سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں، کہ ایک شخص نے کچھ زمین مسجد کے واسطے خریدی لیکن پہلے سے اس زمین میں دو منزلہ مکان بنا ہوا تھا، مشتری اوپر کی منزل کو مسجد اور نیچے کو کرایہ پر واسطے خرچ مسجد کے دینا چاہتا ہے، اس صورت میں یہ مسجد، مسجد کا حکم رکھے گی، اور کرایہ پر مکان دینا جائز ہو گا یا نہیں۔ بينوا توجروا
الجواب
صورت مرقومہ بالا میں معلوم کرنا چاہیے، کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی رو سے صورت مسئول عنہا جائز و درست معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ مسجد کا حکم رکھے گی، اور مکان مسجد کے مصالح کے لیے کرایہ پر دینا جائز ہو گا، تاکہ مسجد کی درستی رہے اور ہمیشہ آباد رہے، اس کے اخراجات ضروریہ کے لئے آمدنی کی صورت نکالنا درست و جائز ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم مسجد نبوی کے آرام کے لیے مسجد نبوی میں یعنی نہ کنارے میں نہ ادھر نہ ادھر اندرون مسجد کے ایک حجرہ بنایا تھا، اور اس کا رہنا سہنا وہاں ہی ہوتا تھا، جیسا کہ صحیح بخاری صفحہ ۶۳ میں موجود ہے اور نیز صحیح بخاری صفحہ ۶۶ میں موجود ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں بعض لوگوں کے فائدے کے لیے خیمہ لگوا دیا، وہ اس میں مدت تک رہے۔
غرضیکہ اندرون مسجد یا تحت مسجد یا بالائے مسجد میں کوئی مکان بنانا مصالح مسجد کے لیے درست و جائز ہے، وہ مکان مسجد کو مسجد کے حکم سے خارج نہ کرے گا، جیسا کہ یہ دونوں حدیثیں دلالت کرتی ہیں اور یہ بھی حکم خدا اور رسول ہے کہ جہاں خاص حکم شرعی نہ ہو، وہاں عام حکم شرعی سے استدلال کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں اور خاص کر بخاری کے صفحہ ۱۰۹۳ میں موجود ہے۔
سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحمر فقال: «ما انزل الله على فيها الّا هذه الاٰية الجامعة ﴿فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره﴾ الاية»
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، ان کے لیے کوئی الگ حکم تو مجھ پر نازل نہیں پس یہ آیت جامع موجود ہے۔ جو ایک ذرہ کے برابر نیکی کرے گا، اس کو دیکھ لے گا‘‘۱۲
اور اس پر امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یوں باب منعقد کیا ہے باب الأحكام التى تعرف بالدلائل الخ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن احکام کو ناجائز فرمانا تھا ، ناجائز فرمایا اور جن کو جائز فرمانا تھا ان کو جائز فرمایا، اور جن جگہوں سے خاموشی کی ہے تومت کرید کرو، یعنی وہ معاف ہے، جیسا کہ مشکوٰۃ صفحہ ۲۴ میں موجود ہے ابو ثعلبہ خشنی سے۔
اور یہ اظہر من الشمس ہے، کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں منع نہیں فرمایا، کہ اوپر مسجد اور نیچے مکان کرایہ مصالح مسجد کے لیے نہ بنانا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ ﴾
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘۱۲
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے
«يسرو او لا تعسروا» الحديث
’’یعنی آسانی کرو اور تنگی نہ کرو۔‘‘۱۲
یعنی عالموں کو چاہیے، کہ جہاں کہیں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی نہیں فرمائی، تنگی نہ کریں، بلکہ آسانی کا فتویٰ دیں دلائیں، اب ہر شخص ذی فہم بتا سکتا ہے کہ اس مسجد کے جواز میں مشتری مذکور مکان کے لیے آسانی ہے یا تنگی، اور نیز احادیث صحیحہ میں اضاعت مال سے ممانعت وارد ہوئی ہے، اب ہر شخص ذی شعور بتا سکتا ہے کہ مسجد مذکور فی السوال کے عدم جواز میں اضاعت مال ہے یا نہ۔
غرض کہ ان احادیث و آیات کی رو سے ثابت ہوتا ہے، کہ مسجد مذکور فی السوال مسجد ہی کے حکم میں ہے، اور نیچے کا مکان کرایہ پر دینا واسطے مصالح مسجد مذکور جائز و درست ہے، تفسیر کبیر میں تحت آیت ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ﴾
’’تیرے رب کی قسم جب تک آپ کو حاکم نہیں بنائیں گے ان کو ایمان نصیب نہیں ہو گا۔‘‘۱۲
کے لکھا ہے کہ عمومات کتاب و سنت مقدم ہوتے ہیں عمومات قیاس پر۔ والله اعلم وعلم اتم واكمل. حرره العاجز ابو محمد عبد الوهاب الملتاني نزيل الدهلي تجاوز اللّٰه عن ذنبه الخفي والجلي فى اوائل شهر جمادي الاوليٰ من ۱۳۱۹ه على صاحبها افضل صلوٰة وازكي تحية اللهم ارزقني علما نافعا والعمل بما تحب وترضٰي سيد محمد نذير حسين
ھو الموفق:… صورت مسئولہ میں اگر مشتری نے نیچے کی منزل کو مصالح مسجد کے واسطے وقف کر دیا ہے اور اپنا کوئی تعلق باقی نہیں رکھا ہے تو بے شک وہ مسجد، مسجد کے حکم میں ہے اس واسطے کہ اس مسجد کے مسجد نہ ہونے کی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے اور نیچے کی منزل کو واسطے خرچ مسجد کے کرایہ پر دینا بھی جائز ہے کیوں کہ عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں، فقہہ خنفیہ نے بھی تصریح کی ہے کہ ایسی صورت مین مسجد، مسجد کے حکم میں رہے گی، درمختار میں ہے:
"لو بنيٰ بيتا فوقه للامام لا يضر لانه من المصالح اما لو تمت المسجدية ثم ارادا بناء منع ولو قال عبنيت ذلك لم يصدق”
’’اگر مسجد کے اوپر امام کی رہائش کے لیے مکان بنایا جائے، تو درست ہے، کیوں کہ یہ مسجد ہی کی آبادی ہے۔ ہاں اگر مسجد پوری ہو جائے، پھر اس پر مکان بنایا جائے، تو منع ہے اور اگر کہے کہ میری پہلے ہی سے یہ نیت تھی، تو اس کو سچا نہ سمجھا جائے گا۔‘‘
اور شامی میں ہے
"يؤخذ من التعليل ان محل عدم كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على المصالح المسجد وبه صرح فى الاسعاف فقال وإذا كان السرداب اولعلوا المصالح المسجد أو كا وفقا عليه صار مسجد أو”
’’اس دارو مدار تو سبب ہے، اگر مسجد ہی کی مصلحت کے لئے اس کے نیچے تہ خانہ یا اوپر کوئی مکان بنایا جائے تو درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو جائز نہیں۔‘‘۱۲
نیز شامی میں ہے:
"بقي لوجعل الواقف تحته بيتا للخلاء هل يجوز كما فى مسجد محلة الشحم فى دمشق لم اره صريحا نعم سياتي متنا فى كتاب الوقف انه لوجعل تحته سردا بالمصالحهٗ جاز انتهيٰ”
’’اگر وقف کرنے والا مسجد کے نیچے کوئی بیت الخلا بنائے تو جائز ہے یا نہیں، اس کی صاف جزئی تو میں نے کہیں نہیں دیکھی نہیں، ہاں یہ تو ہے کہ اگر مسجد کے نیچے تہہ خانہ بنائے یا اس کے اوپر کوئی مکان مسجد کی مصلحت کے لیے بنائے تو جائز ہے۔‘‘۱۲
اور فقہ حنفی کی رو سے بھی نیچے کی منزل کو واسطے مصارف مسجد کے کرایہ پر دینے کا جواز مستفاد ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ (فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۲۱۹)
مسجد کی چھت کے نیچے دکانیں بنانا جائز ہے یا نہیں؟
مسجد کی چھت کے نیچے دکانیں بنانا نہ چاہیے، حتی کہ خالص ہوجاوے مسجد تصرف عبد سے اور جو دکانیں بنا لے گا واسطے صرف مسجد کے اور وقف کرے گا اور اوپر اس کے مسجد بنا لے گا تو وہ مسجد حکم مسجد میں ہو گی، غایۃ ما فی الباب کچھ ثواب میں نقصان ہو گا۔ نزدیک امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اور نزدیک صحابین کے، بہرحال وہ مسجد زیر دکانیں حکم مسجد میں ہو گی۔
"إذا أراد انسان أن يتخذ تحت المسجد جوانيت غلة لمرمة المسجد أو فوقه ليس له ذلك كذا فى الخلاصة هكذا فى فتاويٰ العالمگيرية وهكذا فى البرهان أن جعل تحته سردا بالمصالحه أى المسجد جاز كمسجد بيت المقدس ولو جعل فوقه بيتا وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا يكون مسجد اوله بيعة ويورث عنه خلافا لهما كذا فى الدر المختار وغيره”
واضح ہو کہ سرد ابہ نیچی مسجد بیت المقدس کے صرف واسطے دلو و رسی و بوریا اور رکہنے پانے کے فقط بنایا گیا، نہ کرایہ کے واسطے اور احتیاط اور موجب ثواب جانب قول امام صاحب کے ہے۔ کما لا یخفی علی التامل المنصف۔
(سید محمد نذیر حسین (فتاویٰ نذیر قلمی)