ابدال سے متعلق روایات کی حقیقت اور محدثین کی رائے
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

اسلامی تاریخ میں ابدال سے متعلق مختلف روایات

اسلامی تاریخ میں "ابدال” کے متعلق مختلف روایات بیان کی گئی ہیں، لیکن مستند علماء اور محدثین کی تحقیق کے مطابق، ان روایات کی اکثر اسناد ضعیف، منقطع یا موضوع ہیں۔ یہاں ہم مشہور محدثین کے اقوال اور ان روایات پر تبصروں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا مؤقف

حافظ ابن الجوزی (508-597ھ) اپنی کتاب الموضوعات میں فرماتے ہیں کہ ابدال کے بارے میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے:
"ان احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں۔”
(الموضوعات، ج 3، ص 152)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف

شیخ الاسلام ابن تیمیہ (611-728ھ) بھی ابدال کے بارے میں بیان کردہ روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں:
"اس بارے میں ایک ضعیف حدیث مروی ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے۔”
(مجموع الفتاوی، ج 4، ص 394)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا مؤقف

حافظ ابن القیم (691-751ھ) نے ابدال، اقطاب، اغواث، اور دیگر ایسی اصطلاحات سے منسوب تمام روایات کو من گھڑت قرار دیا:
"ابدال، اقطاب اور دیگر کے متعلق احادیث سب کی سب من گھڑت ہیں۔”
(المنار المنیف، ص 136)

ابدال کے بارے میں مشہور روایات کا جائزہ

حدیث نمبر 1: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت

اس روایت میں بیان کیا گیا کہ امت میں پانچ سو خیار اور چالیس ابدال ہمیشہ رہیں گے۔ تاہم، حافظ ابن الجوزی اس روایت کو من گھڑت قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔
"یہ روایت باطل ہے کیونکہ اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔”
(الموضوعات، ج 3، ص 151)

حدیث نمبر 2: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت میں امت کے تیس ابدال کا ذکر ہے، لیکن امام احمد بن حنبل نے اس روایت کو منکر قرار دیا:
"یہ روایت منکر ہے۔”
(مسند الامام احمد، ج 5، ص 322)

حدیث نمبر 3: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت میں ابدال کے شام میں موجود ہونے کا ذکر ہے۔ لیکن حافظ ابن عساکر اس کو منقطع قرار دیتے ہیں، کیونکہ شریح بن عبید کا سیدنا علی سے سماع ثابت نہیں:
"یہ روایت منقطع ہے کیونکہ شریح نے سیدنا علی سے ملاقات نہیں کی۔”
(تاریخ ابن عساکر، ج 1، ص 289)

حدیث نمبر 4: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت میں چالیس مرد اور عورتوں کو ابدال قرار دیا گیا ہے، لیکن حافظ ابن الجوزی نے اس کو مجہول راویوں کی وجہ سے موضوع قرار دیا:
"اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔”
(الموضوعات، ج 3، ص 125)

ابدال سے متعلق محدثین کی مجموعی رائے

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور دیگر علماء نے یہ بات واضح کی ہے کہ ابدال، اقطاب، اور نجباء کے حوالے سے کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ یہ تصورات صوفیانہ اور بعد کے دور میں ایجاد کیے گئے ہیں۔
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابدال، نقباء، نجباء اور اقطاب کے متعلق کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔”
(الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان، ص 101)

ابدال کی حقیقت

ابدال کی اصطلاح کی وضاحت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا کہ علماء نے اس کی مختلف تشریحات کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ابدال وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اخلاق اور اعمال کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔ تاہم، یہ صفات کسی خاص تعداد یا خطے تک محدود نہیں ہیں۔
"یہ صفات چالیس یا کم و بیش لوگوں تک محدود نہیں ہیں۔”
(مجموع الفتاوی، ج 11، ص 442)

اختتامیہ

محدثین کی تحقیق کے مطابق، ابدال اور اس سے متعلق روایات ضعیف اور موضوع ہیں۔ صحیح عقیدہ اور حدیثی علوم کی روشنی میں ان پر اعتبار کرنا درست نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے