ایمان، تقدیر اور نیک اعمال سے متعلق 61 احادیث
مرتب کردہ: شیخ حسین بن المبارک الموصلی رحمہ اللہ، کتاب: الاوامر والنواهي، اُردو ترجمہ: محمد سرور گوہر

کتاب الایمان: ایمان اور اس کے احکامات کے متعلق احادیث

1. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان، من كان الله ورسوله احب إليه مما سواهما، ومن احب عبدا لا يحبه إلا لله، ومن يكره ان يعود فى الكفر بعد إذ انقذه الله كما يكره ان يلقى فى النار
[بخارى: كتاب الإيمان: حديث 21 – مسلم: كتاب الايمان: حديث 43/67]
”جس شخص میں (درج ذیل) تین صفات ہوں ، اس نے ان کے ذریعے ایمان کا ذائقہ حاصل کر لیا۔
➊ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔
➋ کسی بندے سے محض اللہ کے لئے محبت کرتا ہو۔
➌ اسے دوبارہ کافر بننا، اس کے بعد کہ اللہ نے اسے اس سے بچا لیا، ایسے ہی ناگوار ہو جیسے آگ میں جھونکا جانا اسے ناگوار ہے۔“

2. سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من والده وولده والناس اجمعين
[بخاري: كتاب الايمان: حديث 15، مسلم: كتاب الايمان ، حديث 44/70]
”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔“

3. سیدنا سفیان بن عبد الله الثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی بات بتا دیں کہ اس کے متعلق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے دریافت نہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قل آمنت بالله فاستقم ”کہہ دیجئے! میں اللہ پر ایمان لے آیا ، اور پھر (اس بات پر ) قائم ہو جاؤ ، ڈٹ جاؤ۔ “
[صحيح ابن حبان: كتاب الرقائق ، رقم: 945]

4. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده، لا يسمع بي احد من هذه الامة يهودي، ولا نصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي ارسلت به، إلا كان من اصحاب النار
[مسلم: كتاب الايمان: حديث: 135/240 ، مسند احمد: 317/2 – 8224]
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے۔ اس امت کے جس جس یہودی اور عیسائی نے میرے متعلق سن لیا اور پھر وہ میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہ لایا تو وہ جہنمی ہے۔“
5. سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه
[بخاري: كتاب الايمان: حديث 13 ، مسلم: كتاب الإيمان: حديث 45/71]
”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا حتٰی کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔“

6. سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يؤمن عبد حتى يؤمن بالقدر خيره و شره حتى يعلم ان ما اصابه لم يكن ليخطئه ، وان ما اخطاه لم يكن ليصيبه
[الترمذى: كتاب الإيمان: بالقدر، حديث 2144]
”جب تک بندہ تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان نہ لے آئے وہ مومن نہیں ہو سکتا ، نیز وہ جان لے کہ جو چیز اسے پہنچی ہے وہ اس سے چوک نہیں سکتی تھی اور جو چیز اس سے چوک گئی ہے وہ اسے پہنچ نہیں سکتی تھی۔“
یہ روایت انتہائی ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں عبد اللہ بن میمون منکر الحدیث ہے۔  [ديكهئے۔ مختصر الكامل للمقريزي: 990]
تاہم یہ حدیث اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں۔ [سلسلة الاحاديث: الصحيحة: 2439]
7. طاؤس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کہتے ہوئے سنا:
كل شيء بقدر حتى العجز والكسل
[صحيح مسلم: القدر ، حديث 2655/18 ، الموطا ، القدر ، حديث 4 ، مسند احمد 110/2]
”ہر چیز حتی کہ عجز ، کمزوری اور سستی بھی تقدیر کے مطابق ہے۔“

راضی بر قضاء ہونا :

8. سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له، ومن شقاوة ابن آدم، تركه استخارة الله، ومن شقاوة ابن آدم، سخطه بما قضى الله
[ترمذي: كتاب القدر: 2151 ، روايت ضعيف هے۔ اس كي سند ميں محمد بن ابي حميد ضعيف الحديث هے۔]
”ابن آدم کی سعادت مندی ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں پر راضی رہے ، ابن آدمی کی شقاوت و بد نصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ (خیر طلب) کرنا ترک کر دے ، اور ابن آدم کی بد نصیبی ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو ناپسند کرے۔ “
9. سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان عظم الجزاء مع عظم البلاء , وإن الله إذا احب قوما ابتلاهم , فمن رضي فله الرضا , ومن سخط فله السخط
[ترمذي: كتاب الزهد: 2396 ، ابن ماجه ، كتاب الفتن: 4031 ، روايت حسن هے]
”جس قدر آزمائش بڑی ہو گی، اسی قدر جزاء بڑی ہو گی۔ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے ، پس جو شخص رضا مندی کا اظہار کرتا ہے تو اسے (اللہ کی) رضا نصیب ہو جاتی ہے، اور جو ناراضی کا اظہار کرتا ہے تو اس کے حصے میں (اللہ کی) ناراضی آتی ہے۔“
10. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا نظر احدكم إلى من فضل عليه فى المال والخلق، فلينظر إلى من هو اسفل منه ممن فضل عليه
[بخاري: كتاب الرقاق: 6490 ، مسلم: كتاب الزهده الرقائق: 2963]
”جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور حسن و جمال میں اس سے بڑھ کر ہو تو اسے ان لوگوں کو بھی دیکھنا چاہئے، جو ان چیزوں میں اس سے کم ہوں اور اسے ان پر فضیلت دی گئی ہو ۔“

تقدیر کو جھٹلانے کی ممانعت :

11. سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو اس نے کہا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ تقدیر کو جھٹلاتا ہے۔ اگر واقعی ہی اس کا یہ عقیدہ بن گیا ہے تو پھر مجھے اس کا سلام نہ پہنچاؤ۔ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
يكون فى هذه الامة او فى امتي الشك منه خسف او مسخ و ذلك فى الكذبين بالقدر
[ترمذى: كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 2152]
”اس امت یا فرمایا میری امت میں زمین میں دھنسنا اور صورت کا بدلنا ہوتا رہے گا، اور یہ ان لوگوں کے بارے میں ہو گا جو تقدیر کو جھٹلاتے ہیں۔“
12. سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لكل امة مجوس، ومجوس هذه الامة الذين يقولون لا قدر، من مات منهم فلا تشهدوا جنازته، ومن مرض منهم فلا تعودوهم وهم شيعة الدجال وحق على الله ان يلحقهم بالدجال
[ابو داؤد: كتاب السنة: 4692]
”ہر امت کے کچھ مجوس ہیں ، اور اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: قدر کوئی چیز نہیں۔ جو شخص ان میں فوت ہو جائے اس کے جنازے میں شریک نہ ہو، اور ان میں سے جو بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کرو ، وہ دجال کے ساتھی ہیں ، اور اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں دجال کے ساتھ ملا دے۔“

بدعتوں اور گناہ گاروں سے لاتعلقی :

13. سیدنا یحیٰی بن یعمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے سیدنا ابن عمر (رضی اللہ عنہما ) سے کہا ، اے ابوعبد الرحمٰن (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت تھی ) ! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تقدیر کچھ بھی نہیں۔ اور یہ فکر ابھی ابھی پیدا ہوئی ہے۔ تو انہوں نے فرمایا:
”جب تم ان لوگوں سے ملو تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے بیزار ہوں ، اور وہ مجھ سے بیزار ہیں۔ “
[مسلم: كتاب الايمان: 1/8 ، ابو داوٗد: كتاب السنة: 4695 ، مسند احمد: مسند العشرة المبشرين بالجنة: 27/1]
14. سیدنا ابو برده رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو اس قدر شدید تکلیف ہوئی کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور اس وقت ان کا سر ان کے اہل میں سے کسی عورت کی گود میں تھا۔ اتنے میں ان کے اہل (گھر والوں) میں سے کوئی عورت چیخی چلائی۔ آپ اس وقت تو اسے کچھ نہ کہہ سکے لیکن جب افاقہ ہوا تو فرمایا:
”جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیزاری کا اظہار کیا ہے، اس سے میں بھی بیزاری کا اظہار کرتا ہوں ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت پر چیخنے چلانے والی ، سر مونڈنے والی اور گریبان چاک کرنے والی سے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ “
[بخاري: 1396، مسلم: كتاب الايمان: 167/104]

اسلام اور اس کے احکامات :

15. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا احسن احدكم إسلامه، فكل حسنة يعملها تكتب له بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف، وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها حتي يلقي الله
[بخاري: كتاب الإيمان: حديث: 42 ، مسلم: كتاب الإيمان: حديث: 129/205]
”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے اسلام کو بہتر بنا لیتا ہے تو وہ جو بھی نیکی کرتا ہے ، دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے۔ اور وہ جو بھی برائی کرتا ہے، وہ صرف اتنی ہی لکھی جاتی ہے حتٰی کہ وہ اللہ سے جا ملتا ہے۔ “

16. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمؤمن من امنه الناس على دمائهم واموالهم
[الترمذى: كتاب الإيمان: حديث: 2627]
”مسلمان وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کا جان و مال محفوظ ہو۔“
امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔“
طبرانی نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، اس کے آخر میں ہے:
”مہاجر وہ ہے جو برائی ترک کر دے اور اس سے اجتناب کرے۔“
لیکن اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں روح بن صلاح ہے۔
[طبراني: فى الاوسط: حديث 232]

حسن اسلام کے متعلق احکامات :

17. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا احسن احدكم إسلامه، فكل حسنة يعملها تكتب له بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف، وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها حتي يلقي الله تعالٰي
[بخاري: كتاب الايمان: 42 ، مسلم: كتاب الايمان: 205/129]
”جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح اسلام پر عمل پیرا ہو جاتا ہے تو وہ جو بھی نیکی کرتا ہے وہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے اور وہ جو برائی کرتا ہے، وہ اس کے موافق ہی لکھی جاتی ہے۔ حتٰی کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے۔“
18. سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إذا اسلم العبد فحسن إسلامه يكفر الله عنه كل سيئة كان زلفها، وكان بعد ذلك القصاص الحسنة بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف والسيئة بمثلها، إلا ان يتجاوز الله عنها
[بخاري: كتاب الايمان: 41 ، نسائي: كتاب الصلوة: 106/8]
”جب کوئی بندہ مسلمان ہو جاتا ہے اور اسلام پر اچھی طرح عمل پیرا ہو جاتا ہے، تو اللہ اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے جن کا اس نے (قبل از اسلام) ارتکاب کیا تھا۔ اور اس کے بعد قصاص (معاوضہ ) شروع ہوتا ہے کہ نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اور برائی کا بدلہ برائی کے موافق ہی دیا جاتا ہے مگر یہ کہ اللہ اس سے درگزر فرمائے۔“

استقامت کے متعلق احکامات :

19. سیدنا سفیان بن عبد الله ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں کہ میں اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے سوال نہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قل آمنت بالله فاستقم
[مسلم: الايمان: حديث: 38/62 ، ترمذي: كتاب الزهد: حديث: 2410]
”کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ڈٹ جاؤ ۔“
20۔ سیدنا سفیان ہی فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی حکم دیں تاکہ میں اسے لازم پکڑوں۔ ارشاد فرمایا: ”تو کہہ اے اللہ! میں تجھ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ڈٹ جا۔“
میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے متعلق کس چیز کے بارے میں زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی پھر فرمایا: هذا ”اس سے“ ۔

اللہ کے لئے بغض رکھنا :

21. سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أحب لله وأبغض لله أعطى لله ومنع لله فقد استكمل الإيمان
[ابو داؤد: كتاب السنة: باب الدليل على زيادة الايمان و نقصانه: 4681 ، يه روايت حسن هے]
”جو شخص اللہ کے لئے محبت کرتا ہے، اللہ کے لئے بغض رکھتا ہے، اللہ کے لئے عطا کرتا ہے اور اللہ کے لئے منع کرتا (روک لیتا ہے ) تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔“

پراگندگی اور شکستہ حالی ایمان میں سے ہے :

22. سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الا تسمعون إن البذاذة من الإيمان
[ابو داؤد: كتاب الترجل: 4161 ، ابن ماجه: كتاب الزهد: 4118 ، يه روايت صحيح هے]
”کیا تم نے سنا نہیں کہ شکستہ حالی ایمان کا حصہ ہے ۔“

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو جان و مال پر مقدم کرنا :

23- سیدنا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ”آپ مجھے میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا والذي نفسي بيده حتى أكون أحب إليك من نفسك
[صحيح البخاري: 6632]
”نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! حتیٰ کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں۔“
تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
”اب اللہ کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔“
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الان يا عمر
[بخاري: كتاب الايمان والنذور: 6632 ، مسند احمد: 293/5]
”اب اے عمر !“
24. سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين
[بخاري: كتاب الايمان: 15 ، مسلم: كتاب الايمان: 44 ، النسائي: كتاب الايمان و شرائعه 115/8]
”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا حتٰی کہ میں اسے اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت :

25. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تھے کہ مسجد کے
سامنے میدان میں ایک آدمی ہمیں ملا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
”قیامت کب آئے گی؟“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما اعددت لها؟
”تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟“
گویا کہ آدمی عاجز سا ہو گیا ، پھر اس نے کہا:
”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس کے لیے زیادہ روزے تیار کیے ہیں ، نہ نماز اور نہ ہی صدقہ ۔ لیکن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنت مع من أحببت
[بخاري: كتاب الادب: 3688 ، 6167 ، مسلم: كتاب البر والصلة: 2639 ، ترمذي: كتاب الزهد عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم 2385]
”تو جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہو گا ۔“

اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھنا :

26. سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يموت احدكم، إلا وهو يحسن الظن بالله
[مسلم: كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها: 81/2877 ، ابو داؤد: كتاب الجنائز: 3113]
”تم میں سے ہر کسی کو اس حالت میں موت آنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالٰی کے متعلق حسن ظن رکھتا ہوں .“
27۔ سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا:
لا يموت أحدكم إلا وهو يحسن الظن بالله
[ابو داؤد: كتاب الجنائز: 3113]
”تم میں سے ہر کسی کو اس حالت میں موت آنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔“
28۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قال الله تعالٰي: انا عند ظن عبدي بي
[بخاري: كتاب التوحيد: 7405 ، مسلم: كتاب الذكر والدعاء والتوبه الخ: 2675]
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے سے ویسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان اور امید رکھتا ہے۔“
29. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حسن الظن من حسن العبادة
[روايت ضعيف هے۔ ابو داؤد: كتاب الادب: 4993 ، ترمذي: 3604 ، اس كي سند ميں شتير بن نهار مجبول راوي هے]
”اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن، حسن عبادت کا حصہ ہے۔“

شرم اور حیا ایمان میں سے ہیں :

30. سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار میں سے ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو کہ اپنے بھائی کو حیاء کے متعلق سمجھا رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا، آپ تو بہت زیادہ حیاء کرتے ہیں ، حتیٰ کہ وہ اسے یوں کہنا چاہتا ہے کہ یہ چیز آپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دعه فإن الحياء من الإيمان
[بخارى: كتاب الادب: 24 ، 6118 ، مسلم: كتاب الايمان: 36 ، ابو داؤد: كتاب الادب: 4795]
”اسے چھوڑ دو ، اس لیے کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔“
31. سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحياء لا يأتى إلا بخير
[بخاري: كتاب الادب: 6118 ، مسلم: كتاب الايمان: 37 ، ابو داؤد: كتاب الادب: 4775]
”حیاء کا انجام خیر و بھلائی ہے۔“
32. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحياء من الإيمان الإيمان فى الجنة البذاء من الجفاء الجفاء فى النار
[ترمذى: البر و الصلة: 2009 ، المستدرك للحاكم: 52/1 – 53 ، شرح السنة للبغوي: 172/13 ، روايت صحيح هے]
”حیاء ایمان کا حصہ ہے، اور ایمان کا مقام جنت ہے۔ جبکہ بد اخلاقی سنگ دلی و بے رخی کا حصہ ہے اور سنگ دلی و بے رخی کا مقام جہنم ہے۔“
33. سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحياء العي شعبتان من الإيمان البذاء البيان شعبتان من النفاق
[ترمذي: كتاب البر والصلة عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم 2027 ، مسند احمد: 269/5 ، روايت صحيح هے]
”حیاء اور قلت کلام ایمان کے دو حصے ہیں، جبکہ فحش گوئی اور کثرت کلام نفاق کے دو حصے ہیں ۔“
34. سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
استحيو من الله حق الحياء
”اللہ سے جس طرح حیاء کرنے کا حق ہے ویسے حیاء کرو ۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
”اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! الحمد للہ: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس ذاك ولكن الاستحياء من الله حق الحياء ان تحفظ الراس وما وعى، وتحفظ البطن وما حوى، وتتذكر الموت والبلى، ومن اراد الآخرة ترك زينة الدنيا، فمن فعل ذلك فقد استحيا من الله حق الحياء
[ترمذي: كتاب صفة: القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: 2458 ، مسند احمد: مسند المكثرين: 1/ 387 ، روايت حسن هے]
”یہ بات نہیں بلکہ اللہ سے جس طرح حیاء کا حق ہے، وہ یہ ہے کہ تم سر اور اس کے متعلقات (آنکھیں ، کان ، زبان ) اور پیٹ اور اس کے متعلقات (شرم گاہ وغیرہ) کی حفاظت کرو۔ موت اور بوسیدہ چیزوں کو یاد کرو ، جو شخص آخرت چاہتا ہے تو وہ دنیا کی زینت ترک کر دیتا ہے، اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہے۔ پس جس شخص کا یہ کردار ہو تو گویا اس نے اللہ سے اس طرح حیاء کی جس طرح اس سے حیاء کرنے کا حق ہے ۔“

دین آسان ہے :

35. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدين يسر لن يشاد الدين أحد إلا غلبه سددوا قاربوا أبشروا استعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة
[البخاري: كتاب الايمان: 39 ، مسلم: كتاب صفة القيامة والجنة والنار: 5036]
”بے شک دین بہت آسان ہے، جو شخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا، اس لیے میانہ روی اختیار کرو، (اعتدال کے ساتھ ) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ ۔ صبح دوپہر کے بعد اور کچھ رات میں عبادت کرنے سے مدد حاصل کر۔“

نیک اعمال پر ہمیشگی :

36. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، اللہ کو کونسا عمل زیادہ پسند ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أدومه وإن قل
[بخاري: كتاب الصوم: 1987 ، مسلم: كتاب صلوة المسافرين وقصرها: 783 ، ابوداؤد: كتاب الصلوة: 1370]
”جس پر دوام اختیار کیا جائے، خواہ وہ قلیل ہو ۔“
37. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مه عليكم بها تطيقون فو الله لا يمل الله حتي تملو ، ان احب العمل الي الله ادومه وان قل
[بخاري: كتاب الايمان: 39 ، مسلم: كتاب الصيام: 783]
”رک جاؤ، تم اپنے ذمہ صرف وہی کام رکھو جس کی تم طاقت رکھتے ہو۔ اللہ کی قسم ! اللہ (ثواب دینے سے ) نہیں اکتاتا تم ہی (عبادت کرتے کرتے اکتا جاؤ گے۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے، خواہ وہ قلیل ہو اور آپ جو عمل کرتے اس کو مسلسل کرتے رہتے ۔“
38. سیدہ عائشه رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں، بنو اسد قبیلے کی ایک عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من هزه؟
”یہ کون ہے؟ “
میں نے کہا، فلاں عورت ہے، وہ رات بھر سوتی نہیں، اور اس کی کثرت نماز کا تذکرہ کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مه عليكم بما تطيقون ، فو الله لا يمل الله حتى تملوا ، وكان احب الدين إليه ما دام عليه صاحبه
[بخاري: كتاب الايمان: 43 ، مسلم: كتاب الصيام: 783]
”رک جاؤ تم اپنے ذمے صرف وہی کام لو جو کر سکتے ہو۔ اس لیے کہ اللہ (ثواب دیتے ہوئے) نہیں اکتاتا ، حتی کہ تم اکتا جاؤ گے۔ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب کام وہ ہے جس کے کرنے والا اس پر ہمیشگی اختیار کرے ۔“

نکاح کرنا سنت ہے :

39. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، تین آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے گھر تشریف لائے۔ جب انہیں بتایا گیا تو گویا انہوں نے اسے کم محسوس کیا ، اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری کیا نسبت، ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک نے کہا: جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں پوری رات نماز پڑھا کروں گا۔
دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا۔
تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا، کبھی شادی نہیں کروں گا۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:
انتم الذين قلتم كذا وكذا، اما والله إني لاخشاكم لله واتقاكم له لكني اصوم وافطر، واصلي وارقد، واتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني
[بخاري: كتاب النكاح: 5063 ، مسلم: كتاب النكاح: 1401]
”تمہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسے ایسے کہا ہے۔ سن لو! اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ کے بارے میں خشیت اور تم سے زیادہ اس کا تقویٰ رکھتا ہوں۔ لیکن میں (نفلی) روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں نماز پڑھتا ہوں اور رات کو سوتا بھی ہوں، میں نے شادیاں بھی کی ہیں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔“

کم گوئی ایمان کا حصہ ہے :

40. یدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحياء العي شعبتان من الإيمان البذاء البيان شعبتان من النفاق
[ترمذى: كتاب البر والصلة: 2027 ، مسند احمد: باقي مسند الانصار: 269/5 ، روايت صحيح هے]
”شرم و حیاء اور کم گوئی ایمان کے دو حصے ہیں جبکہ بدکلامی و بداخلاقی اور کثرت کلام نفاق کے دو حصے ہیں ۔“

نیت سے متعلقہ احکامات :

41. سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إنما الاعمال بالنية، وإنما لامرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها او امراة يتزوجها، فهجرته إلى ما هاجر إليه
[بخاري: 2529 ، مسلم: 4927]
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔ پس جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ پس جو شخص دنیا کمانے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کی پیش نظر اس نے ہجرت کی۔“
42. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
[بخارى: كتاب المناقب: 3900 ، مسلم: كتاب الامارة: 1864/86]
”فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں، لیکن جہاد اور نیت و اخلاص باقی ہے۔ جب تم سے نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو پھر نکلو۔“
43. سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إذا أنزل الله بقوم عذابا أصاب العذاب من كان فيهم بعثوا على أعمالهم
[بخاري: كتاب الفتن: 7108 ، مسلم: كتاب الجنة وصفة نعيمها و اهلها: 2879/84]
”جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو عذاب اس پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پھر لوگ اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گئے.“
44. سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بالمدينة لرجالا ما سرتم مسيرا ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم حبسهم المرض
”مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم جہاں سے بھی گزرے اور تم نے جس بھی وادی کو عبور کیا تو وہ تمہارے ساتھ ہی تھے۔ بس مرض نے انہیں روک رکھا (کہ وہ تمہارے ساتھ شریک نہیں ہو سکے)۔“
اور ایک روایت میں ہے:
الا شر كوكم فى الاجر
[مسلم: كتاب الامارة: 1911/159 ، ابن ماجه: كتاب الجهاد: 2764]
”مگر وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں۔“

خیر خواہی کے متعلق احکامات :

45. سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدين النصيحة
”دین خیر خواہی و اخلاص کا نام ہے۔ “
ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کس کے ساتھ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لله ولكتابه ولرسوله ولا ئمة المسلمين وعامتهم
[مسلم كتاب الايمان: 55/95]
”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے لیے۔“
46. سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
[بخاري: 57 ، مسلم: 56/97]
47. سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يومن احدكم حتي يحب لا خيه ما يحب لنفسه
[بخاري: كتاب الايمان: 13 ، مسلم: كتاب الايمان: 45/71]
”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا، حتٰی کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“

نیکی کا ارادہ کرنے کے متعلق احکامات :

48. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من هم بحسنة فلم يعملها كتبت له حسنة، ومن هم بحسنة فعملها كتبت له عشرا إلى سبع مائة ضعف، ومن هم بسيئة فلم يعملها لم تكتب، وإن عملها كتبت له سيئه
[مسلم: كتاب الايمان: 130/206 ، مسند احمد: مسند ابي هريره رضی اللہ عنہ: 314/2 ، حديث: 7215]
”جو شخص نیکی کا ارادہ کرے لیکن اسے کر نہ سکے تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اسے کر لے تو اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اور اس کا ارتکاب بھی کرلے تو اس کے لیے ایک برائی لکھ دی جاتی ہے۔“
49. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يقول الله تعالي: اذا هم عبدي بسيئه فلا تكتبوها عليه فان عملها فاكتبوها عليه سيئه ، واذ هم هحسنة فلم يعملها فاكتبوها حسنة فان عملها فاكتبوها عشرة
[مسلم: كتاب الايمان: 130/206 ، مسند احمد: مسند ابي هريره رضی اللہ عنہ: 314/2 ، حديث: 7215]
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میرا بندہ کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے اس کے خلاف نہ لکھو ، اگر اس کا ارتکاب کر لے تو پھر اس کے خلاف ایک برائی لکھو اور جب وہ نیکی کا ارادہ کرے اور اسے نہ کر سکے تو اس کے حق میں ایک نیکی لکھ دو اور اگر وہ نیکی کرنے تو اس کے لیے دس گنا لکھ دو۔“

اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف ہونے کی ممانعت :

50. سیدنا ابو ملیکہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسں بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی ہے، ان سب کو اپنے بارے میں نفاق کا اندیشہ تھا۔ اور وہ اپنے دین کے بارے میں مکر و تد بیر سے بے خوف نہیں تھے ۔ اور ان میں سے کسی کا بھی یہ دعویٰ نہیں تھا کہ وہ جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کے ایمان کے درجے پر فائز ہوں۔
[بخاري: كتاب الايمان: 135/1 ، 136]

بہتان کی ممانعت :

51. سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تبايعوني على ان لا تشركو بالله ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلو النفس التى حرم الله الا بالحق
”تم میری بیعت کرو (اس بات پر ) کہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرو گے، چوری اور زنا نہیں کرو گے، اور جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرو گے۔“
اور ایک روایت میں ہے:
ولا تقتلوا اولادكم، ولا تاتوا ببهتان تفترونه بين ايديكم وارجلكم، ولا تعصوا فى معروف، فمن وفى منكم فاجره على الله، ومن اصاب من ذلك شيئا فعوقب فى الدنيا فهو كفارة له، ومن اصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله فهو إلى الله إن شاء عفا عنه
”تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے نہ اپنی طرف سے بہتان طرازی کرو گے، اور نہ ہی بھلائی سے کسی کام میں میری نافرمانی کرو گے، پس جس نے وفا کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اور جس نے اس بارے میں کوئی کمی کوتاہی کی تو اس کا معاملہ اللہ کے ذمہ ہے اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔“
پس ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (ان تمام معاملات پر ) بیعت کی۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
اذا قلت باطلا فذلك البهتان فذلك البهتان
[بخاري: كتاب الاحكام: 7213 ، مسلم: كتاب الاحكام: 1709/41]
”جب تم نے کوئی باطل بات کی تو یہی بہتان ہے، یہی بہتان ہے۔“

تکالیف پہنچانے کی ممانعت :

52. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والله لا يومن ، والله لا يومن والله لا يومن
”اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا۔ “
عرض کیا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الذى لا يامن جاره بوائقه
[بخاري: كتاب الادب: 6016 ، مسند احمد: اول مسند المدنيين اجمعين: 386/2 ، حديث 7897]
”جس کا ہمسایہ اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔“
53. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يدخل الجنة من لم يامن جاره بوائقه
[مسلم: كتاب الإيمان: 46/73 ، مسند احمد: باقي مسند المكترين: 494/2 ، حديث: 8877]
”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کی تکلیفوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔“

مسلمان کو کافر کہنے کی ممانعت :

54. سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قال لا خيه: يا كافر ، فقد باء بها احدهما
”جس نے اپنے (مسلمان) بھائی سے کہا: اے کافر! تو وہ کلمہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ آتا ہے۔“
اور ایک روایت میں ہے:
اذ كفر الرجل اخاه فقد باء بها احدهما
”جب آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کو تکفیر کرتا ہے، تو وہ کلمہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ آتا ہے۔“
اور ایک روایت میں ہے:
ايما امري قال لاخيه: يا كافر ! فقد باء بها احدهما ان كان كما قال والا رجعت عليه
[بخاري: كتاب الأدب: 6104 ، مسلم: كتاب الايمان: 60/111]
”جس بندے نے اپنے (مسلمان) بھائی سے کہا: اے کافر ! تو وہ کہنا ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف آتا ہے۔ اگر تو وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے کہا ہے تو ٹھیک ورنہ یہ کلمہ اس کہنے والے پر لوٹ آتا ہے۔“

غیب دانی کا دعویٰ کرنے کی ممانعت :

55. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا، جو انہیں خراج دیا کرتا تھا اور وہ اس کے خراج سے کھاتے تھے۔ پس وہ ایک دن کوئی چیز لے کر آیا ، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ پس انہوں نے اس سے پوچھنے سے پہلے اس سے ایک لقمہ کھا لیا تو غلام نے آپ سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کیا ہے؟ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے دور جاہلیت میں ایک انسان کو غیب کی خبر بتائی تھی ، حالانکہ مجھے کہانت کا کچھ پتہ نہیں تھا، بس میں نے تو اسے دھوکہ دیا تھا، وہ مجھے ملا ہے تو اس نے مجھے یہ دیا ہے، پس آپ نے جو کھایا ہے یہ اسی میں سے ہے۔ پس سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے منہ میں انگلی ڈالی اور اپنے پیٹ کی ہر چیز (قے کر کے ) نکال باہر کی ۔
[بخاري: كتاب المناقب: 3842]

سنگ دلی اور بے مروتی کی ممانعت :

56. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحياء من الإيمان الإيمان فى الجنة البذاء من الجفاء الجفاء فى النار
[ترمذى: كتاب البر والصلة: حديث: 2009 ، يه حديث حسن صحيح هے]
”حیاء ایمان میں سے ہے، اور ایمان کا انجام جنت ہے، جبکہ فحش گوئی اور بد زبانی بے مروتی اور سنگ دلی سے ہے، اور بے مروتی و سنگ دلی کا انجام جہنم ہے ۔“

نفاق کی ممانعت :

57. سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے انہیں کہا: ہم اپنے بادشاہوں کے پاس ہوتے ہیں تو ہم ان سے کچھ باتیں کرتے ہیں، لیکن جب ہم ان کے پاس سے آ جاتے ہیں، تو ہم ان باتوں کے برعکس باتیں کرتے ہیں، جو ہم نے ان سے کی ہوتی ہیں؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم اسے نفاق شمار کیا کرتے تھے۔“
[بخاري: كتاب الاحكام: 7178]
58. سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مثل المنافق كالشاة العائرة بين الغنمين تعبره الي هذه مرة والي هذه مرة
”منافق کی مثال، دو گلوں کے درمیان متردد گھومنے والی بکری کی طرح ہے، کبھی اس گلے کی طرف جاتی ہے اور کبھی دوسرے گلے کی طرف جاتی ہے۔“
امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں:
”اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس کے پیچھے چلے۔“
[ مسلم: كتاب صفات المناقين واحكامهم: 2784/17 ، النسائي: الايمان: 108/8 ، مسند احمد: مسند المكثرين من الصحابه: 45/2]
59. سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، آج کے منافقوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے منافق زیادہ برے تھے۔ اس دور میں تو وہ نفاق چھپاتے تھے اور آج کے دور کے منافق ظاہر کرتے ہیں۔
[بخاري: 7113]
60. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:
اللهم اني اعو ذبك من الشقاق الطفاق و سوء الا خلاق
[ابوداؤد: نسائي:]
”اے اللہ ! میں بدبختی، نفاق اور برے اخلاق سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“

شبہات میں مبتلا ہونے کی ممانعت :

61. سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
ان الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبهات استبرا لدينه وعرضه، ومن وقع فى الشبهات كراع يرعى حول الحمى يوشك ان يواقعه، الا وإن لكل ملك حمى، الا إن حمى الله فى ارضه محارمه، الا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله، الا وهى القلب
[بخاري: كتاب الايمان : 52 ، مسلم: كتاب المساقات: 1599/107]
” بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں، بہت سے لوگ انہیں نہیں جانتے، پس جو شخص شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو شخص شبہات میں مبتلا ہو گیا وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چرا گاہ کے ارد گرد چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس میں چلا جائے، سن لو! ہر بادشاہ کی ایک چرا گاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چرا گاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے۔ اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ دل ہے ۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے