مستدرک حاکم سے 17 منتخب احادیث کا مجموعہ
مرتب کردہ: قاری اسامہ بن عبدالسلام

1- جو دنیا میں کسی کا گناہ چھپائے گا ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ چھپائے گا

أخبرنا أبو زكريا يحيى بن محمد العنبري، ثنا محمد بن عبد السلام، ثنا إسحاق بن إبراهيم، أنبأ حيان بن هلال، ثنا وهيب، ثنا سهيل، عن أبيه، عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يستر عبد عبدا فى الدنيا إلا ستره الله يوم القيامة هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه "” وهذا يصحح حديث الأعمش، عن أبى صالح، عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: لا يستر عبد عبدا فى الدنيا إلا ستره الله يوم القيامة وذاك أن أسباط بن محمد القرشي، رواه عن الأعمش، عن بعض أصحابه، عن أبى صالح، ورواه حماد بن زيد، عن محمد بن واسع، عن رجل، عن أبى صالح[التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ دنیا میں کسی بندے کا گناہ چھپائے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ چھپائے گا ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو اس اسناد کے ہمراہ نقل نہیں کیا ۔ ابوصالح نے حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو بندہ دنیا میں کسی کے گناہ کو چھپاتا ہے ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کو چھپاتا ہے ۔ اسباط بن محمد القرشی نے اس حدیث کو اعمش کے واسطے اپنے ایک ساتھی کے حوالے سے ابوصالح سے روایت کیا ہے ۔ اور حماد بن زید نے محمد بن واسع کے ذریعے ایک آدمی کے واسطے سے ابوصالح سے روایت کیا ہے
مستدرک للحاکم حدیث (8160)

2- جو دنیا میں کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیف کو دور کرے گا

أخبرنا أبو العباس محمد بن أحمد المحبوبي، ثنا سعيد بن مسعود، ثنا يزيد بن هارون، أنبأ هشام بن حسان، عن محمد بن واسع، عن أبى صالح، عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ستر أخاه فى الدنيا ستره الله فى الدنيا والآخرة، ومن نفس عن أخيه كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه هذا الإسناد صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه"” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی کی دنیا میں پردہ پوشی کی ، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے گناہوں کو چھپائے گا ، اور جس نے اپنے بھائی سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی ، اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی تکالیف دور فرمائے گا ۔ اور جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مشغول رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں مشغول رہتا ہے ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا
مستدرک للحاکم حدیث (8159)

3- بندہ جب تک اپنے بھائی کی مدد میں مشغول رہتا ھے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں مشغول رہتا ھے

أخبرنا أبو العباس محمد بن أحمد المحبوبي، ثنا سعيد بن مسعود، ثنا يزيد بن هارون، أنبأ هشام بن حسان، عن محمد بن واسع، عن أبى صالح، عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ستر أخاه فى الدنيا ستره الله فى الدنيا والآخرة، ومن نفس عن أخيه كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه هذا الإسناد صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه"” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی کی دنیا میں پردہ پوشی کی ، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے گناہوں کو چھپائے گا ، اور جس نے اپنے بھائی سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی ، اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی تکالیف دور فرمائے گا ۔ اور جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مشغول رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں مشغول رہتا ہے ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا ۔”
مستدرک للحاکم حدیث (8159)

4- کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرنے والے کی عظمت شان اور اس کے اجروثواب کا بیان

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا بحر بن نصر الخولاني، ثنا عبد الله بن وهب، أخبرني إبراهيم بن نشيط، عن كعب، عن علقمة، عن كثير، مولى عقبة بن عامر رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من رأى عورة فسترها كان كمن استحيى موءودة من قبرها هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه"” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

ترجمہ

” حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی کا گناہ دیکھا اور اس کی پردہ پوشی کی ، وہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے کسی زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو قبر سے نکال کر اسے زندگی بخش دی ہو ۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا
مستدرک للحاکم حدیث (8162)

5- اپنایا کسی کا گناہ افشاء کرنے سے گریزکرنا چاہیے

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، أنبأ الربيع بن سليمان، ثنا أسد بن موسى، ثنا أنس بن عياض، عن يحيى بن سعيد، حدثني عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعد أن رجم الأسلمي، فقال: اجتنبوا هذه القاذورة التى نهى الله عنها، فمن ألم فليستتر بستر الله وليتب إلى الله، فإنه من يبد لنا صفحته نقم عليه كتاب الله تعالى عز وجل [التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کو رجم کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : اس گندگی سے بچو ، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ، اور جو اس میں مبتلا ہو جائے ، اس کو چاہیے کہ وہ اس چیز کو چھپانے کی کوشش کرے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے چھپایا ہوا ہے ، اور اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے ، کیونکہ جس کا عمل ہمارے پاس ظاہر ہو جاتا ہے ، اس پر کتاب اللہ کے مطابق حد لگانا ضروری ہو جاتا ہے
مستدرک للحاکم حدیث (8158)

6- جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا جلددے دیتا ہے

حدثنا محمد بن صالح بن هانئ، ثنا الحسين بن الفضل البجلي، ثنا عفان بن مسلم، ثنا حماد بن سلمة، عن يونس بن عبيد، عن الحسن، عن عبد الله بن مغفل، أن امرأة كانت بغيا فى الجاهلية مر بها رجل فبسط يده إليها ولاعبها فقالت: مه، إن الله تعالى ذهب بالشرك وجاء بالإسلام، فتركها وولى فجعل يلتفت ينظر إليها حتى أصاب وجهه الحائط، قال: فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: أنت عبد أراد الله بك خيرا، إن الله إذا أراد بعبد خيرا عجل له عقوبة ذنبه، وإذا أراد شرا أمسك عليه العقوبة بذنبه حتى يوافي به يوم القيامة كأنه عير هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

ترجمہ

” حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : زمانہ جاہلیت میں ایک طوائفہ تھی ، اس کے پاس سے ایک مرد گزرا ، اس مرد نے اپنا ہاتھ اس عورت کی جانب بڑھایا ، عورت نے کہا : رک جا ، اللہ تعالیٰ نے شرک کو ختم کر دیا ہے اور اسلام لے آیا ہے ، اس آدمی نے اس کو چھوڑ دیا اور واپس آ گیا ، وہ اس عورت کی طرف دیکھتا ہوا جا رہا تھا کہ اس کا منہ دیوار سے ٹکرا گیا ۔ وہ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور سارا ماجرا سنایا ، آپ ﷺ نے فرمایا : تم وہ آدمی ہو ، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ فرمایا ، بے شک اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا جلد ہی دے دیتا ہے ، اور جب بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی سزا میں تاخیر کرتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے دن اس کو اس گناہ کی سزا دے گا ، اور اس وقت تک اس کا گناہ بہت بڑا ہو چکا ہو گا ۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا

مستدرک للحاکم حدیث (8133)

7- جس کی موت کفر پر ہوئی، اور جس نے ناحق قتل کیا ، اس کی بخشش نہیں ہے

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا بكار بن قتيبة القاضي، ثنا صفوان بن عيسى، ثنا ثور بن يزيد، عن أبى عون، عن أبى إدريس الخولاني، قال: سمعت معاوية بن أبى سفيان، وكان قليل الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل ذنب عسى الله أن يغفره إلا رجل يموت كافرا أو الرجل يقتل مؤمنا متعمدا هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "[التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

” حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما آپ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد بہت کم ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر گناہ بخش دے گا ، سوائے اس شخص کے جس کی موت کفر پر ہوئی ، اور جو شخص جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرے ۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا ۔”

مستدرک للحاکم حدیث (8031)

8- مسلمان کے اسلام میں کوئی فرق نہیں آتا اگر وہ کسی حق کا مرتکب نہ ہو

خبرنا عبد الرحمن بن حمدان الجلاب، بهمدان، ثنا أبو حاتم الرازي، ثنا أبو غسان محمد بن يحيى بن على بن عبد الحميد الكناني، ثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يزال المرء فى فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ولم يخرجاه وإنما يعد فى أفراد محمد بن يحيى الذهلي، عن محمد بن يحيى الكناني وله إسناد آخر صحيح "” [التعليق – من تلخيص الذهبي]- على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

” حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بندہ ہمیشہ اپنے دین میں ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل کا مرتکب نہ ہو ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا ۔ اور اس کو محمد بن یحیی ذہلی کے متفردات میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ انہوں نے محمد بن یحیی کنانی سے روایت کی ہے ۔ اور اس حدیث کی اور دوسری صحیح اسناد بھی ہے ( جو کہ درج ذیل ہے )”
مستدرک للحاکم حدیث (8029)

9- بلاوجہ کسی کو ضرب لگانا ،قتل کرنا اور نااہل کو ذمہ داری سپرد کرنا سب سے بڑی نافرمانی ھے

أخبرنا عبد الرحمن بن حمدان الجلاب، بهمدان، ثنا أبو حاتم الرازي، ثنا أبو غسان محمد بن يحيى بن على بن عبد الحميد الكناني، ثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يزال المرء فى فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ولم يخرجاه وإنما يعد فى أفراد محمد بن يحيى الذهلي، عن محمد بن يحيى الكناني وله إسناد آخر صحيح "” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

” حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بندہ ہمیشہ اپنے دین میں ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل کا مرتکب نہ ہو ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا ۔ اور اس کو محمد بن یحیی ذہلی کے متفردات میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ انہوں نے محمد بن یحیی کنانی سے روایت کی ہے ۔ اور اس حدیث کی اور دوسری صحیح اسناد بھی ہے ( جو کہ درج ذیل ہے )

مستدرک للحاکم حدیث (8029)

10- شیطان اپنے اس چیلے پر سب سے زیادہ راضی ہوتا ہے جو کسی سے قتل کرواتا ھے

أخبرني أبو زكريا يحيى بن محمد العنبري، ثنا إبراهيم بن أبى طالب، ثنا أبو كريب، ونصر بن علي، قالا: ثنا أبو أحمد الزبيري، ثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن أبى عبد الرحمن، عن أبى موسى الأشعري رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: "” إذا أصبح إبليس بث جنوده فيقول: من أضل اليوم مسلما ألبسته التاج، فيجيء أحدهم فيقول: لم أزل به حتى عق والده، فقال: يوشك أن يبره، ويجيء أحدهم فيقول: لم أزل به حتى طلق امرأته، فيقول: يوشك أن يتزوج، ويجيء أحدهم فيقول: لم أزل به حتى أشرك فيقول: أنت أنت، ويجيء أحدهم فيقول: لم أزل به حتى قتل، فيقول: أنت أنت ويلبسه التاج هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه [التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

ترجمہ

” حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب صبح ہوتی ہے تو شیطان اپنے چیلوں کو یہ کہہ کر روانہ کرتا ہے کہ آج جو کسی مسلمان کو گمراہ کرے گا میں اس کو تاج پہناؤں گا ، ( شام کو جب یہ سب واپس آتے ہیں تو ) ایک شیطان کہتا ہے ، میں نے ایک مسلمان پر بہت محنت کی اور بالآخر اس کو باپ کا نافرمان بنا دیا ، شیطان کہتا ہے : ممکن ہے کہ وہ بعد میں ان کا فرمانبردار بن جائے ۔ ( تو نے کوئی بہت بڑا کام نہیں کیا ) ایک اور شیطان کہتا ہے : میں ایک مسلمان کے پیچھے لگا رہا حتیٰ کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے ، شیطان کہتا ہے : وہ دوبارہ شادی کروا لے گا ( تو نے بھی کوئی بہت بڑا کام نہیں کیا ) پھر ایک شیطان آتا ہے ، وہ کہتا ہے : میں ایک مسلمان کے پیچھے لگا رہا ، حتیٰ کہ میں نے اس کو شرک میں مبتلا کر دیا ہے ، شیطان کہتا ہے تو نے بھی اچھا کام کیا ہے ، پھر ایک اور شیطان کہتا ہے : میں ایک مسلمان کے پیچھے لگا اور اس سے قتل کروا دیا ، شیطان کہتا ہے : واہ واہ تو نے سب سے اچھا کام کیا ہے ، اور وعدے کے مطابق وہ تاج اس کو پہنا دیتا ہے ۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا
مستدرک للحاکم حدیث (8027)

11- بندہ مشرک نہ ہو اور ناحق قتل کا مرتکب نہ ہو ،تو جنت کے جس دروازے سے چاہیے داخل ہوجائے

أنبأنا أبو عمرو عثمان بن أحمد بن السماك ببغداد، ثنا الحسين بن أبى معشر، ثنا وكيع بن الجراح، عن إسماعيل بن أبى خالد، عن عبد الرحمن بن عائذ، عن عقبة بن عامر الجهني رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لقي الله تعالى لا يشرك به شيئا ولم يتند بدم حرام دخل الجنة من أى أبواب الجنة شاء وقد قيل عن إسماعيل، عن قيس بن أبى حازم، عن جرير [التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

ترجمہ

حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور اس نے کسی کو ناحق قتل نہ کیا ہو ، وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے,

مستدرک للحاکم حدیث (8034)

12- جس نے کسی کو اعتماد میں لے کر قتل کر ڈالا ، قیامت کے دن اس کو غداروں میں اٹھایا جائے گا

أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الزاهد الأصبهاني، ثنا أحمد بن مهدي بن رستم الأصبهاني، ثنا أبو عامر العقدي، ثنا قرة بن خالد، عن عبد الملك بن عمير، قال: ثنا عامر بن شداد، قال: كنت أبطن شيئا بالكذاب أدخل عليه بسيفي فدخلت عليه ذات يوم فقال: جئتني والله ولقد قام جبريل عن هذا الكرسي فأهويت إلى قائم سيفي فقلت: ما أنتظر أن أمشي بين رأسه وجسده حتى ذكرت حديثا حدثناه عمرو بن الحمق رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا اطمأن الرجل إلى الرجل ثم قتله بعدما اطمأن إليه نصب له يوم القيامة لواء غدر هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

ترجمہ

” عامر بن شداد بیان کرتے ہیں کہ میں کذاب کے بارے میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ کسی طرح میں اس کے پاس تلوار لے کر پہنچ جاؤں ، ایک دن میں اس مقصد میں کامیاب ہو گیا ، اس نے کہا : تم میرے پاس ائے ہو اور تمہارے آتے ہی یہ جبریل اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے ہیں ، میں نے اپنی تلوار کا دستہ تھاما اور کہا : میں اس کے سر کو تن سے جدا کرنا ہی چاہتا تھا کہ مجھے عمرو بن الحمق کی سنائی ہوئی حدیث یاد آ گئی ، انہوں نے بتایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کسی بندہ کو کسی پر اعتماد ہو جائے پھر اس پر اعتماد ہونے کے بعد اس کو قتل کر ڈالے ، قیامت کے دن اس کو غداروں میں اٹھایا جائے گا ۔ ( اس لیے میں نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ۔ ) ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا

مستدرک للحاکم حدیث (8040)

13- جب اللہ تعالٰی اپنے بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ ءکی سزا جلدی دے دیتا ہے

حدثنا محمد بن صالح بن هانئ، ثنا الحسين بن الفضل البجلي، ثنا عفان بن مسلم، ثنا حماد بن سلمة، عن يونس بن عبيد، عن الحسن، عن عبد الله بن مغفل، أن امرأة كانت بغيا فى الجاهلية مر بها رجل فبسط يده إليها ولاعبها فقالت: مه، إن الله تعالى ذهب بالشرك وجاء بالإسلام، فتركها وولى فجعل يلتفت ينظر إليها حتى أصاب وجهه الحائط، قال: فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: أنت عبد أراد الله بك خيرا، إن الله إذا أراد بعبد خيرا عجل له عقوبة ذنبه، وإذا أراد شرا أمسك عليه العقوبة بذنبه حتى يوافي به يوم القيامة كأنه عير هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – صحيح

ترجمہ

” حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : زمانہ جاہلیت میں ایک طوائفہ تھی ، اس کے پاس سے ایک مرد گزرا ، اس مرد نے اپنا ہاتھ اس عورت کی جانب بڑھایا ، عورت نے کہا : رک جا ، اللہ تعالیٰ نے شرک کو ختم کر دیا ہے اور اسلام لے آیا ہے ، اس آدمی نے اس کو چھوڑ دیا اور واپس آ گیا ، وہ اس عورت کی طرف دیکھتا ہوا جا رہا تھا کہ اس کا منہ دیوار سے ٹکرا گیا ۔ وہ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور سارا ماجرا سنایا ، آپ ﷺ نے فرمایا : تم وہ آدمی ہو ، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ فرمایا ، بے شک اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا جلد ہی دے دیتا ہے ، اور جب بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی سزا میں تاخیر کرتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے دن اس کو اس گناہ کی سزا دے گا ، اور اس وقت تک اس کا گناہ بہت بڑا ہو چکا ہو گا ۔ ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا ۔”
مستدرک للحاکم حدیث (8133)

14- جو آدمی اسلام قبول کرتا ہے’ اللہ تعالیٰ سے دوستی رکھے گا ،جو جس سے محبت کرے گا،جو کسی کی پردہ پوشی کرے گا

أخبرنا أبو العباس المحبوبي، ثنا سعيد بن مسعود، ثنا يزيد بن هارون، أنبأ همام بن يحيى، عن إسحاق بن عبد الله بن أبى طلحة، قال: حدثني شيبة الخضري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "” ثلاث أحلف عليهن والرابع لو حلفت عليه لرجوت أن لا آثم: لا يجعل الله عبدا له سهم فى الإسلام كمن لا سهم له، ولا يتولى الله عبد فى الدنيا فيوليه غيره يوم القيامة، ولا يحب رجل قوما إلا كان معهم أو منهم، والرابعة لو حلفت عليها لرجوت أن لا آثم، لا يستر الله على عبد فى الدنيا إلا ستر الله عليه فى الآخرة "” قال: فحدثت به عمر بن عبد العزيز، فقال عمر: إذا سمعتم مثل هذا الحديث عن عروة، عن عائشة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحفظوه واحتفظوا به [التعليق – من تلخيص الذهبي] – سكت عنه الذهبي في التلخيص

ترجمہ

” ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین چیزوں پر میں قسم کھا سکتا ہوں ، اور ایک چوتھی چیز بھی ہے ، وہ ایسی ہے کہ اگر میں اس پر قسم کھاؤں تو مجھے امید ہے کہ میں گنہگار نہیں ہوں گا ۔ ٭ جس آدمی کا اسلام میں کوئی حصہ ہے ، اللہ تعالیٰ اسے اس آدمی کے برابر نہیں رکھے گا جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔ ٭ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بندہ دنیا میں اللہ تعالیٰ سے دوستی رکھے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کسی اور سے دوستی رکھے ۔ ٭ جو بندہ جس قوم سے محبت رکھے گا ، وہ ان کے ساتھ ہی ہو گا ۔ ٭ چوتھی بات پر اگر میں قسم کھاؤں تو مجھے یقین ہے کہ اس میں ، میں گنہگار نہیں ہوں گا ، وہ چوتھی بات یہ ہے کہ جو بندہ دنیا میں لوگوں کی پردہ پوشی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا ۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے یہ حدیث حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا : جب تم عروہ کی بیان کردہ حدیث سنو جو انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہو تو اس کو یاد کر لیا کرو اور اس کو یاد رکھا بھی کرو
مستدرک للحاکم حدیث (8161)

15- قیامت کے دن غدارکی سرین پر جھنڈا لگایا جائے گا جو کہ اس کی غداری کی نشانی ھوگا

أخبرني عبد الله بن محمد بن موسى العدل، ثنا محمد بن أيوب، ثنا على بن عثمان اللاحقي، وموسى بن إسماعيل، قالا: ثنا حماد بن سلمة، أنبأ على بن زيد، عن أبى نضرة، عن أبى سعيد رضي الله عنه، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العصر، ثم قام خطيبا بعد العصر إلى مغربان الشمس حفظها من حفظها، ونسيها من نسيها، وأخبر فيها بما هو كائن إلى يوم القيامة فحمد الله تعالى وأثنى عليه ثم قال: أما بعد فإن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله تعالى مستخلفكم فيها، فناظر كيف تعملون، ألا فاتقوا الدنيا، واتقوا النساء، ألا إن بني آدم خلقوا على طبقات شتى فمنهم من يولد مؤمنا، ويحيى مؤمنا، ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت كافرا، ومنهم من يولد مؤمنا ويحيى مؤمنا ويموت كافرا، ومنهم من يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت مؤمنا، ألا إن الغضب جمرة توقد فى جوف ابن آدم، ألم تروا إلى حمرة عينيه وانتفاخ أوداجه فإذا وجد أحدكم من ذلك شيئا فليلزق بالأرض، ألا إن خير الرجال من كان بطيء الغضب سريع الفيء، وشر الرجال من كان سريع الغضب بطيء الفيء، فإذا كان الرجل سريع الغضب سريع الفيء فإنها بها وإذا كان الرجل بطيء الغضب بطيء الفيء فإنها بها، ألا إن خير التجار من كان حسن القضاء حسن الطلب، وشر التجار من كان سيء القضاء سيء الطلب، فإذا كان الرجل حسن القضاء سيء الطلب فإنها بها، وإذا كان الرجل سيء القضاء حسن الطلب فإنها بها، ألا لا يمنعن رجلا مهابة الناس أن يقول بالحق إذا علمه، ألا إن لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته، ألا وإن أكبر الغدر غدر إمام عامة، ألا وإن الغادر لواؤه عند استه، ألا وإن أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر فلما كان عند مغربان الشمس "”، قال: إن مثل ما بقي من الدنيا فيما مضى منها كمثل ما بقي من يومكم هذا فيما مضى هذا حديث تفرد بهذه السياقة على بن زيد بن جدعان القرشي، عن أبى نضرة. والشيخان رضي الله عنهما لم يحتجا بعلي بن زيد "” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – ابن جدعان صالح الحديث

ترجمہ

” حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی پھر عصر سے مغرب تک آپ نے ہمیں خطبہ دیا ، کئی لوگوں نے اس کو یاد رکھا اور کئی لوگ بھول گئے ، اس خطبے میں حضور ﷺ نے قیامت تک ہونے والے واقعات بیان کر دیے ، ( خطبے کے آغاز میں ) آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء فرمائی ، پھر فرمایا : دنیا سرسبز اور میٹھی ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں کچھ عرصہ رکھے گا ، وہ دیکھے گا کہ تم کیا عمل کرتے ہو ، خبردار ! دنیا سے بچتے رہنا ، اور عورتوں سے بچتے رہنا ، خبردار ! بنی آدم کو مختلف طبقات میں پیدا کیا گیا ہے ، * کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں ، مومن زندگی گزارتے ہیں اور حالت ایمان میں ہی وفات پاتے ہیں ۔ * کچھ کافر پیدا ہوتے ہیں ، کفر میں ہی زندگی گزارتے ہیں اور کفر پر ہی مرتے ہیں ۔ * کچھ ایسے ہوتے ہیں جو مومن پیدا ہوتے ہیں ، ایمان پر زندگی گزارتے ہیں لیکن کافر ہو کر مرتے ہیں ۔ * کچھ ایسے ہیں جو کافر پیدا ہوتے ہیں ، کفر میں ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ۔ خبردار ! غصہ ایک انگارہ ہے جو ابن آدم کے پیٹ میں پیدا ہوتا ہے ، کیا تم اس کی آنکھوں کی سرخی کو نہیں دیکھتے ؟ اور اس کے نتھنے پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ؟ جب کسی پر یہ کیفیت طاری ہو ، اس کو چاہئے کہ وہ زمین کے ساتھ چپک جائے ۔ خبردار ! مردوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کو بہت دیر سے غصہ آئے ، اور وہ معاف بہت جلدی کر دے ۔ اور سب سے برا شخص وہ ہے جس کو بہت جلدی غصہ آ جائے اور بہت دیر سے ختم ہو ، اگر آدمی کو غصہ جلدی آتا ہو اور وہ معاف بھی جلدی کرتا ہو تب تو ٹھیک ہے ، جس کو غصہ لیٹ آتا ہے اور ختم بھی دیر سے ہوتا ہے ، یہ بھی ٹھیک ہے ، خبردار ! بہترین تاجر وہ ہے جو ادائیگی بھی اچھے انداز میں کرے اور تقاضا بھی اچھے انداز میں کرے ، اور سب سے برا تاجر وہ ہے جو بداخلاقی سے تقاضا کرے اور برے انداز سے ادائیگی کرے ۔ جس کی ادائیگی درست اور تقاضا برا ہو گا ، یہ ٹھیک ہے اور جس کی ادائیگی درست اور تقاضا برا ہو گا وہ بھی ٹھیک ہے ۔ خبردار ! جس کو حق معلوم ہو لوگوں کی ہیبت اس کو حق بولنے سے روک نہ پائے ، خبردار ! ہر غدار کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا ، اس کی مقدار اس کی غداری کے مطابق ہو گی ، خبردار ! سب سے بڑی غداری حکمران سے غداری ہے ۔ خبردار ! غدار کا جھنڈا اس کی سرین پر ہو گا ، خبردار ! بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے ۔ پھر جب سورج کے غروب ہونے کے بالکل قریب تھا تو فرمایا : اب دنیا جتنی باقی بچی ہے وہ اتنی ہی ہے جتنا آج کے دن کا وقت باقی بچا ہے ۔ ٭٭ علی بن زید بن جدعان قرشی یہ حدیث اس اسناد کے ہمراہ ، ابونضرہ سے روایت کرنے میں منفرد ہیں ۔ جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے علی بن زید کی روایات نقل نہیں کیں

مستدرک للحاکم حدیث (8543)

16- قرب قیامت لوگ صرف شرم رکھنے کے لئے نماز پڑھیں گئے

حدثنا أبو حفص أحمد بن حنبل الفقيه ببخارى، ثنا صالح بن محمد بن حبيب الحافظ، ثنا أبو بكر بن أبى شيبة، ثنا أبو أسامة، قال: سمعت سفيان بن سعيد، يقول: أنبأ الأعمش، أنبأ أبو عمارة، عن صلة بن زفر، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: يكون عليكم أمراء يتركون من السنة مثل هذا – وأشار إلى أصل إصبعه – وإن تركتموهم جاءوا بالطامة الكبرى، وإنها لم تكن أمة إلا كان أول ما يتركون من دينهم السنة، وآخر ما يدعون الصلاة، ولولا أنهم يستحيون ما صلوا هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه "” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم

ترجمہ

” حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جو اتنی اتنی سنت چھوڑیں گے ۔ یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلی کی جڑ کی طرف اشارہ کیا ۔ اور اگر تم ان کو چھوڑ دو گے تو بڑی عام مصیبت آئے گی ۔ وہ امت سب سے پہلے سنتوں کو چھوڑے گی ، اور ان کی انتہا ، نماز چھوڑنے پر ہو گی ۔ اور اگر ان کو حیاء کا معاملہ درپیش نہ ہو تو وہ نماز نہیں پڑھیں گے ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا
مستدرک للحاکم حدیث (8584)

17- کچھ لوگ ایمان پر پیدا ہوتے ہیں زندگی ایمان پر گزارتے ھیں لیکن کفر پر مرتے ہیں

أخبرني عبد الله بن محمد بن موسى العدل، ثنا محمد بن أيوب، ثنا على بن عثمان اللاحقي، وموسى بن إسماعيل، قالا: ثنا حماد بن سلمة، أنبأ على بن زيد، عن أبى نضرة، عن أبى سعيد رضي الله عنه، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العصر، ثم قام خطيبا بعد العصر إلى مغربان الشمس حفظها من حفظها، ونسيها من نسيها، وأخبر فيها بما هو كائن إلى يوم القيامة فحمد الله تعالى وأثنى عليه ثم قال: أما بعد فإن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله تعالى مستخلفكم فيها، فناظر كيف تعملون، ألا فاتقوا الدنيا، واتقوا النساء، ألا إن بني آدم خلقوا على طبقات شتى فمنهم من يولد مؤمنا، ويحيى مؤمنا، ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت كافرا، ومنهم من يولد مؤمنا ويحيى مؤمنا ويموت كافرا، ومنهم من يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت مؤمنا، ألا إن الغضب جمرة توقد فى جوف ابن آدم، ألم تروا إلى حمرة عينيه وانتفاخ أوداجه فإذا وجد أحدكم من ذلك شيئا فليلزق بالأرض، ألا إن خير الرجال من كان بطيء الغضب سريع الفيء، وشر الرجال من كان سريع الغضب بطيء الفيء، فإذا كان الرجل سريع الغضب سريع الفيء فإنها بها وإذا كان الرجل بطيء الغضب بطيء الفيء فإنها بها، ألا إن خير التجار من كان حسن القضاء حسن الطلب، وشر التجار من كان سيء القضاء سيء الطلب، فإذا كان الرجل حسن القضاء سيء الطلب فإنها بها، وإذا كان الرجل سيء القضاء حسن الطلب فإنها بها، ألا لا يمنعن رجلا مهابة الناس أن يقول بالحق إذا علمه، ألا إن لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته، ألا وإن أكبر الغدر غدر إمام عامة، ألا وإن الغادر لواؤه عند استه، ألا وإن أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر فلما كان عند مغربان الشمس "”، قال: إن مثل ما بقي من الدنيا فيما مضى منها كمثل ما بقي من يومكم هذا فيما مضى هذا حديث تفرد بهذه السياقة على بن زيد بن جدعان القرشي، عن أبى نضرة. والشيخان رضي الله عنهما لم يحتجا بعلي بن زيد "” [التعليق – من تلخيص الذهبي] – ابن جدعان صالح الحديث

ترجمہ

” حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی پھر عصر سے مغرب تک آپ نے ہمیں خطبہ دیا ، کئی لوگوں نے اس کو یاد رکھا اور کئی لوگ بھول گئے ، اس خطبے میں حضور ﷺ نے قیامت تک ہونے والے واقعات بیان کر دیے ، ( خطبے کے آغاز میں ) آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء فرمائی ، پھر فرمایا : دنیا سرسبز اور میٹھی ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں کچھ عرصہ رکھے گا ، وہ دیکھے گا کہ تم کیا عمل کرتے ہو ، خبردار ! دنیا سے بچتے رہنا ، اور عورتوں سے بچتے رہنا ، خبردار ! بنی آدم کو مختلف طبقات میں پیدا کیا گیا ہے ، * کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں ، مومن زندگی گزارتے ہیں اور حالت ایمان میں ہی وفات پاتے ہیں ۔ * کچھ کافر پیدا ہوتے ہیں ، کفر میں ہی زندگی گزارتے ہیں اور کفر پر ہی مرتے ہیں ۔ * کچھ ایسے ہوتے ہیں جو مومن پیدا ہوتے ہیں ، ایمان پر زندگی گزارتے ہیں لیکن کافر ہو کر مرتے ہیں ۔ * کچھ ایسے ہیں جو کافر پیدا ہوتے ہیں ، کفر میں ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ۔ خبردار ! غصہ ایک انگارہ ہے جو ابن آدم کے پیٹ میں پیدا ہوتا ہے ، کیا تم اس کی آنکھوں کی سرخی کو نہیں دیکھتے ؟ اور اس کے نتھنے پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ؟ جب کسی پر یہ کیفیت طاری ہو ، اس کو چاہئے کہ وہ زمین کے ساتھ چپک جائے ۔ خبردار ! مردوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کو بہت دیر سے غصہ آئے ، اور وہ معاف بہت جلدی کر دے ۔ اور سب سے برا شخص وہ ہے جس کو بہت جلدی غصہ آ جائے اور بہت دیر سے ختم ہو ، اگر آدمی کو غصہ جلدی آتا ہو اور وہ معاف بھی جلدی کرتا ہو تب تو ٹھیک ہے ، جس کو غصہ لیٹ آتا ہے اور ختم بھی دیر سے ہوتا ہے ، یہ بھی ٹھیک ہے ، خبردار ! بہترین تاجر وہ ہے جو ادائیگی بھی اچھے انداز میں کرے اور تقاضا بھی اچھے انداز میں کرے ، اور سب سے برا تاجر وہ ہے جو بداخلاقی سے تقاضا کرے اور برے انداز سے ادائیگی کرے ۔ جس کی ادائیگی درست اور تقاضا برا ہو گا ، یہ ٹھیک ہے اور جس کی ادائیگی درست اور تقاضا برا ہو گا وہ بھی ٹھیک ہے ۔ خبردار ! جس کو حق معلوم ہو لوگوں کی ہیبت اس کو حق بولنے سے روک نہ پائے ، خبردار ! ہر غدار کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا ، اس کی مقدار اس کی غداری کے مطابق ہو گی ، خبردار ! سب سے بڑی غداری حکمران سے غداری ہے ۔ خبردار ! غدار کا جھنڈا اس کی سرین پر ہو گا ، خبردار ! بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے ۔ پھر جب سورج کے غروب ہونے کے بالکل قریب تھا تو فرمایا : اب دنیا جتنی باقی بچی ہے وہ اتنی ہی ہے جتنا آج کے دن کا وقت باقی بچا ہے ۔ ٭٭ علی بن زید بن جدعان قرشی یہ حدیث اس اسناد کے ہمراہ ، ابونضرہ سے روایت کرنے میں منفرد ہیں ۔ جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے علی بن زید کی روایات نقل نہیں کیں
مستدرک للحاکم حدیث (8543)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے