سوال:
کیا حیض کے دوران عورت قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے؟
الجواب:
اس مسئلے پر اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
➊ جمہور فقہاء کا مؤقف:
زیادہ تر فقہاء کے نزدیک حیض کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا منع ہے۔ ان کے مطابق عورت حیض کی حالت میں تلاوت نہیں کر سکتی، البتہ ذکر و اذکار اور دعائیں، جن میں تلاوت کا ارادہ نہ ہو، جیسے "بسم اللہ الرحمن الرحیم”، "انا للہ و انا الیہ راجعون”، اور "ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة و قنا عذاب النار” وغیرہ، کی اجازت ہے۔ قرآن مجید میں موجود دیگر دعائیں عمومی ذکر میں شمار ہوتی ہیں۔
ممانعت کے دلائل:
فقہاء نے قرآن کی تلاوت کے منع ہونے کے کئی دلائل دیے ہیں:
◄ حدیث علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور انہیں صرف جنابت کے وقت قرآن پڑھنے سے رکا جاتا تھا:
"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم القرآن وكان لا يحجزه عن القرآن إلا الجنابة”
(سنن ابو داود، سنن ترمذی حدیث نمبر 146، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ)
امام ترمذی نے اسے "حسن صحیح” قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر کے مطابق یہ حدیث حسن کے درجے میں ہے اور حجت ہے۔
◄ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئاً من القرآن”
(سنن ترمذی حدیث نمبر 131، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 595، سنن دارقطنی، سنن بیہقی)
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اسماعیل بن عیاش کا حجاز کے راویوں سے روایت کرنا کمزور سمجھا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو متفقہ طور پر ضعیف قرار دیا ہے۔
➋ جواز کے قائلین کا مؤقف:
بعض اہل علم کے نزدیک حیض کی حالت میں عورت کے لیے قرآن کی تلاوت جائز ہے۔ امام مالک کا یہی مسلک ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام شوکانی نے راجح قرار دیا ہے۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
◄ اصل جواز: اصولی طور پر یہ جائز ہے جب تک کہ کوئی واضح دلیل نہ مل جائے جو اس عمل کو منع کرتی ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
"ليس في منع الحائض من القراءة نصوص صريحة صحيحة”
ان کے بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی عورتوں کو حیض آتا تھا، مگر آپ نے انہیں قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا، جیسا کہ ذکر و اذکار اور دعا سے نہیں روکا۔
◄ تلاوت کا اجر و ثواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تلاوت کا حکم دیا ہے اور تلاوت کرنے والوں کی تعریف کی ہے، جس کے لیے عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے۔ تلاوت سے روکنے کی کوئی معتبر دلیل نہیں ملتی۔
◄ حائضہ کا جنبی پر قیاس: حائضہ کو جنبی پر قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ جنبی شخص غسل کے ذریعے مانع کو دور کر سکتا ہے جبکہ حائضہ عورت ایسا نہیں کر سکتی۔ اسی طرح، حائضہ کی حالت جنبی کی نسبت زیادہ طویل ہوتی ہے۔
◄ تلاوت سے محرومی: حائضہ عورت کو تلاوت سے منع کرنے سے اسے اجر و ثواب سے محروم کیا جاتا ہے اور اسے قرآن بھول جانے کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب اسے تعلیم میں قرآن پڑھنے کی ضرورت ہو۔
احتیاطی تدبیر:
اگرچہ جواز کے قائلین کے دلائل مضبوط ہیں، تاہم اگر کوئی عورت احتیاط کے طور پر صرف اس وقت قرآن کی تلاوت کرے جب بھول جانے کا اندیشہ ہو، تو یہ ایک محتاط عمل ہوگا۔
دیکھ کر قرآن کی تلاوت کا حکم:
یہ وضاحت ضروری ہے کہ اوپر کی باتیں زبانی تلاوت سے متعلق ہیں۔ دیکھ کر قرآن پڑھنے کا حکم ذرا مختلف ہے:
قرآن کو چھونے کا حکم:
◄ قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"لا يمسه إلا المطهرون” (سورة الواقعة)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط، جو آپ نے عمرو بن حزم کے ذریعے یمن بھیجا، اس میں بھی یہ ذکر ہے:
"ألا يمس القرآن إلا طاهر”
(موطا امام مالک، سنن نسائی، ابن حبان، سنن بیہقی)
حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو شہرت کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ثابت ہے۔
قرآن کو بغیر ہاتھ لگائے پڑھنے کا طریقہ:
◄ اگر حائضہ عورت قرآن دیکھ کر پڑھنا چاہے تو وہ اسے کسی رکاوٹ والی چیز کے ساتھ پکڑ سکتی ہے، مثلاً دستانے یا پاک صاف کپڑے کے ذریعے، یا لکڑی یا قلم وغیرہ کے ساتھ صفحات پلٹ سکتی ہے۔ قرآن کی جلد کو چھونا بھی اسی حکم میں آتا ہے۔
یہ تمام باتیں مختلف فقہی آراء اور دلائل کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں، اور یہ علماء کی تشریحات پر منحصر ہے کہ کس دلیل کو ترجیح دی جائے۔