاس پہنچ چکے اب انہیں اس کا بدلہ مل رہا ہے۔ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مالک خود ہی ان سے نمٹ لے گا۔
دوسری وجہ ترمذی میں مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مردوں کو گالی مت دو کیونکہ ایسا کرنے سے تم زندہ لوگوں کو ایذاء دو گے۔ “ [ ترمذي : 1982 ]
البانی نے اسے صحیح کہا ہے، دیکھئے السلسلہ الصحیحہ [2397] کیونکہ کوئی شخص بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے عزیزوں کو گالی دی جائے خواہ وہ کافر ہی ہوں۔
قرآن وحدیث میں کفار کی برائیاں کیوں بیان کی گئی ہیں : مردوں کو گالی دینے کی حرمت کے باوجود قرآن و حدیث میں بہت سے فوت شدہ کفار کی برائیاں بیان کی گئی ہیں۔ بعض علماء نے ”اسے مردوں کو گالی مت دو “ کے منافی سمجھ کر اس کی توجیہ کی ہے کہ یہ اس حکم سے مستثنیٰ صورت ہے جیسا کہ غیبت کی بعض صورتیں حرمت سے مستثنیٰ ہیں۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ کسی کافر کی غیبت سے منع کیا ہی نہیں گیا نہ ہی اس کی برائی بیان کرنا منع ہے بلکہ اگر مقصد کسی کو کسی شخص کے شر سے بچانا ہو یا شہادت ادا کرنا ہو تو مسلمان کی برائی بھی بیان کر سکتا ہے۔ اس حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ سب و شتم ہے۔ گندی گالی دینا۔ مردوں کو گالی دینا حرام ہے خواہ وہ مسلمان یوں یا کافر، کیونکہ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص زندہ ہے اور وہ گالی دینے میں پہل کرتا ہے تو اسے جواب میں اتنی ہی گالی دینا جائز ہے گو صبر افضل ہے۔ اسی طرح زندہ کافر کو ذلیل کرنے کے لیے گالی دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا :
امصص بظر اللات انحن نفر عنه؟
” جاؤ لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ “
اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے احد کے دن سباع کو کہا تھا :
يا ابن ام انمار مقطعة البطور [صحيح بخاري، المغازي 25]
” اے عورتوں کی شرم گاہوں کا ختنہ کرنے والی ام انمار کے بیٹے۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے