قریب الموت، میت اور قبر پر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا۔ نتیجہ، قل، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیرہ بدعات وغیر اسلامی رسومات ہیں۔ واضح رہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع سے ایصال ثواب کی جو صورتیں ثابت ہیں، مثلا دعا، صدقہ وغیرہ، ہم ان کے قائل و فاعل ہیں۔ قرآن خوانی کے ثبوت پر کوئی دلیل شرعی نہیں، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ اہل بدعت نے اسے شکم پروری کا بہترین ذریعہ بنا کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا ہے۔
دلیل نمبر ➊
ثم أخذ جريدة رطبة، فشقها بنصفين، ثم غرز فى كل قبرواحدة، قالوا : يا رسول الله ! لم صنعت هذا ؟ فقال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا۔۔۔
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ فرمایا، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دے۔“ [صحيح بخاري : 182/1، ح : 1361، صحيح مسلم : 141/1، ح : 292]
استحب العلماء قراءة القرآن لهذا الحديث، لأنه إذا كان يرجي التخفيف بتسبيح الجريد، فتلاوته أوليٰ، والله أعلم !
”اس حدیث میں علماء کرام نے قرآن کریم کی تلاوت کومستحب سمجھاہے، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہے توقرآن کریم کی تلاوت بالاولٰی ایسے ہوگی۔“ والله اعلم ! [شرح صحيح مسلم للنووي : 141/1]
تبصرہ :
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے، نیز یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، جیسا کہ :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إني مررت بقبرين يعذبان، فأحببت بشفاعتي أن يرفه ذاك عنهما، مادام الغصنان رطبين
”میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں) کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تر رہیں۔“ [صحيح مسلم : 418/2، ح : 3012]
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔ اسی طرح ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [ صحيح ابن حبان : 824، وسنده حسن]
نیز دیکھیں : [مصنف ابن ابي شيبه : 3 /376، مسندالامام احمد : 441/2 عذاب القبر اللبيهقي : 123، وسنده حسن]
فائدہ ①
أوصيٰ بريده الأسلمي أن توضع فى قبره جريدتان، فكان مات بأذني خراسان، فلم توجه إلا فى جوالق حمار۔
”سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں میں ملیں۔“ [الطبقات لابن سعد : 8/7، وسنده صحيح ان صح سماع مورق عن بريدة]
تبصرہ :
بشرط صحت یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب سے تحفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔
فائدہ ②
تبصرہ :
یہ ”ضعیف“ ہے۔
اس کے دو راویوں الشاہ بن عمار اور النضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے،
دوسری بات یہ کہ قتادہ رحمہ اللہ ”مدلس“ ہیں۔ ان کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں۔ [جامع التحصيل فى احكام المراسيل : 255]
——————
دلیل نمبر ➋
اقرأوا على موتاكم يٰسين۔ ”اپنے قریب المرگ لوگوں پر سورہ یٰسٓ کی قرائت کرو۔“ [مسند الامام احمد : 26/5، سنن ابي داؤد : 3121، السنن للنسائي : 10914، سنن ابن ماجه : 1448]
اس حدیث کو امام ابن حبان [3002] اور امام حاکم [اتحاف المهرة لابن حجر] رحمۃ اللہ علیھما نے ”صحیح“ کہا ہے۔
تبصرہ :
یہ امام ابن حبان اور امام حاکم کا تساہل ہے، جبکہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس کی سند میں ابوعثمان کے والد، جو کہ ”مجہول“ ہیں، ان کی زیادت موجود ہے۔
یہ المزيد فى متصل الاسانيد ہے۔ ابوعثمان نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی، لہٰذا سند ”ضعیف“ ہوئی۔
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أراد به من سيدنا ه المنية لا أن الميت يقرأ عليه، وكذلك قوله صلى الله عليه و سلم : ”لقنوا موتاكم : لا إله إلا الله“۔
”اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب الموت شخص مراد لیا ہے، نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو (یہ بھی قریب المرگ کے لیے ہے، میت کے لیے نہیں)۔“
◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے۔ [الروح لابن القيم : ص11]
فائدہ نمبر ①
”صفوان بن عمرو نے کہا:، مجھے بوڑھوں نے خبر دی کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس حاضر ہوئے، وہ بوڑھے کہتے تھے کہ جب تو میت کے پاس سورہ یٰس کی قرائت کرے گا تو اس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہو گی۔“ [مسندلامام احمد : 105/4]
یہ بوڑھے نامعلوم ہیں لہٰذا سند ”مجہول“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
اس لیے حافظ ابن حجررحمہ اللہ [الاصابة فى تمييز الصحابة : 184/3] کا اس سند کو ”حسن“ قرار دینا صحیح نہیں۔
فائدہ نمبر ②
ما من ميت، فيقرأعنده يٰسٓ إلا هون الله عزوجل عليه۔
”جو میت مرتی ہے اور اس پر سورہ یٰس کی قرائت کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔“ [مسند الفردوس : ٦099، التلخيص الحبير لابن حجر : 104/2]
اس کی سند ”موضوع“ (من گھڑت) ہے۔
اس میں مروان بن سالم الغفاری ”متروک و وضاع“ ہے۔
——————
دلیل نمبر ➌
”جو کوئی قبرستان سے گزرے اور سورہ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے تو اس کو تمام مردوں کی گنتی کے برابر ثواب دیا جائے گا۔“ [تاريخ قزوين : 297/2]
تبصرہ :
یہ ”سخت ترین ضعیف“ راویت ہے،
اس کے راوی داؤد بن سلیمان الغازی کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
اس بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
كذبه يحيي بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب، له نسخة موضوعة عن على بن موسيٰ الرضا، رواها على بن محمد بن مهرويه القزويني الصدوق عنه۔
”اسے امام یحیٰی بن معین نے کذاب کہا ہے، امام ابوحاتم نے ان کو نہیں پہچانا۔ بہرحال وہ جھوٹا شیخ ہے۔ اس کے پاس علی بن موسیٰ الرضا کا ایک نسخہ تھا، جسے علی بن محمد مہرویہ صدوق نے اس سے بیان کیاہے۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 8/2 ]
اس درجہ کے راویوں کی روایت سے حجت پکڑنا اہل بدعت ہی کی شان ہے !
——————
دلیل نمبر ➍
”جو کوئی قبرستان میں داخل ہو اور سورہ یٰسٓ تلاوت کرے تو ان قبرستان والوں سے اللہ تعالیٰ عذاب میں تخفیف فرماتا ہے اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملیں گی۔“ [شرح الصدور للسيوطي : ص 404]
تبصرہ :
یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے۔
محدث البانی رحمہ اللہ نے اس کی یہ سند ذکر کی ہے :
أخرجه الثعلبي فى تفسيره [2/1٦1/3] من طريق محمد بن أحمد الرياحي، حدثنا أبي، حدثنا أيوب بن مدرك عن أبي عبيده عن الحسن عن أنس بن مالك۔۔۔۔ [السلسلة الضعيفة : 1246]
① اس کے راوی ایوب بن مدرک کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ”کذاب“ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ، امام نسائی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”متروک“، امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ، امام یعقوب بن سفیان جوزجانی رحمہ اللہ، امام صالح بن محمد جزرہ اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وغیر ہم نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي أيوب بن مدرك عن مكحول نسخة موضوعة و لم يره۔
”ایوب بن مدرک نے امام مکحول سے ایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، ان کو دیکھا نہیں۔“ [لسان الميزان لابن حجر : ٤88/1]
اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں۔
② احمد بن ابی العوام الریاحی اور ابوعبیدہ کی توثیق مطلوب ہے۔
③ امام حسن بصری ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں ہے۔
——————
دلیل نمبر ➎
”جو کوئی قبرستان میں گیا اور پھر سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے، پھر یوں کہے، اے اللہ ! جو میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب اس قبرستان والے مؤمن مردوں، مؤمن عورتوں کو پہنچا تو وہ تمام اس کی سفارش اللہ تعالیٰ کے ہاں کریں گے۔“ [فوائد لابي القاسم بن على الزنجي، بحواله شرح الصدور للسيوطي : ص 404]
تبصرہ :
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔
——————
دلیل نمبر ➏
تبصرہ :
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے ”موضوع“ (من گھڑت) اور باطل ہے۔
حماد نامعلوم ہے۔ نامعلوم آدمی کا بے سند خواب اہل بدعت کی دلیل بن گیا ہے !
——————
دلیل نمبر ➐
تبصرہ :
یہ ”سخت ضعیف“ قول ہے۔
اس کے راوی الحسن بن الہیثم کی توثیق مطلوب ہے۔
خطاب نامی شخص کے حالات اور توثیق و عدالت کا ثبوت فراہم کیا جائے۔
——————
دلیل نمبر ➑
تبصرہ :
یہ قول ”سخت ترین ضعیف“ ہے، کیونکہ
① اس میں شریک بن عبداللہ القاص ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں ہے۔
② الری نامی راوی کی تعیین و توثیق مطلوب ہے۔
③ یہ لوگ ابراہیم نخعی کے مقلد ہیں یا۔۔۔۔۔۔۔ انہیں چاہیے کہ اپنے امام سے باسند ”صحیح“ اس کا جواز پیش کریں۔
نامعلوم لوگوں کے بے سند خواب پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
——————
دلیل نمبر ➒
تبصرہ :
اس خواب کے راوی ابویحییٰ الناقد کی توثیق چاہیے۔
نیز امتی کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے۔
——————
دلیل نمبر ➓
تبصرہ :
اس میں ایصال ثواب کا ذکر تک نہیں ہے۔
اگرچہ قبر پر قرآن کریم کی تلاوت کے جواز پر بھی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے۔
——————
دلیل نمبر ⓫
تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس میں سفیان ثوری ”مدلس“ ہیں، جو کہ ”عن“ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا سند ”ضعیف“ ہے۔
② اس میں رجل مبہم موجود ہے۔
——————
دلیل نمبر ⓬
تبصرہ :
یہ قول ثابت نہیں۔
اس کے راوی العباس بن محمد بن احمد بن عبدالعزیز کی توثیق نہیں مل سکی۔
——————
الحاصل :
قرآن خوانی شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہے۔ سلف صالحین میں سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں، بلکہ یہ بعد کے بدعتیوں کی ایجاد ہے، جو انہوں نے شکم پروری کے لیے جاری کی ہے۔