شریعت اور عقل کا مسئلہ امت مسلمہ میں طویل عرصے سے بحث و تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس معاملے میں دو انتہائیں دیکھی گئی ہیں:
پہلی انتہا
شریعت کے احکامات میں کسی حکمت کا کوئی عمل دخل نہیں سمجھا جاتا، یعنی یہ حکمت صرف اضافی چیز ہے۔
دوسری انتہا
یہ نظریہ کہ شریعت کے ہر حکم کو انسانی جسمانی و نفسیاتی فطرت اور عقل سے مطابقت رکھنا چاہئے اور اسے ثابت بھی کیا جا سکتا ہے۔
بیشتر اہل علم کے مطابق، شرعی احکامات محض آزمائش کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ لہذا، سوال یہ ہے کہ اس مسئلے میں اعتدال کا راستہ کیا ہے؟
جدید دور اور عقل کی اہمیت
موجودہ دور میں ذہنی آزادی عام ہو چکی ہے، اور اطلاعات اور مواصلات کے ذرائع کی بڑھتی ہوئی دستیابی نے اس آزادی کو بے قابو کر دیا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کو اللہ کا رسول مان کر اسلام کے ہر حکم کو بغیر عقلی دلیل کے تسلیم کرے۔ لیکن دعوت کے معاملے میں نبی ﷺ کی نبوت کو ثابت کرنا چیلنج بن گیا ہے، اور اس کے لئے بعض کوششوں میں شریعت کے احکامات کو انسانی عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سائنسی تحقیق اور شریعت کی مطابقت
کچھ علماء نے قرآن کے بیان کردہ کائناتی حقائق اور جدید سائنسی تحقیقات کے درمیان مطابقت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اصولی طور پر یہ بات غلط نہیں ہے، کیونکہ قرآن کی بات سچائی پر مبنی ہے۔ تاہم، شریعت کے احکامات کو صرف عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے وقت پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
- اسلامی طریقے پر ذبح کرنے سے گوشت کا صحت مند ہونا: اگر کوئی شخص اسلامی طریقے پر ذبح کرے لیکن اللہ کے نام کے بغیر، تو وہ گوشت حرام کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ سوالات علم طب کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے۔
- وضو کے طبی فوائد: اگر وضو کے طبی فوائد ہیں تو بیت الخلاء جانے سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے؟
عقلی توجیہ کا درست مفہوم
عقلی توجیہات کے مسئلے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے اس کا مطلب غلط سمجھ لیا ہے۔ بعض مسلمانوں نے مغرب کی تنقید کا جواب دینے کے لئے عقلی توجیہات تلاش کیں، جس کی وجہ سے کئی غلطیاں سامنے آئیں۔ عبادات کے فوائد کو صرف طبی دلائل سے سمجھنا اور ان کی سچائی کو فزکس یا بائیولوجی سے ثابت کرنا ایک محدود سوچ کی عکاسی ہے۔
سماجی اور طبعی علوم میں فرق
علم کی دو قسمیں ہیں:
طبعی سائنس (Natural Science)
یہ وہ علم ہے جو تجربات اور مشاہدات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، جیسے فزکس، کیمسٹری، اور بائیولوجی۔
سماجی سائنس (Social Science)
یہ علم انسانی مزاج اور برتاؤ کا مطالعہ کرتا ہے، جس میں تجربات اور قیاس آرائیاں زیادہ ہوتی ہیں، جیسے عمرانیات، نفسیات اور معاشیات۔ سماجی سائنس میں تجربات کے ذریعے دو اور دو چار کے اصول وضع کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس میں محققین کو انسانی فطرت کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
شریعت کے احکامات کی حکمت
اسلام میں شرعی احکامات کے مختلف مقاصد ہیں جنہیں مکمل طور پر سمجھنا انسانی عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد صرف فرد کی اصلاح نہیں بلکہ ایک امت کی تشکیل ہے، جو دنیا کے مختلف علاقوں سے آزاد ہو، مگر اپنے نظریے اور اقدار میں مربوط ہو۔ شریعت کے احکامات اس امت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
شرعی احکامات کی توجیہ کرنے کے لئے امت کی تاریخی تسلسل کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسلام نے ایک عالمی تمدن کی شکل میں خود کو منوایا ہے، جو جغرافیائی حدود سے ماوراء ہے اور ڈیڑھ ہزار سال سے ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔ اس تسلسل کی وجہ سے شریعت کے احکامات کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کو سمجھنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
عملی مثالیں
- وضو: وضو کے طبی فوائد تلاش کرنے کے بجائے اس کی روحانی اور نفسیاتی اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وضو کا عمل صفائی اور پاکیزگی کے تصور کو دل میں پختہ کرتا ہے، جس کا اثر مومن کی روزمرہ زندگی پر نمایاں ہوتا ہے۔
- نماز: پانچ وقت کی نماز مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو منظم کرتی ہے، جس سے ایک دینی ماحول پیدا ہوتا ہے۔
- روزے: رمضان کے روزے ہر سال ایمان کی تجدید کرتے ہیں اور امت میں ایک تازگی لاتے ہیں، جس کی وجہ سے امت اپنی شناخت برقرار رکھتی ہے۔
- حج: حج نے امت مسلمہ کو ایک عالمی مرکز فراہم کیا ہے، جس سے مسلمانوں کی وحدت قائم رہتی ہے۔
نتیجہ
شریعت کے احکامات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا سماجی سائنس کے زمرے میں آتا ہے، اور اس میں ہمیں سہولت یہ ہے کہ اسلامی تمدن کا طویل تجربہ ہمارے پاس موجود ہے۔ شریعت کے احکامات کے اثرات کو سمجھنے کے لئے امت کے تاریخی اور اجتماعی تجربے سے سیکھنا ضروری ہے۔ ہمیں جدید ذہن کو مطمئن کرنے کے لئے عقل کی گہرائیوں تک جانے کی ضرورت ہے، مگر اس کے لئے پہلے ان کے ذہن کو صحیح رخ پر غور و فکر کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔