سوال
کیا اذان کے دوران "اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ” سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانے کا عمل شرعی طور پر جائز ہے؟ اور کیا اس فعل کے بارے میں کوئی حدیث یا فقہی حکم موجود ہے؟ بعض لوگ اس عمل سے آنکھوں کی روشنی تیز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسے فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں؟
جواب
اذان کے وقت "اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ” سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانے کا عمل بدعت ہے اور اس کی کوئی بنیاد صحیح احادیث یا معتبر فقہی کتابوں میں نہیں ملتی۔ اس فعل کے متعلق جو احادیث نقل کی جاتی ہیں، وہ موضوع اور بے اصل ہیں۔
علامہ جلال الدین سیوطی تیسیر المقال میں فرماتے ہیں:
"الاحادیث التی رویت فی تقبیل الانامل و جعلھا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المؤذن فی کلمة الشہادة کلہا موضوعات”
(ترجمہ: وہ تمام احادیث جو اذان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگلیاں چوم کر آنکھوں پر رکھنے کے بارے میں آئی ہیں، وہ سب موضوع ہیں۔)
اس کے علاوہ، علامہ شوکانی، ملا علی قاری، اور دیگر محدثین نے بھی اس فعل کو غیر ثابت اور موضوع قرار دیا ہے۔ فقہاء ائمہ اربعہ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی یہ عمل ثابت نہیں ہے، حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتوے میں فرماتے ہیں کہ:
"جو شخص اس فعل کو سنت جان کر کرتا ہے، وہ بدعتی ہے اور یہ عمل بدعت ہے۔”
لہٰذا، اس عمل کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے، اور جو لوگ اس عمل کو آنکھوں کی روشنی کے لیے مفید سمجھتے ہیں، ان کے دعوے کا بھی کوئی ثبوت معتبر کتب احادیث یا فقہ میں موجود نہیں ہے۔
مسنون طریقہ
◄ اذان کے وقت سننے والے کو مؤذن کے الفاظ دہرانا چاہیے، یعنی "اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ” سن کر وہی الفاظ دہرانے چاہئیں، نہ کہ انگوٹھے چومنے یا آنکھوں پر لگانے کا عمل کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف اور بدعت ہے۔
◄ اذان کے بعد درود شریف پڑھنا اور دعا کرنا مستحب ہے، جیسے کہ اللھم رب ھذہ الدعوة التامة۔
خلاصہ
◄ انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانے کا عمل بدعت ہے، اس کی کوئی بنیاد صحیح احادیث یا فقہی کتابوں میں نہیں ہے، اور اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
حوالہ: (مولانا عبید اللہ رحمانی، المحدث دہلی، جلد نمبر ۱، شمارہ نمبر ۳)
(مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، فتویٰ تقبیل العینین)