شاعری کے جائز ہونے کی شرعی حدود
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

شاعری کی شرعی حدود کیا ہیں۔؟یہ جائز ہے یا ناجائز اور اگر جائز ہے تو اس کی حدود کا تعین کیا ہے۔؟

الجواب

شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھی کلام ہوتی ہے اور بری شاعری بری کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح بری کلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:
"وليس فى إباحة الشعر خلاف، وقد قاله الصحابة والعلماء، والحاجة تدعو إليه لمعرفة اللغة العربية والاستشهاد به فى التفسير، وتعرف معاني كلام تعالى وكلام رسوله صلى الله عليه وسلم، ويستدل به أيضاً على النسب والتاريخ وأيام العرب” ا.هـ
شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔
قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں اور ان میں پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائی گئی ہو یا عشق و محبت سے مزین ہوں۔
لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے