اشتراکیت اور سرمایہ داری: دو مختلف راستے، ایک ہی منزل

اشتراکیت اور سرمایہ داری کا تقابل

عام طور پر اشتراکیت کو سرمایہ داری سے بالکل الگ ایک نظام سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ تصور درست نہیں ہے۔ اشتراکیت اور لبرل ازم دراصل سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے دو مختلف نظریات ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کے متضاد نظام۔ اشتراکیت سرمایہ دارانہ اہداف یعنی آزادی، مساوات، اور ترقی کو حاصل کرنے کا ایک متبادل راستہ پیش کرتی ہے، جو کہ سرمایہ داری سے الگ نہیں بلکہ اسی نظام کا ایک اور ورژن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل اہم نکات پر غور کیا جا سکتا ہے:

➊ دونوں نظریات کی بنیادیں ایک ہی ہیں

لبرل ازم اور اشتراکیت دونوں تنویری (Enlightenment) علمیت پر مبنی ہیں، جو انسان کو خود مختار اور قائم بالذات سمجھتی ہیں۔ دونوں نظریات میں انسان کو دنیا کا مرکز اور اپنے اعمال کا فیصلہ کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔

➋ مشترکہ اہداف

اشتراکیت بھی انہی اہداف (آزادی، مساوات، ترقی) کو حق اور مقصد قرار دیتی ہے جو لبرل سرمایہ داری میں اہم سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں نظاموں میں انسان کی فلاح اور ترقی کو دنیاوی پیمانوں سے جانچا جاتا ہے، اور آخرت یا روحانی فلاح کے بجائے مادی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے۔

➌ اشتراکیت، لبرل سرمایہ داری سے نکلتی ہے

مارکس نے خود یہ واضح کیا ہے کہ اشتراکیت دراصل لبرل یا مارکیٹ سرمایہ داری سے برآمد ہوتی ہے۔ اشتراکیت، لبرلزم کی ایک تنقید ہے لیکن اس کی بنیاد وہی سرمایہ دارانہ اصول ہیں۔

➍ مارکس کی تنقید کا نچوڑ

مارکس کی لبرل سرمایہ داری پر تنقید یہ ہے کہ مارکیٹ کے ذریعے آزادی اور لامتناہی ترقی کا حصول ممکن نہیں، کیونکہ مارکیٹ صرف ایک مخصوص طبقے (برجوازی) کی آزادی اور ترقی میں اضافہ کرتی ہے، جبکہ دیگر طبقات استحصال کا شکار رہتے ہیں۔

➎ اشتراکیت کے مقاصد

جب اشتراکیت کے پیروکار سے پوچھا جائے کہ ان کا نظام کیا حاصل کرے گا، تو ان کا جواب ہوتا ہے: "آزادی، مساوات، اور ترقی”۔ یہ وہی مقاصد ہیں جنہیں لبرل سرمایہ داری حق مانتی ہے، لیکن اشتراکیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ان مقاصد کو ریاستی مداخلت اور اجتماعی کنٹرول کے ذریعے بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

➏ نتائج میں یکسانیت

چاہے اشتراکی ممالک (روس، چین، کیوبا) ہوں یا لبرل ممالک (امریکہ، یورپ)، دونوں جگہوں پر حرص، حسد، نفس پرستی، اور خدا و آخرت سے بیزاری کی ایک ہی طرح کی انفرادیت اور معاشرت پروان چڑھتی ہے۔

اشتراکیت بطور "ریاستی سرمایہ داری”

اسی وجہ سے اشتراکیت کو "ریاستی سرمایہ داری” (State Capitalism) کہا جاتا ہے، جبکہ لبرل ازم کو "مارکیٹ سرمایہ داری” (Market Capitalism)۔ دونوں کی جڑ ایک ہی فکری بنیاد یعنی ہیومن ازم (Humanism) ہے، جو کہ انسان کو خود مختار اور دنیاوی ترقی کا مرکز قرار دیتا ہے۔

مسلمانوں کے لیے یہ تفہیم کیوں اہم ہے؟

یہ بات خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ جدید مسلم ذہن جب مارکیٹ سرمایہ داری کے ظلم و ستم کو دیکھتا ہے تو وہ حاضر و موجود متبادل کے طور پر اشتراکیت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، جو کہ اتنی ہی بڑی گمراہی ہے جتنی لبرلزم۔ یہ ایک دھوکہ ہے کہ اشتراکیت سرمایہ داری کے مسائل کا حل فراہم کرتی ہے، جبکہ درحقیقت یہ سرمایہ داری کا ہی ایک مختلف ورژن ہے۔

مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کو سرمایہ داری کے کسی بھی نظریے یا اصولی تصور (مثلاً آزادی، ترقی، جمہوریت، انسانی حقوق، قوم پرستی، یا اشتراکیت) میں تلاش کرنا اسلام کو سرمایہ داری میں ضم کر دینے کے مترادف ہے۔ اسلام کا فہم اور اس کی بنیادیں "خیر القرون” یعنی قرون اولیٰ کے دور میں موجود ہیں۔ اسلام کی ایک تاریخ ہے، اور اسے اس کی تاریخ سے کاٹ کر جدید نظریات میں تلاش کرنا، اسلام کی حقیقی روح کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

خلاصہ

➊ اشتراکیت اور لبرل ازم دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے مختلف ورژن ہیں، اور ان کا مقصد ایک ہی ہے: آزادی، مساوات، اور ترقی۔

➋ اشتراکیت سرمایہ داری سے الگ کوئی نظام نہیں، بلکہ سرمایہ داری کے ہی اہداف کو مختلف طریقے سے حاصل کرنے کا نظریہ ہے۔

➌ اسلام کو سرمایہ داری کے نظریات میں ضم کرنا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔

➍ اسلام کا آئیڈئیل "خیر القرون” ہے، اور مسلمانوں کو اسی کی طرف مراجعت کرنی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے