سوال :
غسل کو واجب کرنے والی اشیاء کون سی ہیں ؟
جواب :
غسل کو واجب کرنے والی اشیاء درج ذیل ہیں :
اولا :
بیداری یا نیند کی حالت میں شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا ۔ لیکن نیند کی حالت میں اگر وہ شہوت محسوں نہ بھی کرے منی کے خروج سے ہی اس پر غسل واجب ہوگا ، کیونکہ بعض اوقات سونے والے کو احتلام تو ہوتا ہے ، مگر اس کا احساس نہیں ہوتا ، لہٰذا جب انسان کو شہوت کے ساتھ منی خارج ہو تو اس پر بہرحال غسل کرنا واجب ہے ۔
ثانیا : غسل کو واجب کرنے والی دوسری چیز جماع ہے ، تو جب خاوند اپنی بیوی سے بایں طور مجامعت کرے کہ حشفہ (عضو تناسل کا اگلا حصہ ) عورت کی فرج میں داخل کرے تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا ۔ پس جب وہ حشفہ یا اس سے زیادہ عضو تناسل عورت کی فرج (اگلی شرمگاہ) میں داخل کرے گا تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا ، کیونکہ وجو ب غسل کی مذکورہ پہلی صورت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
الماء من الماء [صحيح مسلم ، رقم الحديث 343 ]
”(غسل کرنے کے لیے) پانی کا استعمال کرتا) پانی (منی خارج ہونے ) سے (واجب ہوتا ) ہے ۔“
یعنی بلاشبہ منی خارج ہونے سے غسل واجب ہوتا ہے ، اور وجو ب غسل کی دوسری صورت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
إذا جلس بين شعبها الأربع ثم جهلها ، فقد وجب الغسل [ صحيح البخاري ، رقم الحديث 287 صحيح مسلم ، رقم الحديث 348 ]
جب مرد عورت کی چار شاخوں (شرمگاہ) کے درمیان بیٹھ کر کوشش کرے (یعنی جماع کرے) تو اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے ۔“
اگرچہ اسے انزال نہ بھی ہو ۔ اور بغیر انزال کے جماع کے مسئلہ کا حکم اکثر لوگوں پر مخفی ہے حتی کہ بعض لوگوں پر ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں وہ اپنی بیوی سے بغیر انزال والا جماع کرتے ہیں اور اس مسئلہ میں عدم واقفیت کی وجہ سے غسل نہیں کرتے ، یہ ایک سنگین معاملہ ہے ۔ پس انسان پر ان حدود کو جاننا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہیں ۔ بلاشبہ جب انسان اپنی بیوی سے مجامعت کرے تو اس پر غسل واجب ہوگا اگرچہ اسے انزال نہ ہو اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو ابھی ہم نے بیان کی ہے ۔
ثالثا :
غسل کو واجب کرنے والی چیزوں میں سے خون حیض اور خون نفاس کا خارج ہونا بھی ہے ، بلاشبہ جب عورت کو حیض آئے ، پھر وہ حیض سے پاک ہو تو اس پر غسل واجب ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ [2-البقرة:222]
”سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں ، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تہیں اللہ نے حکم دیا ہے ، بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں ۔ “
نیز اس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو حکم دیا کہ جب وہ حیض کی مدت گزار چکے تو وہ غسل کرے ، اور نفاس والی عورت حیض والی عورت کے حکم میں ہے لہٰذا اس پر بھی غسل کرنا واجب ہے ۔
اور حیض و نفاس کے غسل کا طریقہ جنابت کے غسل کی طرح ہے ، سوائے اس کے کہ بعض اہل علم نے حائضہ کے غسل میں اس بات کو پسند کیا ہے کہ وہ بیری (کے پتوں کو پانی میں ابال کر اس پانی) سے غسل کرے ، کیونکہ اس سے کمال درجہ کی صفائی اور طہارت حاصل ہوتی ہے ۔
اور بعض علماء نے موت کو بھی غسل واجب کرنے والی اشیاء میں شامل کیا ہے ، ان کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں ، جو آپ کی بیٹی کو (اس کی وفات کے بعد) غسل دے رہی تھیں ، کہا :
إغسلنها ثلاثا أو خمسا أو سبعا أولا كثر من ذلك إذا رأيتن ذلك [و صحيح البخاري ، رقم الحديث 1196 صحيح مسلم ، رقم الحديث : 939 ]
”اس کو تین ، یا پانچ یا سات ، یا اگر تم ضرورت سمجھو تو اس سے زیادہ مرتبہ غسل دو ۔“
نیز ان علماء نے غسل میت کے وجوب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے متعلق فرمایا جس کو حالت احرام میں اس کی سواری نے میدان عرفات میں گرا کر اس کی گردن توڑ دی تھی (اور وہ شخص فوت ہو گیا تھا) :
إغسلوه بماء وسدر وكفنوه فى ثو بيه [صحيح البخاري ، رقم الحديث 1206 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1206 ]
اس کو پانی اور بیری (کے پتوں کو پانی میں ابال کر اس پانی) سے غسل دو اور اس کو اس کے کپڑوں میں احرام میں ہی فن دو۔ “
تو علماء نے کہا: بلاشبہ موت و جوب غسل کا ایک سبب ہے ، لیکن یہ وجو ب زندہ کے متعلق ہے یعنی زندہ لوگوں کا اس کو غسل دینا واجب ہے ، اس لیے کہ فوت ہونے والا تو اب شریعت کا مکلف نہیں رہا لیکن زندوں پر واجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ فرمان کی وجہ سے اس کو غسل د یں ۔
(محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ )