ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ انبیاء، رسولوں اور اولیاء و صالحین کے بارے میں متعدد عقائد رکھتے ہیں، جیسے کہ:
- انہیں اللہ تعالیٰ کے خزائن کا مختار ماننا
- انہیں اللہ کی ذات کا مظہر اور دنیا کی پناہ سمجھنا
- ہر مشکل و بلا سے بچانے والا، جان و مال کا مالک اور کائنات میں تصرف کرنے والا قرار دینا
- دنیا و آخرت کی تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا اور اللہ کا نائب سمجھنا
- قسیم النار، شمس و قمر اور آسمان و زمین کی بادشاہت پر اختیار رکھنے والا سمجھنا
- نفع و نقصان کی کنجیاں اپنے قبضے میں رکھنے والا، حاجت روا، مشکل کشا، فریاد رس، روزی رساں، کارساز، مافوق الاسباب میں مددگار، فتح و نصرت عطا کرنے والا، داتا، دستگیر، لجپال، اور غریب نواز ماننا
ان عقائد کے حاملین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دور و نزدیک سے ان بزرگان کو پکارنا، ان کا واسطہ دینا، مشکل میں ان سے مدد مانگنا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارشی بنانا جائز ہے۔ ان سے دعا، صحت و شفا، حاجات پوری کرنے اور فتح و کامیابی کی امیدیں وابستہ کرنا، ان سے استعانت و التجا اور استغاثہ کرنا بھی درست سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے نام کی نذر و نیاز پیش کرتے ہیں اور ان کے سامنے جھکتے اور سجدے کرتے ہیں۔
ان کے عقائد میں یہ بھی شامل ہے کہ اولیاء دلوں کے بھید جانتے ہیں، ہمارے حالات سے باخبر ہیں، اور پورا جہان ان کے سامنے ہوتا ہے۔ وہ علم غیب رکھتے ہیں، سنتے ہیں اور جانتے ہیں۔
مزید برآں، یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ:
- اولیاء کی قبروں کو مضبوطی سے تعمیر کرنا، ان کی تزئین و آرائش کرنا اور ان پر گنبد بنانا جائز ہے۔
- ان کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا، وہاں عرس اور میلے لگانا، اور قبروں کی خدمت اختیار کرنا مستحب ہے۔
- قبروں پر پانی اور سبیلیں لگانا، چادریں اور پھول چڑھانا، وہاں چراغ جلانا، قبروں کا طواف کرنا، ان پر اعتکاف بیٹھنا اور ادب و احترام کے ساتھ باوضو کھڑا ہونا مناسب ہے۔
- ان قبروں پر نماز، قرآن کی تلاوت، دیگیں چڑھانا اور قبروں کو تریاقِ مجرب سمجھنا جائز ہے۔ ان کے نزدیک یہ اولیاء کی تعظیم و تکریم کے زمرے میں آتا ہے، اور جو اس عقیدے کو نہیں مانتا، اسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔
ان تمام شرکیہ اور کفریہ عقائد، بدعات اور خرافات کو روا رکھنے کے لیے ناجائز تبرک اور ناجائز توسل کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔ سابقہ مشرکین بھی اپنے بزرگوں کے بارے میں یہی عقائد رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اولیاء اور صالحین اللہ تعالیٰ کے حضور مقام و منزلت رکھتے ہیں، اور ہم ان کے وسیلے سے مانگتے ہیں، انہیں سفارشی بناتے ہیں اور ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ دراصل وہ توسل و تبرک کے پردے میں شرک کیا کرتے تھے، اور آج کے مشرکین کا بھی یہی حال ہے۔
تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ یہ ایسی تعظیم ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا۔ اس موضوع پر مدلل تحریر پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگ اولیاء و صالحین سے بھی تبرک کے قائل ہیں، ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
دلیل نمبر 1
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیَقُولُونَ : فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ : ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ : ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ” ۔
"لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی۔ ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہے؟ وہ کہیں گے: جی ہاں! تو انہیں فتح نصیب ہو گی۔ پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ جماعتیں جہاد کریں گی، تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صحبت اختیار کی ہو (تابعی ہو)؟ وہ کہیں گے: جی ہاں! تو انہیں فتح نصیب ہو گی۔ پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ جماعتیں جہاد کریں گی، تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو اصحاب رسول کی صحبت اختیار کرنے والوں کی صحبت سے مشرف ہوا ہو (تبع تابعی ہو)؟ وہ کہیں گے: جی ہاں! تو انہیں فتح حاصل ہو گی۔”
(صحیح البخاري: 3649، صحیح مسلم: 2532)
تبصرہ
کسی چیز کا مبارک اور بابرکت ہونا اور بات ہے جبکہ متبرک ہونا ایک الگ معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو خیر و برکت عطا فرماتے ہیں اور ان کے نیک اعمال، دعاؤں اور اخلاص کی بدولت معاشرے میں سکون اور آسودگی آتی ہے۔ نیک لوگوں کی بدولت اللہ تعالیٰ انسانوں پر برکات نازل کرتا ہے، مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ ان سے تبرک حاصل کرنا درست ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین کی نیک اعمال کی بدولت اللہ تعالیٰ نے امت کو بھلائیاں اور کامیابیاں عطا کی ہیں۔ ان کی دعاؤں اور اخلاص کے سبب مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"ہَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ” ۔
’’تمہیں نصرت و رزق تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے عطا کیا جاتا ہے۔”
(صحیح البخاري: 2596)
اسی طرح سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
"أَبْغُونِي ضُعَفَائَکُمْ، فَإِنَّکُمْ إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِکُمْ” ۔
’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔ بلاشبہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔”
(مسند الإمام أحمد: 198/5، سنن أبي داود: 2594، سنن النسائي: 3181، سنن الترمذي: 1702، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن صحیح” اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (4767) نے "صحیح” اور امام حاکم رحمہ اللہ (104/2، 105) نے "صحیح الاسناد” کہا ہے۔
ان دونوں احادیث کی وضاحت ایک اور حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إِنَّمَا یَنْصُرُ اللّٰہُ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃَ بِضَعِیفِہَا، بِدَعْوَتِہِمْ وَصَلَاتِہِمْ وَإِخْلَاصِہِمْ” ۔
’’اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد صرف اس کے کمزور لوگوں کی دعا، نماز اور اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے۔”
(سنن النسائي: 3180، حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني: 26/2، وسندہٗ صحیحٌ)
اتنی وضاحت کے باوجود اگر کوئی شخص اس حدیث سے فوت شدگان یا زندہ افراد سے تبرک ثابت کرتا ہے، تو یہ علمی دیانت کے خلاف ہے۔ اس حدیث سے اولیاء و صالحین سے تبرک کا جواز نہیں بلکہ زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اہل سنت والجماعت، یعنی اہل حدیث، اسے جائز اور مشروع سمجھتے ہیں۔
موجودہ دور میں انبیاء کرام کی قبور کے متعلق موقف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شیخ و محدث، ابو عبد اللطیف، حماد بن محمد انصاری افریقی (1418-1344ھ) فرماتے ہیں:
"لَا یُوجَدُ نَبِيٌّ فِي الدُّنْیَا یُعْرَفُ قَبْرُہٗ إِلاَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہٰذَا إِجْمَاعٌ بَیْنَ السَّلَفِ” ۔
’’دنیا میں کسی بھی نبی کی قبر معلوم نہیں، سوائے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے۔ اس بات پر سلف صالحین کا اجماع ہے۔”
(المجموع في ترجمۃ العلاّمۃ المحدّث الشیخ حمّاد بن محمّد الأنصاري: 504/2)
خلاصہ
یہ مضمون اولیاء اور صالحین سے متعلق عوامی عقائد اور ان کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ بعض افراد انبیاء، اولیاء اور صالحین کو اللہ کے خزائن کا مختار، حاجت روا، مشکل کشا اور دنیا و آخرت کی نعمتوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ اس مضمون میں دلائل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے عقائد شرعی نقطہ نظر سے درست نہیں اور اسلام میں توحید کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین کی زندگی میں بھی اللہ نے ان کے اخلاص اور دعاؤں کے سبب برکت اور فتوحات عطا کیں، مگر اس کا مقصد تبرک حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی دعاؤں اور اعمال کی برکت تھی۔ مضمون میں انبیاء کی قبور کی موجودہ صورتحال اور شرعی موقف کو بھی واضح کیا گیا ہے تاکہ تبرک اور توسل کے درست معانی کو سمجھا جاسکے۔