درود و اہل بیت: قرآن و سنت کی روشنی میں
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات پر درود بھیجنا جائز ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ اس حوالے سے قرآنِ کریم اور مفسرین کی تفاسیر درج ذیل ہیں:

✿ قرآنِ کریم کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا}
(الاحزاب : 33)
"اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہ کو دُور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے۔”

تفسیر میں صحابہ کرام کا بیان:

اس آیت کی تشریح میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"نَزَلَتْ فِي نِسَائِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً۔”
(تفسیر ابن کثیر: 410/6، بتحقیق سلامۃ، وسندہٗ حسنٌ)
یعنی یہ آیت خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد عکرمہ رحمہ اللہ کا بیان ہے:
"مَنْ شَائَ بَاہَلْتُہٗ أَنَّہَا نَزَلَتْ فِي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔”
(تفسیر ابن کثیر: 411/6، بتحقیق سلامۃ، وسندہٗ حسنٌ)
یعنی جو مباہلہ کرنا چاہے، میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی۔

اہل سنت کے مفسرین کا بیان:

مشہور مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَہٰذَا نَصٌّ فِي دُخُولِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي أَہْلِ الْبَیْتِ ہَاہُنَا؛ لِأَنَّہُنَّ سَبَبُ نُزُولِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ۔”
(تفسیر ابن کثیر: 410/6، بتحقیق سلامۃ)
یعنی یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے اہل بیت میں شامل ہونے پر واضح دلیل ہے کیونکہ ازواجِ مطہرات ہی اس آیت کے نزول کا سبب ہیں۔

مزید ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
"فَإِنْ کَانَ الْمُرَادُ أَنَّہُنَّ کُنَّ سَبَبَ النُّزُولِ دُونَ غَیْرِہِنَّ فَصَحِیحٌ، وَإِنْ أُرِیدَ أَنَّہُنَّ الْمُرَادُ فَقَطْ دُونَ غَیْرِہِنَّ، فَفِي ہٰذَا نَظَرٌ؛ فَإِنَّہٗ قَدْ وَرَدَتْ أَحَادِیثُ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ أَعَمُّ مِنْ ذٰلِکَ۔”
(تفسیر ابن کثیر: 411/6، بتحقیق سلامۃ)
یعنی اگر یہ مراد ہو کہ صرف ازواجِ مطہرات ہی اس آیت کے نزول کا سبب ہیں، تو یہ بات درست ہے، لیکن اگر مراد یہ ہو کہ اہل بیت کے مفہوم میں صرف ازواجِ مطہرات ہی شامل ہیں تو یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ دیگر احادیث میں اہل بیت کا مفہوم وسیع بیان ہوا ہے۔

اہل بیت کا وسیع مفہوم:

اگرچہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کی وضاحت کرتی ہے، مگر صحیح احادیث کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔ اگر بیویاں اہل بیت ہیں، تو رشتہ دار تو اور بھی زیادہ اس میں شامل ہیں۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ثُمَّ الَّذِي لَا یَشُکُّ فِیہِ مَنْ تَدَبَّر الْقُرْآنَ أَنَّ نِسَائَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَاخِلَاتٌ فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا}، فَإِنَّ سِیَاقَ الْکَلَامِ مَعَہُنَّ۔”
(تفسیر ابن کثیر: 415/6، 416، بتحقیق سلامۃ)
یعنی جو شخص قرآن پر غور و فکر کرتا ہے، وہ اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا حصہ ہیں، کیونکہ یہ خطاب خاص ان کے بارے میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"{وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِي بُیُوتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ}”
یعنی اے نبی کی ازواج! تمہارے گھروں میں جو کتاب و سنت کی تعلیمات نازل ہوتی ہیں، انہیں یاد کرو اور ان پر عمل کرو۔ امام قتادہ رحمہ اللہ سمیت دیگر اہل علم نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو جو خصوصیت حاصل ہے، اس کا ذکر کریں کیونکہ وحی صرف انہی کے گھروں میں نازل ہوتی تھی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت:

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس نعمت میں خاص مقام حاصل ہے۔ وہ سب سے زیادہ اس رحمت سے فیض یاب ہونے والی تھیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف انہی کے بستر پر وحی نازل ہوئی تھی۔ بعض اہل علم نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کنواری شادی کی اور ان کے سوا کسی مرد نے ان کے بستر پر خلوت نہیں کی۔ اس وجہ سے ان کا اس خاص فضیلت میں منفرد ہونا زیادہ مناسب تھا۔

اہل بیت کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار:

ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں سے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار اس نام کے زیادہ حق دار ہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ "اہل بیت میں سب سے زیادہ حق دار میرے گھر والے ہیں”۔ یہ معاملہ اسی طرح ہے جیسے صحیح مسلم کی روایت میں مذکور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی مسجد کون سی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے مراد میری مسجد ہے۔ حالانکہ آیت مسجد قباء کے بارے میں نازل ہوئی تھی، لیکن مسجد نبوی تقویٰ پر پہلے دن سے قائم ہونے کی وجہ سے اس نام کی زیادہ حق دار قرار پائی۔

(تفسیر ابن کثیر: 415/6، 416، بتحقیق سلامۃ)
اہل بیت کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے، اگرچہ قرآن میں ازواجِ مطہرات کو اہل بیت کہا گیا، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی آپ کے اہل بیت ہونے کی بنا پر اس میں شامل ہیں۔

✿ احادیث کی روشنی میں

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت والے واقعہ:
اس واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، مَنْ یَعْذِرُنِي مِنْ رَّجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي أَذَاہُ فِي أَہْلِ بَیْتِي، فَوَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَہْلِي إِلَّا خَیْرًا”
’’اے مسلمانوں کی جماعت! کون اس شخص سے میرا بدلہ لے گا جس کی طرف سے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچی ہے؟ اللہ کی قسم! میں اپنے گھروالوں کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔‘‘
(صحیح البخاری: 4850، صحیح مسلم: 2770)

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سوال:
حصین بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:
"وَمَنْ أَہْلُ بَیْتِہٖ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَاؤُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ؟”
’’اے زید! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں شامل نہیں؟‘‘
اس پر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
"نِسَاؤُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ”
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم: 2408)

سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان:
سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو:
"فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عَلِيٍّ وَّفَاطِمَۃَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ، فَقَالَ: ’اللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِي‘، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا أَنَا مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ؟ قَالَ: ’إِنَّکِ أَہْلِي خَیْرٌ، وَہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِي، اللّٰہُمَّ أَہْلِي أَحَقُّ‘”
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔ سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں؟ آپ نے فرمایا: آپ میرے گھر والی ہیں اور بھلائی والی ہیں، جبکہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ اے اللہ! میرے گھر والے (اہل بیت ہونے کے) زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 416/2، وسندہٗ حسنٌ)

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دیا ہے، جبکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘ کہا ہے۔

ایک اور روایت میں سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ بھی ہیں:
"قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَلَسْتُ مِنْ أَہْلِکَ؟ قَالَ: ’بَلٰی، فَادْخُلِي فِي الْکِسَائِ‘، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ فِي الْکِسَائِ بَعْدَ مَا قَضٰی دُعَائَہٗ لِابْنِ عَمِّہٖ عَلِيٍّ وَّابْنَیْہِ وَابْنَتِہٖ فَاطِمَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ”
’’میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے اہل سے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، آپ بھی چادر میں داخل ہو جائیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، حسن و حسین، اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کے لیے دعا کی، تو میں بھی چادر میں داخل ہو گئی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 298/6، وسندہٗ حسنٌ)

اہل بیت کی دو اقسام:

ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت دو طرح کے ہیں:

  • بزبانِ قرآن: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں۔
  • بزبانِ نبوت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار بھی اہل بیت کا حصہ ہیں۔

ازواجِ مطہرات پر درود:

جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں، تو ان پر بھی درود بھیجنا جائز ہے، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے: "سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"إِنَّہُمْ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ کَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْکَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’قُولُوا: اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ”
’’صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہو: اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر رحمت نازل کر، جیسے تُو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمت نازل کی۔ نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر برکت نازل کر، جیسے تُو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل کی، بے شک تو قابلِ تعریف اور بزرگ ہے۔‘‘
(الموطّأ للإمام مالک: 165/1؛ صحیح البخاری: 3369؛ صحیح مسلم: 407)

درود کے اختصار کی ممانعت:

درود شریف کے مختصر طریقے، جیسے "ص”، "صلعم” وغیرہ کا استعمال درست نہیں ہے۔ اس معاملے میں مختلف علماء کے اقوال درج ذیل ہیں:

حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۸۳۱-۹۰۲ھ):
"اے لکھنے والے! درود کو مختصر رموز میں لکھنے سے پرہیز کرو، جیسے صرف دو یا تین حروف پر اکتفا کر لینا، کیونکہ اس سے درود ناقص ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا ہے۔”
(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث: 71/3، 72)

علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری رحمہ اللہ (م: ۹۲۶ھ):
"تمام انبیائے کرام اور فرشتوں پر بول کر اور لکھ کر درود و سلام بھیجنا مسنون ہے۔”
(فتح الباقي بشرح ألفیۃ العراقي: 44/2)

علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (۹۰۹-۹۷۴ھ):
"اللہ کے رسول کے نام کے بعد درود لکھنا چاہیے، جیسے خلف و سلف کرتے آئے ہیں۔ لیکن "صلعم” جیسی مختصر شکلیں استعمال کرنا، یہ محروم لوگوں کا طریقہ ہے۔”
(الفتاوی الحدیثیّۃ: 164/1)

علامہ طیبی رحمہ اللہ:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔ جو آپ کی تعظیم کرے گا، اللہ اسے دنیا و آخرت میں بلند مقام عطا فرمائے گا۔ اور جو تعظیم میں کوتاہی کرے گا، اللہ اسے ذلیل کرے گا۔”
(شرح المشکات: 131/2)

جناب مفتی محمد شفیع دیوبندی:
"درود شریف کے اختصار میں "صلعم” لکھنا ناجائز اور خلافِ ادب ہے۔ حضرت اشرف علی تھانوی نے بھی اس پر تنقید کی ہے۔”
(مجالس حکیم الامت، ص: 241)

علامہ انور شاہ کاشمیری:
"صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ "صلعم” لکھنا ناپسندیدہ ہے۔”
(العرف الشذی: 110/1)

جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی:
"درود و سلام پورا لکھنا چاہیے، "صلعم” یا دیگر اختصار پر اکتفا نہ کریں۔”
(تبلیغی نصاب، ص: 769)

محمد امجد علی بریلوی:
"درود شریف کے بدلے "صلعم”، "عم”، وغیرہ لکھنا ناجائز اور سخت حرام ہے۔”
(بہارِ شریعت، حصہ سوم، ص: 87)

خلاصہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات پر درود بھیجنا قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت ہے، کیونکہ وہ بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ قرآنِ کریم کی آیت
{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا}
کے تحت، مفسرین اور صحابہ کرام نے یہ واضح کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اہل بیت کا حصہ ہیں۔ اسی طرح احادیث میں بھی اس کی تصدیق ملتی ہے کہ ازواجِ مطہرات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار اہل بیت میں شامل ہیں۔ اس بنا پر، درود میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو بھی شامل کرنا درست ہے۔

مزید برآں، درود شریف کو مکمل اور تفصیل کے ساتھ پڑھنا اور لکھنا سنت کے مطابق ہے، اور مختصر رموز کا استعمال (جیسے "ص”، "صلعم” وغیرہ) قابلِ مذمت قرار دیا گیا ہے۔ مفسرین، محدثین، اور جید علمائے کرام کی آراء میں یہ بات مشترک ہے کہ درود کو مکمل اور صحیح طریقے سے پڑھنے اور لکھنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو بیان کیا جائے۔ اس کے برعکس، اختصار کرنے کو بدعت اور خلافِ ادب قرار دیا گیا ہے۔

لہذا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت، جن میں آپ کی ازواجِ مطہرات اور قریبی رشتہ دار شامل ہیں، پر مکمل درود و سلام بھیجنا ایک شرعی عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم کا تقاضا کرتا ہے۔ اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے اور یہ عمل بندے کے ایمان اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی محبت کا مظہر ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے