سوال :
گانے سننے کاکیا حکم ہے ؟
جواب :
ایسے گانے سننا جو ایسے مواد پر مشتمل ہوتے ہیں جس سے وجد و سرور کی کیفیت طاری ہو جائے ، ہر سننے والے پر حرام ہیں ، خواہ سننے والا مرد ہو یا عورت ، اپنے گھر میں سنے یا گھر سے باہر جیسے گاڑیوں یا عام و خاص مجلسوں میں ، کیونکہ وہ یہ گانے سن کر ایسی چیز کی طرف مائل ہو کر اس کو اختیار کر لیتا ہے جس کو شریعت اسلامیہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ[31-لقمان:6]
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے ، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اُسے مذاق بنائے ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔“
اور سائل نے جس گانے کا ذکر کیا ہے وہ ”لہو الحدیث“ ( غافل کر دینے والی بات ) میں سے ہے ، پس بلاشبہ وہ دل کے لیے باعث فتنہ ہے اور وہ دل کو خیر و بھلائی سے پھیر کر شر کی طرف مائل کر دیتا ہے اور بے فائدہ انسان کا وقت ضائع کرتا ہے ، لہٰذا وہ اس اعتبار سے ”لہو الحدیث “ کے حکم میں داخل ہے اور یہ گانے سننے اور گانے والے تمام اس آیت کے عموم و مفہوم میں داخل ہیں جس میں ان لوگوں کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے ، جو غافل کرنے والی بات خریدتے ہیں تاکہ وہ ان کے نفس وغیرہ کواللہ کی راہ سے پھیر دے ۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے والے کی مذمت کی ہے اور رسوا کن عذاب کی وعید سنائی ہے ۔ جس طرح قرآن مجید کی مذکورہ آیت اپنے عموم کے ساتھ گانا گانے اور سننے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ایسے ہی سنت و حدیث بھی اس کی حر مت کو بیان کرتی ہے ، چنانچہ اس کے بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان ہے :
ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف ولينزلن أقوام إلى جنب علم يروح عليهم بسارحة ، يأتيهم يعني الفقير – لحاجة فيقولون : ارجع إلينا غدا ، فيبيتهم الله ويضع العلم ، ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5268]
”میری امت میں سے کچھ ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو زنا ، ریشم ، شراب اور معازف (آلات لہو و لعب) کو حلال ٹھہرائیں گے ، کچھ لوگ پہاڑی کے کنارے اتریں گے ان کے پاس چرواہا بکریاں لے کر آئے گا ۔ جب ایک فقیر مانگنے کے لیے آئے گا تو وہ اسے کہیں گے کہ کل آنا ۔ تو رات کو ان پر اللہ تعالیٰ پہاڑ الٹا دے گا اور ان کو قیامت تک بندر وخنزیر بنا دے گا ۔“
گزشتہ حدیث میں ”معازف ”سے مراد لہو اور اس کے آلات ہیں اور اس میں گانا گانا اور سننا بھی شامل ہے ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو زنا ، مردوں کے ریشم پہننے ، شراب پینے ، آلات لہو اور ان کی آوازیں سننے کو حلال ٹھہرائیں گے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ”معازف “ کو اس سے پہلے ذکر کردہ کبیرہ گناہوں کے ساتھ بیان کیا اور حدیث کے آخر پر مذکورہ گناہ کے مرتکبین کو عذاب کی وعید سنائی ۔ گانے کو کبیرہ گناہوں کے ساتھ ملا کر بیان کرنا اور اس پر عذاب کی وعید سنانا ، اس گانے ، آلات لہو اور گانے سننے کی حرمت پر دلالت کرنا ہے ۔
رہا بغیر قصد کے اور کان لگائے بغیر سننا ، جیسے وہ شخص جو راہ چلتے ہوئے دکانوں پر لگے یا گزرتی ہوئی گاڑیوں سے گانوں کی آواز سنتا ہے اور جس کے پاس اپنے گھر میں ہوتے ہوئے اس کے پڑوسیوں کے گھروں سے گانوں کی آواز آتی ہے اور وہ ان کی طرف کان لگائے بغیر سنتا ہے تو یہ شخص مجبور ہے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ نصیحت کرے اور منکر سے حکمت و دانائی اور اچھے وعظ کے ساتھ منع کرے ۔
اور اس کی وسعت و طاقت میں جس چیز سے بچنا ممکن ہے اس سے بچنے کی کوشش کرے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر جان کو اس کی وسعت اور طاقت کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے ۔
(سعودی فتوی کمیٹی )