میت کو نفع دینے والے اعمال صحیح احادیث کی روشنی میں
مرتب: محمد اسماعیل ساجد حفظ اللہ

میت کو نفع دینے والے اعمال

(تحریر: جناب مولانا منظور احمد جمالی)
قارئین کرام! بعض ایسے اعمال ہیں جن کا ایک مومن کو اس کے انتقال کے بعد بھی ثواب پہنچتا رہتا ہے ۔ ہم یہاں بعض ایسے اعمال بیان کرتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی نفع بخش ہیں۔ جناب عبد اللہ بن ابی بکر رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يتبع الميت ثلاثة، فيرجع اثنان ويبقى واحد يتبعه اهله وماله وعمله، فيرجع اهله وماله ويبقى عمله .
[مسلم: 7424]
”میت کے پیچھے تین چیزیں ہوتی ہیں، ان میں سے دو لوٹ آتی ہیں اور ایک ساتھ رہ جاتی ہے۔ اس کے پیچھے اس کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کا عمل جاتا ہے، اس کے گھر والے اور مال لوٹ آتے ہیں اور عمل ساتھ رہ جاتا ہے۔“
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، او علم ينتفع به، او ولد صالح يدعو له .
[مسلم: 4223]
”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے ) صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔ “
نیک صالح اولاد کی دعا و استغفار اور والدین کے وفات کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا اور ان رشتوں کو جوڑنا بھی ان کے لئے باعث نجات ہیں۔ جیسا کہ سیدنا ابو اسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بينما نحن عند النبى صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل من بني سليم , فقال: يا رسول الله , ابقي من بر ابوي شيء ابرهما به من بعد موتهما , قال: ” نعم , الصلاة عليهما , والاستغفار لهما , وإيفاء بعهودهما من بعد موتهما , وإكرام صديقهما , وصلة الرحم التى لا توصل إلا بهما”.
[ابن ماجه: 3664]
”ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے اتنے میں قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے والدین کی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی باقی ہے کہ ان کی وفات کے بعد میں ان کے لیے کر سکوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا اور ان رشتوں کو جوڑنا جن کا تعلق انہی کی وجہ سے ہے۔ “
اسی طرح نیک صالح اولاد کی دعاوں کی برکات سے اللہ تعالیٰ والدین کے درجات بلند فرماتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الرجل لترفع درجته فى الجنة , فيقول: انى هذا , فيقال: باستغفار ولدك لك”.
[ابن ماجه: 3660]
”آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہوا؟ اس کو جواب دیا جائے گا: تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے۔ “
اپنے فوت شدہ کے نام پر صدقات و خیرات کرنا ، کنواں تالاب وغیرہ کھودوانا ، نل وغیرہ لگوانا جس سے لوگ سیراب ہوں یہ بہترین صدقہ ہے اور باعث اجر ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اللہ کے رسول !
إن امي ماتت افاتصدق عنها، قال: ” نعم”، قلت: فاي الصدقة افضل؟ ، قال: ” سقي الماء”.
[سنن نسائي: 3694]
”میری ماں مر گئی ہیں کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں نے پوچھا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پیاسوں کو ) پانی پلانا ۔“
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن امي افتلتت نفسها، واظنها لو تكلمت تصدقت، فهل لها اجر إن تصدقت عنها؟ , قال: نعم”.
[بخاري: 1388]
”ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں، اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ملے گا ۔ “
ایک روایت میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
ان رجلا، قال: يا رسول الله، إن ” امي توفيت افينفعها إن تصدقت عنها؟ قال: نعم، قال: فإن لي مخرفا فاشهدك اني قد تصدقت به عنها ".
[ترمذي: 669]
”ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میری والدہ فوت ہو چکی ہیں اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ ان کے لیے مفید ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس نے عرض کیا: میرا ایک باغ ہے آپ گواہ رہیے کہ میں نے اسے والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا ۔ “
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن ابي مات وترك مالا ولم يوص فهل يكفر عنه ان اتصدق عنه؟ , قال: نعم”.
[مسند احمد: 3294]
”ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور انھوں نے مال تو چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی تو کیا ان کی طرف سے میرا صدقہ کرنا ان کے گناہوں کا کفارہ بن سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔“
اسی طرح اولاد اپنے والدین کی طرف سے حج یا جو اسکے ذمہ روزے واجب ہوں یا نذر ہو تو ورثا ادا کر لیں تو اس کی طرف سے ادا ہو جاتے ہیں اور میت کو نفع دیتے ہیں ۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ان امراة سالت النبى صلى الله عليه وسلم عن ابيها مات ولم يحج، قال: ” حجي عن ابيك”.
[النسائي: 2635]
”ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والد کے بارے میں سوال کیا جن کا انتقال ہو گیا تھا اور حج نہیں کیا تھا، پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو۔ “
اسی طرح اگر کسی کے ذمہ روزے ہوں تو اس کے ولی اس کے طرف سے روزہ رکھیں ۔
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من مات وعليه صيام، صام عنه وليه
[صحيح بخاري: 1952]
”اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔ “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
ان سعد بن عبادة رضى الله عنه استفتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن امي ماتت وعليها نذر، فقال: ” اقضه عنها”.
[البخاري: 2761]
”سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک نذر تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی طرف سے نذر پوری کر دے۔ “

وضاحت:

جس نے نذر مانی ہو کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا تو اس کی نذر پوری کی جائے اور جس نے اللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔
جو سرحد کی محافظت اور نگہبانی کرے گا اس کا عمل روز محشر تک بڑھتا رہے گا۔ جیسا کہ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل الميت يختم على عمله إلا المرابط فإنه ينمو له عمله إلى يوم القيامة ويؤمن من فتان القبر”.
[ابو داؤد: 2500]
”ہر میت کا عمل مرنے کے بعد ختم کر دیا جاتا ہے سوائے سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کرنے والے کے، اس کا عمل اس کے لیے قیامت تک بڑھتا رہے گا اور قبر کے فتنہ سے وہ مامون کر دیا جائے گا۔ “
میت کے لئے خلوص دل سے دعا کرنا بھی بخشش کا ایک ذریعہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
[الحشر: 10]
”اور (ان کے لئے ) جو ان کے بعد آئیں گے جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال ، اے ہمارے رب! بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
إذا صليتم على الميت، فاخلصوا له الدعاء”.
[سنن ابو داؤد: 3199]
”جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو، تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو۔ “
جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی نماز جنازہ پڑھتے تو خلوص دل سے پڑھتے ۔ جیسا کہ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة يقول: ” اللهم اغفر له وارحمه واعف عنه , وعافه واكرم نزله , ووسع مدخله واغسله بماء وثلج وبرد , ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الابيض من الدنس وابدله دارا خيرا من داره واهلا خيرا من اهله وزوجا خيرا من زوجه , وقه عذاب القبر وعذاب النار” , قال عوف: فتمنيت ان لو كنت الميت لدعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لذلك الميت.
[سنن نسائي: 1985]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ ایک جنازے کی نماز میں کہہ رہے تھے:
اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، واكرم نزله ووسع مدخله، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس، وابدله دارا خيرا من داره، واهلا خيرا من اهله، وزوجا خيرا من زوجه، وادخله الجنة واعذه من عذاب القبر، او من عذاب النار
[صحيح مسلم: 2232]
”اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم کر، اسے معاف کر دے، اسے عافیت دے، اس کی (بہترین) مہمان نوازی فرما ، اس کی (قبر) کشادہ کر دے ، اسے پانی برف اور اولے سے دھو دے، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اس کو بدلے میں اس کے گھر سے اچھا گھر ، اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کی بیوی سے اچھی بیوی عطا کر اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔
عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس میت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا (سن کر) میں نے آرزو کی کاش! اس کی جگہ میں ہوتا ۔ “
جس میت پر بھی مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھے جن کی تعداد سو تک پہنچتی ہو اور وہ اللہ تعالی کے پاس سفارش کریں میت کے حق میں تو اللہ تعالی کے ہاں سفارش قبول کی جاتی ہے۔ جیسا کہ سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من ميت يصلي عليه امة من المسلمين يبلغون ان يكونوا مائة يشفعون إلا شفعوا فيه” , قال سلام: فحدثت به شعيب بن الحبحاب , فقال: حدثني به انس بن مالك، عن النبى صلى الله عليه وسلم.
[سنن نسائي: 1993]
”جس میت پر بھی مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھے (جن کی تعداد) سو تک پہنچتی ہو (اور) وہ (اللہ کے پاس) شفاعت (سفارش) کریں تو اس کے حق میں (ان کی) شفاعت قبول کی جائے گی۔ سلام کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو شعیب بن حجاب سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے تھے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو۔ جیسا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم” إذا فرغ من دفن الميت، وقف عليه، فقال: استغفروا لاخيكم، وسلوا له بالتثبيت، فإنه الآن يسال”، قال ابو داود: بحير ابن ريسان.
[سنن ابو داؤد: 3221]
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا۔ “
جب مومنین میں سے کوئی میت کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کی تعریف کرے تو یہ بھی نجات کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ سیدنا ربیع بن معوذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا صلوا على جنازة اوثنوا خيرا يقول الرب عزوجل اجزت سهادتهم فيما يعلمون اوغفر له مالا يعلمون
[سلسلة الاحاديث صحيحه: 517]
”جب لوگ کسی میت کی نماز جنازہ پڑھیں اور اس کی تعریف کریں تو اللہ رب العزت فرماتا ہے: جو یہ لوگ جانتے ہیں اس بارے میں ان کی گواہی کافی ہو گئی اور جو یہ لوگ نہیں جانتے میں اسے بخشا ہوں۔ “
اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مر على النبى صلى الله عليه وسلم بجنازة فاثنوا عليها خيرا، فقال: وجبت، ثم مر باخرى فاثنوا عليها شرا او قال غير ذلك، فقال: وجبت، فقيل: يا رسول الله، قلت لهذا وجبت ولهذا وجبت، قال: ” شهادة القوم المؤمنون شهداء الله فى الارض”.
[صحيح بخاري: 2642]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی یا اس کے سوا اور الفاظ (اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے) کہے (راوی کو شبہ ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی اور پہلے جنازہ پر بھی یہی فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان والی قوم کی گواہی (بار گاہ الہی میں مقبول ہے ) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔“
قرآن و حدیث اور تمام تر نیکی اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا۔ جیسا کہ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” من سن سنة خير فاتبع عليها فله اجره ومثل اجور من اتبعه غير منقوص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل اوزار من اتبعه، غير منقوص من اوزارهم شيئا "
[جامع ترمذي: 2675]
”جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا۔ جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو گا بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو۔ “
اگر انسان اپنی وفات سے قبل سایہ دار درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان اور چرند پرند کھاتے ہیں تو یہ ان کے لئے باعث اجر ہے۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” ما من مسلم يغرس غرسا , او يزرع زرعا , فياكل منه إنسان , او طير , او بهيمة , إلا كانت له صدقة ".
[ترمذي: 1382]
” جو بھی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان یا پرند یا چرند کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ “
صلى الله على حبيبه و على آله وسلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے