قرآن اور تثلیث: ملحدانہ اعتراضات کا علمی جائزہ
تحریر: سید امجد حسین

تصورِ تثلیث: اسلام اور مسیحیت میں

اسلام اور مسیحیت دونوں تبلیغی ادیان ہیں اور ان کے درمیان قدیم دور سے علمی و عملی مباحثے جاری ہیں۔ مسیحی علماء طویل عرصے سے قرآن میں بیان کردہ تثلیث (Trinity) کے تصور کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اسلام میں مسیحیوں کو "اہلِ کتاب” کا درجہ دیتے ہوئے ان کے ساتھ احترام کا رویہ رکھا گیا ہے۔ دورِ جدید میں اسلامی Apologetics نے ان اعتراضات کا معقول جواب دیا ہے، تاہم اس کے باوجود یہ اعتراضات بار بار مختلف شکلوں میں اٹھائے جاتے ہیں۔

اعتراضات کی بنیاد: مستشرقین اور الحاد

"ابن ورق” کے قلمی نام کے حامل اسلام مخالف مصنف نے مغربی مستشرقین کے مواد کو جمع کر کے اپنی کتابوں میں اسلام پر تنقید کی ہے۔ اس کی چند مشہور کتب میں شامل ہیں:

  • The Quest for Historical Muhammad
  • Why I am not a Muslim
  • What the Koran Really Says
  • The Origins of the Koran
  • Which Koran?
  • Koranic Sources

یہ کتب قرآن اور اسلام کو جھٹلانے کے نظریے پر مبنی ہیں اور الحاد کے حامی ان مواد کو استعمال کر کے مختلف اعتراضات اٹھاتے ہیں۔

سید امجد حسین کا اعتراض: تصورِ تثلیث

سید امجد حسین کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن میں تثلیث کا جو تصور دیا گیا ہے وہ مسیحیت کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا، یعنی کہ قرآن نے اللہ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مریمؑ کو تثلیث کی صورت میں پیش کیا ہے۔ امجد حسین کے مطابق کوئی بھی "راسخ العقیدہ” عیسائی حضرت مریمؑ کو الوہیت کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔

امجد حسین کے اعتراض کا جواب

راقم الحروف، سید امجد حسین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے کسی مسیحی فرقے کا حوالہ دیں جو اللہ، مسیح اور مریم کو تثلیث کے طور پر مانتا ہو۔ دراصل، ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن نازل ہوا، اس وقت مسیحی دنیا رومن کیتھولک اور بازنطینی آرتھوڈوکس عقائد پر منقسم تھی۔ بازنطینی سلطنت سیاسی وجوہات کی بنا پر خود کو "آرتھوڈکس” کہلوانا پسند کرتی تھی، تاہم عقائد کے لحاظ سے کیتھولک اور آرتھوڈکس میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔

حضرت مریمؑ کی حیثیت اور مریمیت کا عقیدہ

کیتھولک عقیدہ میں حضرت مریم کو ایک "پاک کنواری” کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بغیر کسی جنسی اختلاط کے ہوئی تھی۔ اس عقیدے نے "مریمیت” (Mariology) کو جنم دیا، جس میں حضرت مریم کو "خدا کی ماں” کا لقب دیا جاتا ہے۔ یہی تصور آگے چل کر "خدا کو جنم دینے والی” کے طور پر معروف ہوا اور اسے Θεοτόκος یعنی Theo-Tokos کہا گیا، جس کا مطلب ہے "خدا کی ماں”۔

قرآن کی تعلیمات میں تثلیث کا تصور

قرآنِ مجید نے اپنے نزول کے وقت مسیحی معاشرت میں موجود اس طرزِ عبادت پر تنقید کی ہے، کیونکہ اُس وقت حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مریمؑ کی پوجا و پرستش عام تھی۔ قرآن نے اس تصور کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

"جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی معبود مقرر کرو؟”
(سورۃ مائدہ، 116)

یہاں تثلیث کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ایک عمومی انداز میں حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مریمؑ کی پوجا پر تبصرہ کیا گیا ہے۔

مسیحی تثلیث: باپ، بیٹا اور روح القدس

عیسائیت میں چوتھی صدی عیسوی کے بعد سے "روح القدس” کو تثلیث کا حصہ مانا جاتا ہے۔ تاہم، روح القدس کو تجریدی طور پر مانا جاتا ہے اور اس کی کوئی مادی شکل نہیں ہے، اس لیے اس کی عبادت ممکن نہیں۔ اسی لیے قرآن میں روح القدس کی بجائے حضرت مریمؑ کا ذکر کیا گیا ہے، جو مسیحی دنیا میں زیادہ عام طور پر پوجی جاتی تھیں۔

ملحد مصنف کی غیر علمی باتیں

مذکورہ اعتراض میں ملحد مصنف نے عہد نامہ قدیم سے یہودیت کے خدائی تصور کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے مسیحی عقیدے پر اعتراض کیا ہے۔ ملحد مصنف کی اس بات کو خود عیسائی تسلیم نہیں کرتے۔ یہاں ملحد مصنف مسلمانوں سے بھی زیادہ "مواحد” بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خلاصہ

مسیحیت اور اسلام میں تثلیث کے متعلق اختلافات موجود ہیں اور قرآن نے اس اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے مسیحی عقائد پر تبصرہ کیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے