عیسائی مشنریوں کے حملے اکثر دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں ہوتے ہیں، جہاں یہ لوگ ’روٹی‘ اور مغربی ممالک کے ’ویزوں‘ کا لالچ دے کر لوگوں کا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی بائبل بردار این جی اوز ’انسانی ہمدردی‘ کے نام پر وہاں کے لوگوں کو کھانا اور دوائیاں فراہم کرتی ہیں، لیکن پس پردہ ان کا مقصد ان چیزوں کے بدلے لوگوں کا ایمان خریدنا ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تمام کوششیں کرنے کے باوجود، یہ لوگ ہمارے معاشرے کے کس طبقے کے لوگوں کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ وہ لوگ بھی کن شدید مجبوریوں اور لاچاریوں کے شکار ہوتے ہیں کہ وہ مشنریوں کے قابو میں آجاتے ہیں۔ کیا یہ مشنری کسی معروف اسلامی شخصیت کا نام لے سکتے ہیں جس نے کسی گہری تحقیق، آمنے سامنے کے مناظرے، یا دلیل کی بنیاد پر عیسائیت قبول کی ہو؟ یا کوئی ایسی شخصیت جسے اسلام میں کوئی خرابی نظر آئی ہو اور پھر اس خرابی کو کلیسا نے دور کردیا ہو؟
کیا ان مشنری اداروں کے پاس ایسی تعلیم یافتہ اور باشعور شخصیات کی کوئی فہرست موجود ہے جنہوں نے ’حق‘ کی تلاش میں عیسائیت کو اسلام کے مقابلے میں منتخب کیا ہو؟
اس کے برعکس، ہم مغرب کے ان پڑھے لکھے افراد کی فہرست فراہم کرسکتے ہیں جتنی طویل وہ چاہیں، جنہوں نے حق کی تلاش میں اسلام قبول کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اسلام میں داخلہ نہ تو بھوک کی وجہ سے تھا، نہ بیماری کی وجہ سے، نہ مالی تنگی کی وجہ سے، اور نہ ہی کسی سفارت خانے سے ویزہ حاصل کرنے کی غرض سے۔ ان میں سے کوئی بھی اسلام کی طرف کسی مادی یا دنیوی فائدے کے لئے نہیں آیا۔
یہ نو مسلم دانشور مسلسل کتابیں لکھ رہے ہیں کہ انہیں ہدایت کیسے نصیب ہوئی۔ وہ نئے مراکز قائم کر رہے ہیں، ذرائع ابلاغ پر آ رہے ہیں، اور اپنے معاشروں میں اسلام کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد آج اسلامی دنیا کے نوجوانوں کے لئے قابل تقلید ہیں۔ کیا عیسائی مشنری، جن کے پاس اربوں کھربوں کے بجٹ ہیں، ایسے مسلم دانشوروں کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں جو عیسائیت قبول کر چکے ہوں؟ ذیل میں کچھ رپورٹس ملاحظہ کریں:
اسلام کی اس فتح کی اصل قوت کو دیکھ کر بھی بعض افراد یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ ’اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے‘۔ حالانکہ، آج مسلمانوں کی حالت زار کے باوجود، اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ بھی مغربی ممالک میں!
اب یہ بتائیں کہ آج اسلام کے پاس کون سی تلوار ہے جس کے زور پر یہ پھیل رہا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آنکھیں دیکھتی ہیں، لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں!