صحابہ کرام کے اختلافات پر اہل سنت کا موقف
تعارف
صحابہ کرام کے باہمی اختلافات، جھگڑوں اور جنگوں کے بارے میں اہل سنت، خصوصاً اہل حدیث کا وہی موقف ہے جو ابتدائی مسلمان علما اور سلف صالحین کا تھا۔ ان کا متفقہ عقیدہ تھا کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے اور ان کے لیے دعا کی جائے۔
علماء کا اجماعی موقف
◄ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ (1115-1206ھ) فرماتے ہیں:
"اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات پر خاموشی اختیار کی جائے گی اور ان کے بارے میں صرف اچھی باتیں کی جائیں گی۔ لہٰذا، جو شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی پر تنقید کرتا ہے، وہ اجماعِ اہل سنت کی مخالفت کرتا ہے۔” (مختصر سیرۃ الرسول، ص 317)
◄ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) نے بھی فرمایا:
"اہل سنت کے نزدیک یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکھا جائے، کیونکہ صحابہ کرام کے فضائل ثابت ہیں اور ان سے محبت واجب ہے۔ صحابہ کرام کے اختلافات کے بارے میں غور و فکر کرنے سے اکثر لوگوں کے دلوں میں بغض و عداوت پیدا ہو جاتی ہے، جو گناہ کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے خاموشی اختیار کرنا ہی سلف صالحین کا طریقہ تھا۔” (منہاج السنۃ النبویۃ، 1/448)
قرآن اور حدیث کے دلائل
صحابہ کرام کے اجتہادی اختلافات کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھے بلکہ اجتہادی تھے۔ قرآن کریم نے صحابہ کرام کی غیر اجتہادی غلطیوں کو بھی معاف فرمایا، جیسے غزوۂ احد کے موقع پر فرمایا:
"یقیناً اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔” (آل عمران 3:155)
◄ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میرے صحابہ کو برا نہ کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، تو بھی وہ میرے صحابہ کے ایک مُد (تقریباً دو سے اڑھائی پاؤ) یا اس کے نصف کے برابر نہیں ہو سکتا۔” (صحیح مسلم: 2540)
اجماع امت
◄ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ مشاجراتِ صحابہ میں خاموشی اختیار کی جائے۔ مختلف ائمہ اہل سنت جیسے امام ابو زرعہ، امام ابو حاتم، اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے بھی یہی عقیدہ بیان کیا ہے۔
◄ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب تم دیکھو کہ کوئی شخص صحابہ کرام میں سے کسی کی برائی کرتا ہے، تو سمجھ لو کہ وہ شخص اہل بدعت میں سے ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے بارے میں کسی کو برا کہنے کی اجازت نہیں ہے۔” (کتاب السنہ، ص 162)
◄ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب تم دیکھو کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کو برا کہتا ہے، تو سمجھ لو کہ وہ شخص اسلام کا دشمن ہے۔” (کتاب السنہ، ص 63)
خلاصہ
صحابہ کرام کے باہمی اختلافات میں زبان بند رکھنا اور ان کے حق میں دعا کرنا سلف صالحین کا اجماعی عقیدہ ہے۔ جو شخص صحابہ کرام کی تنقیص کرتا ہے، وہ بدعت اور گمراہی میں مبتلا ہے۔ اہل سنت کا اس بات پر ہمیشہ اجماع رہا ہے کہ صحابہ کرام کے بارے میں صرف اچھی باتیں کہی جائیں اور ان کے لیے دعا کی جائے۔