میت کے گھر والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے لیے کھانا بنائیں۔ کیونکہ صحابی جلیل جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
كنا نرى الاجتماع إلى اهل الميت وصنعة الطعام من النياحة
[مسند احمد: 204/2 ، وابن ماجه: كتاب الجنائز: حديث رقم: 1612 ، اسے امام احمد نے بسند حسن روايت كيا هے]
”میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے گھر جمع ہونے اور (ان کا ہمارے لیے) کھانا تیار کرنے کو ہم لوگ نوحہ شمار کرتے تھے۔“
البتہ اہل میت کے لیے یا ان کے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میت کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لیے مشروع ہے کہ وہ اہلِ میت کے لیے کھانا تیار کریں ، کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک شام میں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لیے کھانا بنائیں اور فرمایا:
انهم اتاهم ما يشغلهم
[ابو داؤد: كتاب الجنائز: حديث: 2686 ، ترمذي: 998 ، صحيح هے]
”ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے انہیں غافل کر دیا ہے۔ “
میت کے گھر والوں کے یہاں ہدیہ کے طور پر جو کھانا آیا ہو، اس کھانے پر وہ اپنے پڑوسیوں وغیرہ کو بلا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ہمارے علم کے مطابق اس سلسلہ میں وقت کی شرعاً کوئی تحدید نہیں۔ میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر بعض لوگ سورہ یٰس اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، اس کا شریعت اسلام میں کوئی ثبوت نہیں۔ ہمیں وہ عمل کرنے چاہئیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اللہ تعالی کے ہاں مسنون عمل ہی قبول ہو گا۔