مذہب اور سائنس کی متوازی ضرورت
انسانی زندگی دو بنیادی پہلوؤں پر مشتمل ہے: مادی اور روحانی۔ جہاں مادی پہلو انسان کو جسمانی ضروریات اور ترقی کی طرف لے جاتا ہے، وہیں روحانی پہلو اسے تسکین قلب کی تلاش میں مذہب کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ جتنی زیادہ مادی ترقی ہوتی ہے، روحانی تشنگی اتنی ہی بڑھتی ہے، اور یہی روحانی پیاس مذہب کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
سائنس کی حدود اور مذہب کی ضرورت
سائنس ایک فکر کا طریقہ ہے جو مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے۔ دور جدید میں سائنس نے دنیا کو مادی اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا، لیکن اس کے ابتدائی دور میں سائنس اور مذہب کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوگیا تھا، خاص طور پر مغرب میں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوا کہ سائنس کا اپنا ایک دائرہ ہے اور مذہب کا اپنا۔ سائنس مذہب کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتی، البتہ مذہب کا سائنس پر اثر تعمیری ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے۔
سائنس اور مذہب کے اختلاف کا تاریخی پس منظر
سائنس اور مذہب کے درمیان ٹکراؤ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا پیدا کردہ ہے۔ اس دور میں سائنسی دریافتوں نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ اب مذہب کی ضرورت نہیں رہی، اور خدا کو ماننا غیر ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کے قوانین قدرتی ہیں اور سائنس ان کا تجزیہ کر سکتی ہے۔ دوسری جانب، کلیسا (چرچ) نے بعض فلسفیانہ نظریات کو مذہب کا حصہ بنا دیا، جو بعد میں سائنسی دریافتوں کے سامنے ٹوٹ گئے، اور یوں سائنس اور مذہب کے درمیان ایک کشمکش شروع ہوگئی۔
سائنس اور مذہب میں موجودہ مفاہمت
آج یہ واضح ہو چکا ہے کہ سائنس اور مذہب دو الگ میدان ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتے۔ سائنس کائنات کے فطری اصولوں کو بیان کرتی ہے، لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکتی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ مذہب ان بنیادی سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ لہذا، سائنسی دریافتوں کے باوجود مذہب کی ضرورت موجود ہے، اور یہ ضرورت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب انسان اپنی زندگی میں روحانی خلا محسوس کرتا ہے۔
مذہب اور سائنس کے درمیان متوازن راستہ
سائنس کو مذہب کے ساتھ مفاہمت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اخلاقی اور روحانی میدان میں بھی رہنمائی حاصل کر سکے۔ یہ مفاہمت انسانیت کو ان مسائل سے بچا سکتی ہے جنہیں سائنس نے خود پیدا کیا ہے، جیسے ایٹمی ہتھیار اور ماحولیاتی آلودگی۔
اسلام اور سائنس: کوئی تضاد نہیں
اسلام سائنس اور تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دونوں کو متضاد نہیں سمجھتا۔ البتہ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسان غور و فکر کے ذریعے خدا تک پہنچے اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ یہی انسان کی اصل ترقی ہے۔
نتیجہ
سائنس اور مذہب کے مابین حقیقی تضاد موجود نہیں ہے۔ دونوں اپنے اپنے میدان میں انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔