خلاصہ
- سائنس اور جدید ٹیکنالوجی پر تنقید کا مقصد مادی ترقی کو رد کرنا نہیں، بلکہ اس کے نتائج اور مقاصد کو دینی اصولوں کے مطابق پرکھنا ہے۔
- جلدی سفر کرنا یا تیز رفتاری اسلام میں کوئی اخلاقی برتری نہیں رکھتی، بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ چیزیں دینی مقاصد کے حصول میں معاون ہوں۔
- سائنس اور ٹیکنالوجی کو مقصدِ حیات نہیں سمجھا جانا چاہیے، بلکہ انہیں ایک ذریعہ تصور کیا جانا چاہیے۔
- شریعت کا منہاج یہ ہے کہ جو چیز دینی مقاصد کے خلاف ہو، اسے ترک کر دینا چاہیے، چاہے وہ کتنی ہی مادی فائدہ مند کیوں نہ ہو۔
سائنس اور جدیدیت پر تنقید کا اصل مفہوم
سائنس اور جدید تہذیب پر کی جانے والی تنقید کے جواب میں جو استدلال دیا جاتا ہے کہ "تم ہمیں گھوڑے اور گدھے پر بٹھانا چاہتے ہو”، دراصل ایک گمراہ کن اور غیر متعلقہ دلیل ہے۔ یہ اعتراض صرف جذباتی ردعمل ہے، جو جدیدیت اور سائنس کے مادی پہلوؤں کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا استحصالی نظام
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ناقدین کا اعتراض دراصل اس نظام پر ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ استحصالی ڈھانچے پر قائم ہے اور جس میں سائنس و ٹیکنالوجی کو صرف معاشی فائدے اور مادیت کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ناقدین کا مقصد کسی بھی طرح کی ترقی یا سہولت کو رد کرنا نہیں بلکہ یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ ترقی اور سہولت کا مقصد کیا ہونا چاہیے، اور اس کے ساتھ ہمیں اپنے دینی اصولوں اور اخلاقیات کو کیسے مدنظر رکھنا چاہیے۔
جلدی سفر اور تیز رفتاری کا معیار
جب لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ "گاڑی جلدی سفر کراتی ہے، اس لیے اس میں برتری ہے”، تو یہ دراصل ترقی کو صرف وقت کی بچت اور مادی فوائد تک محدود کر دینا ہے۔ اس دلیل کے جواب میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شریعت میں جلدی سفر کرنے کا کوئی اخلاقی یا دینی تقاضا موجود ہے؟ آیا صرف تیز تر سفر کرنا ہی انسان کی فلاح اور کامیابی کا پیمانہ ہے؟ اسلام میں تو ہر معاملہ اس اصول پر پرکھا جاتا ہے کہ آیا وہ چیز دینی مقاصد کے حصول میں معاون ہے یا نہیں، نہ کہ محض مادی ترقی یا تیز رفتاری کے پیمانے پر۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کا مقام
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو ایک مقصدِ حیات بنا لیا گیا ہے، جبکہ اسلامی نقطۂ نظر میں یہ ذرائع زندگی کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا خود کوئی مقدس یا حتمی مقام نہیں۔ اسلام کی نظر میں زندگی کا مقصد اخروی کامیابی اور انسانیت کی فلاح ہے، اور اگر کوئی مادی چیز ان مقاصد کے برخلاف کام کرتی ہے تو اسے ترک کرنا یا اس پر نظرثانی کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
سائنس اور دینی اصولوں کا تعلق
یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جب دین یا قرآن پر اعتراضات اٹھتے ہیں تو انہیں وسعت نظری کے ساتھ سنا جاتا ہے، لیکن جب سائنس اور جدیدیت پر کوئی اعتراض ہو تو یہ گویا ایک ناقابل برداشت بات بن جاتی ہے۔ یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو دینی عقائد کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں الگ الگ دائرے ہیں۔
شریعت کا منہاج اور مادی ترقی
شریعت کا منہاج اس بات پر زور دیتا ہے کہ کوئی چیز بذات خود ضروری یا غیر ضروری نہیں، بلکہ اس کی اصل حیثیت اس کے مقاصد شریعت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز شریعت کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی ہے، چاہے وہ سائنس ہو یا ٹیکنالوجی، اسے ترک کرنا ہی درست دینی منہاج ہے۔ مادی ترقی اور سہولتوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اگر ہم اپنے دینی مقاصد سے دور ہو جائیں تو یہ ترقی دراصل زوال کا سبب بن سکتی ہے۔