عرب کی تقدیر بدلنے والے انقلابی لمحات کی داستان
تحریر: حامد کمال الدین

اگر کوئی چند سال پہلے کی عربوں کی زندگی سے واقف ہو تو کیا وہ یقین کر سکتا ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ، جو قبیلہ بنی مخزوم کے سردار تھے اور عکاظ کے میلوں میں چمپئن سمجھے جاتے تھے، آج ایک ایسے حبشی غلام، بلالؓ کو عزت دیتے ہوئے کہتے ہیں:

هٰذَا سَيِّدُنَا أَعْتَقَهُ سَيِّدُنَا أَبُو بَكْرٍ!

”یہ ہمارے آقا ہیں، انہیں ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!“

یہ منظر کتنا حیرت انگیز ہے! ایک ایسا ریگستان، جس کے بیچوں بیچ ایک معطر پھول کھل اٹھا ہے! یہ کس ہستی کا فیض ہے جس کی وجہ سے یہ بنجر زمین اتنی زرخیز ہو گئی؟

عربوں کے رسوم و رواج میں تبدیلی

وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی ظالمانہ رسم کو عرب سے ختم کیا؟

صرف دو آیات نے عرب کی تاریخ کو بدل دیا! یہ آیات سن کر عربوں کی ہچکیاں بندھ جایا کرتی تھیں اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کے ضمیر پر بوجھ بن جاتی تھیں:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ
(التکویر: 9-8)

”اور جس دن زندہ دفن کی جانے والی معصوم جان سے پوچھا جائے گا، بھلا کس جرم میں وہ مار دی گئی تھی؟“

عورتوں کو حقوق دینا

ایک وقت تھا جب عورتوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا اور وہ خود بھی جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھیں، لیکن کس نے انہیں جائیداد میں حق دار بنا دیا؟

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
(النساء: 7)

”مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ گئے، اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس میں جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ گئے، چاہے وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ مقرر ہے۔“

پہلے عورتیں خود جائیداد کا حصہ سمجھی جاتی تھیں، اور اب وہ جائیداد میں حصہ دار بن چکی ہیں کیونکہ اس قوم میں ایک نبی مبعوث ہو چکا ہے!

جاہلانہ رسموں کا خاتمہ

عربوں کی جاہلانہ رسموں کا ذکر کرتے ہوئے، جیسے کہ بیٹے صرف اپنی ماں کو چھوڑتے تھے اور اپنے باپ کی بیواؤں کو فوراً اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن یہ نبیﷺ صرف اللہ کے حق کے لیے غصہ ہوتے تھے۔ اور پھر اللہ کا قانون آیا:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلاً
(النور:22)

”اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ کا نکاح رہا، سوائے وہی جو بس پہلے ہو چکا، یہ بے حیائی ہے اور بہت برا طریقہ ہے۔“

نئے معاشرتی اصول

عرب کا وہ ماحول یاد کریں جہاں چند پیسوں کے لیے خون بہایا جاتا تھا، راستے میں لُوٹ مار کی جاتی تھی اور دوسروں کی حرمت کا کوئی خیال نہ تھا۔

لیکن پھر سورۂ نور کی آیت نے معاشرتی اقدار کو کیسے بدل دیا: ”اندھے پر کچھ حرج نہیں، لنگڑے پر کچھ حرج نہیں، بیمار پر کچھ حرج نہیں، تمہارے اپنے اوپر کچھ حرج نہیں، کہ کھا لیا کرو تم اپنے گھر سے، یا اپنے باپ کے گھر سے، یا اپنی ماں کے گھر سے، یا اپنے بھائی کے گھر سے، یا اپنی بہن کے گھر سے، یا اپنے چچا کے گھر سے، یا اپنی پھوپھی کے گھر سے، یا اپنے ماموں کے گھر سے، یا اپنی خالہ کے گھر سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں، یا اپنے دوست کے گھر سے۔۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ کھا لیا کرو تم سب مل کر یا الگ الگ۔۔۔۔“
(النور: 61)

ایمان کی تربیت اور امانت داری

نبیﷺ کے معاشرے میں ہر فرد کی خدا خوفی اور امانت داری کا معیار دیکھیں۔ لوگوں کو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر سے کھانے کے معاملے میں شرعی اجازت کی تاکید کی جاتی ہے۔ یہ حکم ان کی آپس کی بے تکلفی کو بھی مضبوط کرتا ہے، جو ان میں ایک خاص بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔

عرب کا نیا چہرہ

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
(الجمعۃ:2)

”وہی تو ہے جس نے امیوں میں ایک رسول کھڑا کیا، خود انہی میں سے، جو انہیں اللہ کی آیتیں سناتا ہے، اور ان کو پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقیناً وہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔“

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا اثر

عرب کے ادیب احمد حسن الزیات لکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے دنیا میں ‘آزادی’ کا تصور دفن ہو چکا تھا، لیکن آپ نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔

انہوں نے عقل و شعور کو دوبارہ بیدار کیا اور لوگوں کو نیکی، فضیلت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ اسی تعلیم کے تحت مختلف رنگ و نسل کے لوگ نیکی اور تقوی کے مقصد کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے۔

نبیﷺ کی سیرت کی بے مثال مثالیں

نبیﷺ کی سیرت میں دیانت و خدا خوفی کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ حدیبیہ کے بعد جب فتوحات کا دور شروع ہوا، آپ کی حکمت عملی اور خدا پرستی سب کے سامنے عیاں ہو گئیں۔

جب حضرت ابراہیمؓ کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا، تو نبیﷺ نے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے فرمایا:
”یہ سورج اور یہ چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ یہ نہ کسی کی موت کے سبب گرہن زدہ ہوتے ہیں، نہ کسی کی پیدائش کے باعث۔ پس جب تم ایسا دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔“
(البخاری عن عبداللہ بن عباس 3692)

یہ تمام تبدیلیاں اور اصول بتاتے ہیں کہ نبیﷺ کی تعلیمات اور خدا پرستی نے کس طرح ایک پورے معاشرے کو بدل کر رکھ دیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے