کرسمس کے دن مبارکباد دینے کا مسئلہ
کرسمس کے موقع پر مبارکباد دینا کیسا ہے؟
کرسمس کے دن عیسائیوں کے ساتھ خوشی منانا یا انہیں مبارکباد دینا حرام ہے۔ ایسا عمل صرف گناہ گار اور سخت دل والے افراد ہی کرتے ہیں۔ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔ اللہ کے دشمنوں کی عیدوں میں شریک ہونا منع اور حرام ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
"وَالَّذِینَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ” (سورۃ الفرقان: ۷۲)
ترجمہ: "اللہ والے گناہ کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتے۔”
علمائے کرام کی آراء
علامہ ادریس ترکمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ کمیِ توفیق اور کمیِ سعادت کی نشانی ہے کہ ایک بدفطرت مسلمان میلاد نامی دن پر اپنے بچوں کو بانس کی چھڑیاں، شمعیں اور پنجرے خرید کر دیتا ہے، اور بدعات میں شامل ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہٹ جاتا ہے اور کفار کی مشابہت اختیار کرتا ہے۔”
(اللمع في الحوادث والبدع: 1/293)
شیخ الاسلام، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
"کفار کی عیدوں میں ان کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اور مسلمانوں کو ان رسومات میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی مسلمان ان عیدوں میں غیرمعمولی دعوت کا انتظام کرے تو اس کی دعوت قبول نہیں کی جائے گی۔ اگر کسی نے ان عیدوں میں تحفہ دیا، تو وہ تحفہ بھی قبول نہیں ہوگا، خاص طور پر اگر وہ کفار کی مشابہت کا عکاس ہو۔ اسی طرح کسی مسلمان کے لیے حرام ہے کہ وہ ایسے کھانے یا لباس وغیرہ بیچے جو کفار کی عید میں مشابہت کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ گناہ میں معاونت ہے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفت أصحاب الجحیم: 2/519، 520)
مزید فرماتے ہیں:
"اس حدیث سے کم از کم یہ ثابت ہوتا ہے کہ کفار کی مشابہت حرام ہے، اگرچہ اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی مشابہت اختیار کرنے والا کفر کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَإِنَّہ، مِنْہُمْ)”
(کفار سے دوستی رکھنے والا انہی کا ساتھی ہے۔)
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفت أصحاب الجحیم: 1/314)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) بیان کرتے ہیں:
"موسم سرما میں کئی لوگ میلاد عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ ان راتوں میں مختلف گناہ کے کام کرتے ہیں، جیسے آگ جلانا، کھانے تیار کرنا اور شمعیں خریدنا۔ میلاد منانا عیسائیوں کی روایت ہے، اس کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں۔ عہدِ سلف میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ یہ عیسائیوں سے لیا گیا ہے اور سردیوں کی مناسبت سے آگ جلانے کا رواج بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔”
(الأمر بالاتباع والنهي عن الابتداع، ص: 145)
نیز فرماتے ہیں:
"یہود، کفار، عجمی اور گمراہ عربوں کی عیدوں میں کسی مسلمان کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
(ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْـأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاءَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ)
(ہم نے آپ کو شریعت سے نوازا ہے، اسی کی پیروی کریں اور بے علم لوگوں کی خواہشات پر نہ چلیں۔ یہ آپ کو اللہ سے نہیں بچا سکتے۔)”
(الأمر بالاتباع والنهي عن الابتداع، ص: 146)
مزید لکھتے ہیں:
"یاد رکھیں کہ سلف صالحین کے زمانے میں کوئی بھی مسلمان ان خرافات میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ حقیقی مومن وہی ہوتا ہے جو سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رحمت سے ان میں شامل کرے۔ وہ بےحد سخی اور کریم ہے۔”
(الأمر بالاتباع والنهي عن الابتداع، ص: 152)
سرزمین عرب کے مشہور عالم، علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ
کرسمس کی مبارکباد دینے کا حکم
علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
➊ کیا کفار کو کرسمس کی مبارکباد دی جا سکتی ہے؟
➋ اگر وہ ہمیں مبارکباد دیں تو کیا ہمیں جواب دینا چاہیے؟
➌ کیا اس مناسبت سے منعقد کی جانے والی محفلوں میں جانا جائز ہے؟
➍ اگر کوئی لاعلمی میں یا مجبوری کے تحت یہ کام کرے تو کیا اس پر گناہ ہوگا؟
➎ کیا ان کی مشابہت اختیار کرنا جائز ہے؟
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا جواب
علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
"کفار کو کرسمس یا ان کی کسی بھی مذہبی عید پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ‘احکام اہل الذمہ’ میں فرمایا ہے:
‘کفار کے مخصوص مذہبی شعار پر انہیں مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے، جیسے انہیں عید یا روزے کے موقع پر "عید مبارک” کہنا۔ اگرچہ ایسا کہنے والا کافر نہ بھی ہو، تب بھی یہ حرام ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو صلیب پر سجدہ کرنے پر مبارکباد دینا۔ بلکہ اللہ کے نزدیک یہ گناہ شراب نوشی، قتل یا زنا پر مبارکباد دینے سے بھی بڑا ہے۔’
(احکام اہل الذمہ: 1/441)
کفار کی مذہبی عید پر مبارکباد دینا کیوں حرام ہے؟
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"کفار کو ان کی مذہبی عیدوں پر مبارکباد دینا اس لیے حرام ہے کہ یہ ان کے باطل عقائد کی تائید اور ان کے ساتھ اتفاق کرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ کوئی مسلمان ان کے عقیدے کو قبول نہ بھی کرے، پھر بھی مبارکباد دینا اس کی بالواسطہ تائید تصور کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کے شعائر سے خوش ہو یا ان کی تائید کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(إِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِيٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَإِنْ تَشْکُرُوا یَرْضَہ، لَکُمْ)
ترجمہ: ‘اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا، لیکن اگر تم شکر کرو گے تو وہ تمہارے لیے پسند کرے گا۔’
اور فرمایا:
(اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا)
ترجمہ: ‘آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔'”
کفار کی دعوت میں شرکت اور تحفے کا لین دین
کفار اپنی عید پر مسلمانوں کو مبارکباد دیں، تو مسلمانوں کو جواب نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ نہ تو مسلمانوں کی عید ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عید ہے۔ یہ عید یا تو ان کی بدعتی ہے یا پھر وہ عید ہے جسے اسلام نے منسوخ کر دیا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
(وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِینَ)
ترجمہ: ‘جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا، اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔’
مسلمانوں کے لیے حرام ہے کہ وہ کفار کی عید پر انہیں دی گئی دعوت قبول کریں۔ یہ انہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے کیونکہ اس سے ان کی بدعت میں شرکت کی صورت بنتی ہے۔
کفار کی مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت
اسی طرح کفار کی مشابہت میں محفل میلاد کا انعقاد، تحائف کا تبادلہ، شیرینی تقسیم کرنا، خاص کھانے تیار کرنا، کاروبار بند کرنا یا دیگر غیرمعمولی سرگرمیاں اختیار کرنا بھی حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ’
ترجمہ: ‘جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ اسی میں سے ہوگا۔’
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ‘اقتضاء الصراط المستقیم’ میں فرماتے ہیں:
"کفار کی کسی بھی عید میں ان کی مشابہت ان کے دلوں میں خوشی پیدا کرتی ہے اور بسا اوقات انہیں موقع پرستی اور کمزور مسلمانوں پر قابو پانے کا موقع ملتا ہے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفت أصحاب الجحیم: 1/546)
غیر ارادی طور پر شرکت کی صورت میں حکم
اگر کوئی مسلمان محض مجبوری، حیا یا دباؤ کی وجہ سے ان کاموں میں شامل ہوتا ہے، تب بھی وہ گناہگار ہوگا۔ اس لیے کہ یہ دین کے ساتھ مداہنت اور کمزور موقف کی نشانی ہے، جس سے کفار کی دلجوئی اور انہیں اپنے باطل دین پر فخر کرنے کا موقع ملتا ہے۔
دعا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام پر ثابت قدم رکھے، انہیں اپنے دین کی سربلندی عطا کرے، اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد فرمائے۔ بلاشبہ وہ قوی اور غالب ہے۔
(فتاویٰ العقیدۃ، ص: 246-248، مجموع فتاویٰ و رسائل العثیمین: 3/44-46)