جھوٹی قسم کا کفارہ: آسان شرعی طریقے اور حل
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال

اگر کوئی شخص اللہ کی جھوٹی قسم کھاتا ہے اور بعد میں نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اپنی جھوٹی قسم کا کفارہ دینا چاہتا ہے، تو کیا وہ کسی خیراتی ادارے (مثلاً سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ) کو نقد رقم دے سکتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف سے مسکینوں کو کھانا کھلا دے؟ کیا اس طرح اس کا کفارہ ادا ہو جائے گا یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟

کیا اگر وہ شخص روزانہ ایک، دو یا تین مسکینوں کو کسی ہوٹل پر کھانا کھلا دے اور اس طرح مجموعی طور پر دس مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو کیا یہ شریعت میں جائز ہے؟

براہ کرم ان مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

الجواب

جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے اور ممکن ہے کہ کسی کا ناحق مال بھی ہتھیا لے۔ اس قسم پر کوئی کفارہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے توبہ اور کثرت سے استغفار کرنا لازم ہے، اور اگر کسی کا حق مارا گیا ہو تو اسے واپس کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ شاید اس گناہ کو معاف فرما دے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ يَشتَر‌ونَ بِعَهدِ اللَّهِ وَأَيمـٰنِهِم ثَمَنًا قَليلًا أُولـٰئِكَ لا خَلـٰقَ لَهُم فِى الءاخِرَ‌ةِ وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنظُرُ‌ إِلَيهِم يَومَ القِيـٰمَةِ وَلا يُزَكّيهِم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ٧٧﴾
(سورة آل عمران: 77)
"بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، قیامت کے دن اللہ نہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاکیزہ کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔”

نبی کریم ﷺ نے کبیرہ گناہوں میں جھوٹی قسم کو بھی شامل کیا ہے:

«الكبائر الإشراك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس واليمين الغموس »
(صحیح بخاری)
"کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔”

مستقبل کے معاملے پر قسم کا کفارہ

اگر کسی نے کسی مستقبل کے کام پر قسم کھائی اور بعد میں کسی ضرورت کے تحت وہ کام کر لیا، تو اس صورت میں کفارہ لازم آتا ہے۔ قسم کے کفارے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس میں تین چیزیں شامل ہیں، ان میں سے جو بھی میسر ہو اسے ادا کیا جا سکتا ہے:

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَ‌تُهُ إِطعامُ عَشَرَ‌ةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذ‌ٰلِكَ كَفّـٰرَ‌ةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚ وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم ۚ….. ٨٩﴾
(سورة المائدة: 89)
"اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو۔ اگر تم ایسی قسم کو توڑ ڈالو تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے دینا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، اور جسے یہ میسر نہ ہو تو تین دن روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو)۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔”

کفارہ ادا کرنے کے مختلف طریقے

کسی قابل اعتماد ٹرسٹ یا خیراتی ادارے کو رقم دینا
اگر آپ ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں مسکین لوگوں کو کھانا دینا ممکن نہ ہو، تو کسی معتبر خیراتی ادارے (جیسے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ) کو بطور وکیل بنا کر کفارہ کی رقم بھجوائی جا سکتی ہے تاکہ وہ مسکینوں تک یہ امداد پہنچا سکیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

روزانہ کچھ مسکینوں کو کھانا کھلانا
اگر آپ روزانہ ایک، دو یا تین مسکینوں کو کسی ہوٹل یا کسی جگہ کھانا کھلاتے ہیں اور اس طرح شریعت کی مقرر کردہ تعداد یعنی دس مسکینوں تک پہنچ جاتے ہیں، تو یہ بھی شریعت میں جائز ہے۔

مسکین کی تعریف
فقیر اور مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے وسائل نہیں ہیں یا جو اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں کمی کا سامنا کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے