اسلاف پرستی سے اصنام پرستی تک   
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہے۔ دنیا میں شرک اولیاء و صلحا کی محبت وتعظیم میں غلو کے باعث پھیلا۔ اس حقیقت کو مشہور مفسر علامہ فخر االدین رازی (۶۰۶-۵۴۴ھ ) نے یوں آشکارا کیا ہے۔

اِنہم وضعو ہذہ الأصنام والأوثان علی صور أنبیائہم و أکابرہم و زعمو انّہم متٰی اشتغلو بعنادۃ ہذہ التماثیل فاِنّ أولئک الأکابر تکون شفائ لہم عند اللہ تعالیٰ، و نظیرہ فی ہذا الزمان اشتغال کثیر من الخلق یتعظّم قبور الأکابر علی اعتقاد اٌنّہم اِذا عظّمو قبورہم فاِنّہم یکونون شفعاء لھم عند اللہ ۔

‘‘ مشرکین نے اپنے انبیائے کرام اور اکابر کی شکل ، صورت پر بت اور مُورتیاں بنا لی تھیں۔ ان کا ا اعتقاد تھا کہ جب وہ ان مورتیوں کی عبادت کرتے ہیں تو یہ اکابر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں ۔ اس دور میں اس شرک کی صورت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اکابر کی قبروں کی تعظیم میں مصروف ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اکابر کی قبروں کی تعظیم کرنے کی وجہ سے وہ اکابر اللہ کے ہاں ان کے سفارشی بنیں گے۔ ’’

(تفسیر الرازی: ۲۲۷/۱۷ )

قران و حدیث میں قبر پرستی کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ۔ اس کے بر عکس قبر پرستی کی واضح مذ مت موجود ہے۔ یہ قبوری فتنہ شرک کی تمام صورتوں اور حالتوں پر حاوی ہے۔غیر اللہ سے استمداد ، استعانت اور استغاثہ ، مخلوق کے نام پر نذ ر و نیاز اور اس سے امیدیں وابستہ کرنا قبر پرستی کا ہی شاخسانہ ہے۔

قرآن کریم نے اہل فکر و نظر کو ان الفاظ میں دعوت توحید دی ہے:

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ . وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّاوَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

‘‘ (اے نبی ) کہہ دیجئے! تم ان لوگوں کو پکارو جن کو تم اللہ کے سوا (معبود ) سمجھتے ہو۔ وہ تو آسمان و زمین میں ایک ذ رے کے بھی مالک نہیں، نہ ان کا آسمان و زمین میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ تعالٰی کا معاون ہے نہ اللہ کے ہاں کوئی سفارش فائدہ دیتی ہے، ہاں جس شخص لے لئے وہ خود اجازت دے۔’’

(سبا: ۲۳،۲۲ )

شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، امام ابن قیم رحمہ اللہ ( ۷۵۱-۶۹۱ھ ) اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں:

فتأمّل کیف أخذت ہذہ الآیۃ علی المشرکین بمجامع الطریق الّتی دخلو منہا اِلی الشرک و سدّتہا علہیم أحکم سدّ و ابلغہ، فاِنّ العابد  إنّما یتعلّق بالمعبود لما یرجو من نفعہ، و اِلّا فلو لم یرج منہ منفعۃ لم یتعلق قلبہ بہ، و حینئذ فلا بدّ أن یکون المعبود  مالکا للأسباب الّتی ینفع بہا عابدہ، أو شریکا لمالکہا أو ظہیرا أو وزیرا و معاونا لہ أو وجیہا ذا حرمۃ و قدر یشفع عندہ، فاِذا انتفت ہذہ الأمور الأربعۃ من کلّ وجہ و بطلت انتفت أسباب الشرک و انتقعت موادّہ، فنفی سبحانہ عن آلہتہم أن تملک مثقال ذرّۃ فی السموات والأرض، فقد یقول المشرک: ہی شریکۃ لمالک الحقّ فنفی شرکتہا لہ، فیقول المشرک: قد تکون ظہیرا و وزیرا و معاونا، فقال: و ما لہ منہم من ظہیر، فلم یبق اِلّا الشفاعۃ فنفاہا عن آلہتہم و أخبر أنہ لا یشفع عندہ أحد اِلّا باِذنہ ۔

‘‘ آپ غور کریں کہ اس آیت نے مشرکین کا کس طرح ناطقہ بند کیا ہے۔ ’’ ان کے شرک میں داخل ہونے کے دروازوں کو کس قدر پختگی اور وعمد گی سے بند کیا ہے۔ کوئی عبادت کرنے والا اپنے معبود سے اسی لئے تعلق رکھتا ہے کہ اسے اس سے کسی فائدے کی امید ہوتی ہے۔ اگر معبود سے کسی فائدے کی توقع نہ ہو تو عبادت کرنے والے کا دل معبود سے نہیں لگتا۔ تب ضروری ہے کہ معبود یا تو ان اسباب کا مالک ہو جن سے عبادت گذار  کو فائدہ ہو یا معبود ان اسباب کے مالک کا ساجہی اور حصہ دار ہو یا اس کا معاون یا وزیر و مشیر ہو یا مالکِ اسباب کی نظر میں اس قدر جاہ،جلال کا حامل ہو کہ وہ اس کی سفارش کو ردّ نہ کر سکے۔ جب یہ چاروں اُمور ہر طرح سے باطل ہیں توشرک کے اسباب کی بھی نفی ہو گئی اور اس کی بنیادیں اُکھڑ گئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے مشرکین کے معبودوں کے بارے میں آسمان و زمین کے ایک ذرے کے مالک ہونے کی بھی نفی کر دی ہے۔ بسا اوقات مشرک کہہ دیتا ہے کہ یہ معبود مالکِ حقیقی کے ساجھی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے حصہ دار ہونے کی نفی کر دی۔ پھر مشرک کہہ دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے معاون، وزیر یا دستِ راست ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان میں سے اس کا کوئی بھی معاون نہیں۔اب صرف سفارش کی بات رہ گئی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کے معبودوں سے اس کی بھی نفی کر دی اور فرمایا کہ اس کے دربار میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کر سکتا۔’’

(الصواعق المرسلۃ لابن القیم: ۴۶۲،۴۶۱/۲ )

جو لوگ اہل قبور کو نفع و نقصان، عزت و دولت، حیات و موت ،صحت و مرض اور فراخی و تنگی کا مالک سمجھتے ہیں ان کے رد میںشیخ الاسلام ابنِ تیمیہ (۷۲۸-۶۶۱ھ ) فرماتے ہیں:

عامّۃ المذ کور من المنافع کذب، فإنّ ہؤلاء الّذین یتحرّون الدعاء عند القبور و أمثالہم اِنّما یستجاب لہم فی النادر ، و یدعو الرجل منہم ما شاء اللہ من دعوات ، فیستجاب لہ فی واحدۃ ،و یدعو خلق کثیر منہم، فیستجاب للواحد بعد الواحد، و أین ہذا من الّذین یتحرّون الدعاء فی أوقات الأسحار و یدعون اللہ فی سجودہم و أدبار صلواتہم و فی بیوت اللہ، فاِنّ ہؤلا اِذا ابتہلوا ابتہالا من جنس القبوریّین لم تکد تسقط لہم دعوۃ ا،لّا لمانع، بل الواقع أنّ الابتہال الّذی یفعلہ القبوریّون اِذا فعلہ لم یردّ المخلصون الّا نادرا، و لم یستجب للقبوریّین إلأ نادرا، و المخلصون کما قال النبی صلّی اللہ علیہ و سلّم : (( ما من عبد یدعو اللہ بدعوۃ لیس فیہا إ ثم ولا قطعیہ رحم إلّا أعطاہ اللہ بہا إحدی خصال ثلاث: إمّا أن یعجل اللہ لہ دعوتہ، أو یدّخر لہ من الخیر مثلہا، أو یصرف عنہ من الشرّ مثلہا))، قالوا : یا رسول اللہ ! إذًانکثر، قال: ((اللہ أکثر ))

 (مصنف عبد الرزاق: ۲۲/۶، الرقم: ۲۹۱۷۰،مسند أبی یعلی : ۲۹۷/۲،ح: ۱۰۱۹،مسند امام احمد: ۱۸/۳، الأدب المفرد للبخاری: ح۷۱۰، وصحّح الحاکم (۱۸۱۶) إسنادہ،و سندہ حسن)

فہم فی دعائہم لا یزالون بخیر، و أمّا القبوریّون فإنّہم إذا استجیب لہم نادرافإنّ أحدہم یضعف توحیدہ و یقلّ نصیبہ من ربّہ، ولا یجد فی قلبہ من ذوق طعم الإیمان و حلاوتہ ما کان یجدہ السابقون الأوّلون ۔

‘‘ (قبر پرستی کے) جو اکثرفائدے ذکر کئے جاتے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ قبروں وغیرہ کے پاس جا کر کثرت سے دعا کرتے ہیں ۔ بس کبھی کبھار وہ دعا (اللہ کی طرف سے ) قبول ہو جاتی ہے۔ اور کوئی مشرک بہت سی دُعائیں کرتا ہے لیکن اُن میں سے کوئی ایک دعا قبول ہوتی ہے ۔ پھر بہت سے مشرک لوگ دعا کرتے ہیں تو ان میں سے کبھی کسی ایک کی اور کبھی کسی ایک کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ یہ کیفیت ان لوگوں کو کہاں لاحق ہوتی ہے جو سحری کے وقت اللہ تعالٰی سے دُعا کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کو اپنے سجدوں میں ، اپنی نمازوں کے آخر میں اور مساجد میں پکارتے ہیں ۔ یہ موحد لوگ جب ان قبر پرستوں کی طرح گڑ گڑا کر دُعائیں کریں تو ممکن نہیں کہ ان کی کوئی دُعا ردّ ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب موحد لوگ اس طرح اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تو ان کی دُعا بہت کم ردّ ہوتی ہے، جبکہ قبر پرستوں کی دُعا قبول ہی بہت کم ہوتی ہے ۔ موحدین کی دعا کے بارے میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے :

(( ما من عبد یدعو اللہ بدعوۃ لیس فیہا إثم ولا قطیعۃ رحم إلّا اعطاہ اللہ إ حدی خصال ثلاث: إمّا أن یعجّل اللہ لہ دعوتہ، او یدّخر لہ من الخیر مثلھا، أو یصرف عنہ من الشرّ مثلہا))، قالوا : یا رسول اللہ! قال: ((اللہ أکثر ))

(کوئی بھی مسلمان بندہ جب اللہ تعالٰی سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالٰی اسے تین باتوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے ۔ یا تو اس کی دُعا فوراً قبول کر لیتا ہے یا اس دُعا کی مثل کوئی اور بھلائی اسے عطا فرما دیتا ہے یا اس سے کوئی ایسا ہی نقصان دور کر دیتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اگر یہ بات ہے تو پھر ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ عطا فرمانے والا ہے )

(مصنف عبد الرزاق: ۲۲/۶، الرقم: ۲۹۱۷۰،مسند أبی یعلی : ۲۹۷/۲،ح: ۱۰۱۹،مسند امام احمد: ۱۸/۳، الأدب المفرد للبخاری: ح۷۱۰، وصحّح الحاکم (۱۸۱۶) إسنادہ،و سندہ حسن)

‘‘موحد لوگ اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ بہتری میں رہتے ہیں ۔ اس کے بر عکس قبر پرست لوگوں کی جب کبھی کبھار کوئی دُعا قبول ہو جاتی ہے تو ان کی توحید کمزور ہو جاتی ہے ، اپنے رب سے ناطہ و تعلق کم ہو جاتا ہے اور وہ دل میں ایمان کی وہ حلاوٹ اور ذائقہ محسوس نہیں کرتے جو پہلے مسلمان محسوس کرتے تھے۔’’

(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ: ۶۸۹/۲ )

قبر پرستی ایک بے دلیل عمل

بعض الناس جو معاملہ اپنے بزرگوں کی قبروں کے ساتھ کرتے ہیں ،سلف صالحین اس سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ کیسا دین ہے جس سے سلفِ امت غافل رہے ہوں؟

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:

ہل یمکن لبشر علی وجہ الأرض أن یأتی عن أحد منہم (أی السلف الصالح ) بنقل صحیح أو حسن أو ضعیف أو منقطع أنّہم کانو إذا کان لہم حاجۃ قصدوا القبور فدعوا عندہا، و تمسّحو بھا فضلا أن یصلّو عندہا أو یسألو ا اللہ بأصحابہا أو یسألوہم حوائجہم ، فلیوقفونا علی أثر واحد أو حرف واحد فی ذلک ۔ 

‘‘ کیا روئے زمین پر کسی انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ سلف صالحین میں سے کسی ایک سے کوئی ایک صحیح یا حسن یا ضعیف یا منقطع روایت بیان کرے کہ جب ان کو کوئی ضرورت ہوتی تھی تو وہ قبروں کی طرف جاتے اور ان کے پاس دُعا کرتے اور ان سے لپٹتے ہوں ۔ ان سے قبروں کے پاس نماز پڑھنے ، اہل قبور کے طفیل اللہ سے دُعا مانگنے یا اہل قبور سے اپنی حاجت روائی کی التجا کرنے کا ثبوت تو دُور کی بات ہے ۔ مشرکین ہمیں کوئی ایک ایسی روایت یا اس بارے میں کوئی لفظ دکھا دیں ۔ ’’

(اغاثۃ اللھفان فی مصاید الشیطان لابن القیم: ۳۱۸/۱ )

نیز شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقد کان من قبور أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم بالأمصار عدد کثیر ، و عندہم التابعون و من بعدہم من الأئمّۃ، و ما استغاثو عند قبر صحابیّ قطّ و لا استسقوا عندہ ولا بہ، ولا استنصرو عندہ ولا بہ، ومن المعلوم أنّ مثل ہذا ممّا  تتوفّر الہمم والدواعی علی نقلہ، بل علی نقل ما ہو دونہ، و من تأمّل کتب الآثار و عرف حال السلف تیقّن قطعا أنّ القوم ما کانوا یستغیثون عند القبور و لا یتحرّون الدعاء عندہا أصلا، بل کانو ینہون عن ذلک من یفعلہ من جّہالہم ۔

‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کے صحابہ کی قبروں کی بڑی تعداد شہروں میں تھی ۔ ان قبروں کے پاس تابعین اور ان کے بعد والے ائمہ دین رہتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی صحابی کی قبر کے پاس آ کر مدد طلب نہیں کی اور نہ قبروں کے پاس اللہ سے بارش طلب کی نہ اس کے طفیل ایسا کیا، نہ ان قبروں کے پاس مدد طلب کی نہ ان کے طفیل ایسا کیا۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ ایسے واقعات اگر رونما ہوں تو ان کو نقل کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ اس سے کم درجے کے واقعات بھی نقل ہوتے رہتے ہیں ۔ جو شخص آثا رِِ سلف کی کتب کا غور سے مطالعہ کر کے سلف صالحین کے حالات کو پہچان لے گا اسے قطعی طور پر یقین ہو جائے گا کہ وہ لوگ قبروں کے پاس نہ مدد طلب کرتے تھے نہ کبھی ( اپنے لئے) دُعا کرنے کے لئے وہاں جاتے تھے بلکہ اس دور کے جو جاہل لوگ ایسا کرتے تھے اسلاف انہیں اس سے منع کرتے تھے۔’’

(اقتضاء الصراط المستقیم: ۶۸۱/۲ )

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴-۷۰۰ ) اکابر پرستی کو شرک کا موجب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

وأصل عبادۃ الأصنام من المغالاۃ فی القبور و أصحابہا، وقد أمر النبی صلی اللہ علیہ و سلّم بتسویۃ القبور و طمسہا، و المغالاۃ فی البشر حرام۔ 

‘‘ بتوں کی عبادت کا اصل سبب قبور اور اصحاب قبور کے بارے میں غلو کا شکار ہونا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم نے قبروں کو برابر کرنے اور (اونچی قبروں ) کو مٹانے کا حکم دیا ہے ۔ بشر کے بارے میں غلو کرنا حرام ہے ۔

 ’’(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ۲۸۶/۱۰ )

اسلاف پرستی ہی اصنام پرستی ہے۔ دنیا میں شرک اولیاء و صلحاء کی محبت و تعظیم میں غلو کے باعث پھیلا جیسا کہ مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ (600-671ھ) فرماتے ہیں : 
فيؤدي إلى عبادة من فيھا كما كان السبب في عبادة الأوثان.
” قبر پرستی اصحاب قبور کی عبادت تک پہنچا دیتی ہے جیسا کہ بت پرستی کا سبب بھی یہی تھا۔ “ ( تفسیر القرطبی: 380/10)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 
﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ 
” اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (ان کا کہنا ہے ہے کہ) ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔“
(39-الزمر:3)

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224-310ھ) فرماتے ہیں : 
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ : ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ يَتَوَلَّوْنَهُم, ويعبدونهم من دون الله، يقولون لهم: ما نعبدكم أيها الآلهة إلا لتقربونا إلى الله زُلْفَى, قربة ومنـزلة, وتشفعوا لنا عنده في حاجاتنا.
” اور جو لوگ اللہ کے سوا اولیاء بناتے ہیں وہ یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ اے معبودو! ہم تمہاری عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ تم ہمیں مقام و مرتبے میں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دو اور ہمارے کاموں کے بارے میں اللہ سے سفارش کرو۔ “( جامع البیان فی تاویل القرآن : 653/9) 

آج کا مسلمان اولیاء اور صالحین کی قبروں کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتا ہے جو مشرکین مکہ اپنے بتوں کے متعلق رکھتے تھے۔ وہ قبروں سے امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہے۔ آج بندوں کے نام کی دہائی دی جاتی ہے۔ خوشی اور غمی میں ان کو پکارا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ ہماری ان کے آگے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ یہ دستگیر اور غریب نواز ہیں۔ ان کی قبروں کی طرف سفر کیا جاتا ہے۔ منت منوتی پیش کی جاتی ہے۔ نذرانے چڑھائے جاتے ہیں۔ نیازیں تقسیم ہوتی ہیں۔ بالکل یہی وطیرہ مشرکین مکہ کا تھا۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ((700-773ھ)) لکھتے ہیں :

«ثم أخبر تعالىٰ عن عُبَا الأصنام من المشركين أنھم يقولون : ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ أي: إنما يحملھم على عبادتھم لھم أنھم عمدوا إلى أصنام اتخذوھا على صور الملائكة المقربين في زعمھم ، فعبدوا تلك الصور تنزيلا لذلك منزلة عبادتھم المائكة ليشفعوا لھم عند الله فى نصرھم و رزقھم ، وما ينوبھم من أمر الدنيا.» 

” پھر اللہ تعالیٰ نے بتوں کے پجاری مشرکین کے اس قول کی خبر دی ہے کہ ہم تو ان بتوں کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ مقام و مرتبے میں ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔ یعنی مشرکین مکہ کو بتوں کی پوجا پر صرف اس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے خیال کے مطابق مقرب فرشتوں کی شکل پر بت بنائے ہوئے تھے اور وہ ان بتوں کی عبادت فرشتوں کی ہی عبادت سمجھ کر کرتے تھے تاکہ وہ فرشتے اللہ کے ہاں ان کی مدد، رزق اور دنیاوی مصائب کے بارے میں سفارش کریں۔ “(تفسیر ابن کثیر : 397/5،396)

شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ((661-728ھ)) فرماتے ہیں :

«وھذه الأمور المبتدعة من الأقوال ھى مراتب : أبعدھا عن الشرع أن يسأل الميت حاجة أو يستغيث به فيھا كما يفعله كثير من الناس بكثير من الأموات ، وھو من جنس عبادة الأصنام ، ولھذا تتمثل لھم الشياطين على صورة الميت أو الغائب كما كانت تتمثل لعبادة الأصنام ، بل أصل عبادة الأصنام إنّما كانت من القبور كما قال ابن عبّاس وغيره ، وقد يرى أحدھم القبر قد انشقّ و خرج منه الميّت فعانقه أو صافحه أو كلمه ، ويكون ذلك شيطانا تمثل على صورته ليضله ، وھذا يوجد كثيرا عند قبور الصالحين ، وأمّا السجود للميّت أو للقبر فھو أعظم وكذلك تقبيله ، المرتبة الثانية ” أن يظنّ أنّ الدعاء عند قبره مستجاب أو أنّه أفضل من الدعاء فى المساجد والبيوت ، فيقصد زيارته لذلك أو للصلاة عنده أو لأجل طلب حوائجه منه ، فھذا أيضا من المنكرات المبتدعة باتفاق أئمة المسلمين وھي محرّمة ، وما علمت في ذلك نزاعا بين أئمة الدين ، المرتبة الثالثۃ : أن يسأل صاحب القبر أن يسأل الله له ، وھذا بدعة باتفاق أئمة المسلمين.»

” یہ بدعت پر مبنی اقوال بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو قول سب سے بڑھ کر شریعت سے دور ہے وہ یہ ہے کہ میت سے کسی ضروری چیز کا مطالبہ کیا جائے یا اس سے اس بارے میں مدد طلب کی جائے۔ بہت سے لوگ بہت سے مردوں سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ کام بتوں کی عبادت ہی کی قسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیاطین میت یا غائب شخص کی شکل میں ان لوگوں کے پاس بھی آتے ہیں جیسا کہ بت پرستوں کے پاس آیا کرتے تھے۔ بلکہ بتوں کی عبادت کی بنیاد قبروں سے ہی ہوئی تھی جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے فرمایا ہے۔ بسا اوقات کوئی قبر پرست دیکھتا ہے کہ قبر پھٹی ہے اور مردے نے اس سے نکل کر اس سے معانقہ یا مصافحہ یا کلام کی ہے۔ درحقیقت یہ شیطان ہوتا ہے جو اس میت کی شکل میں آیا ہوتا ہے تاکہ اس شخص کو گمراہ کرے۔ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے۔ رہا میت یا قبر کو سجدہ کرنا یا اس کو بوسہ دینا تو وہ اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ دوسرے درجے میں یہ بات آتی ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے یا یہ مسجد یا گھر میں دعا کرنے سے افضل ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ قبر کی زیارت کے لیے جاتا ہے یا اس کے پاس نماز کا اہتمام کرتا ہے یا اس سے اپنی ضروریات طلب کرتا ہے۔ یہ بھی بدعت پر مبنی منکرات میں سے ہیں۔ اس پر مسلمانوں کے ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ کام حرام ہیں۔ مجھے اس بارے میں ائمہ دین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ملا۔ تیسرے درجے میں یہ بات آتی ہے کہ صاحب قبر سے کہا جائے کہ وہ اللہ سے کوئی چیز مانگ کر دے۔ یہ کام ائمہ مسلمین کے نزدیک بالاتفاق بدعت ہے۔ “ ( تلخيص كتاب الاسغاثة لابن تيمية : 145/1)

امام ابن ابی العزا الحنفی رحمہ اللہ ((731-792ھ)) لکھتے ہیں :

«ولم يكونوا يعتقدون في الأصنام أّنھا مشاركة لله في خلق العالم بل كان حالھم فيھا كحال أمثالھم من مشركى الأمم من الهند والترك والبربر و غيرھم ، تارة يعتقدون أنّ ھذه تماثيل قوم صالحين من الأنبياء والصالحين ، ويتخذونھم شفعاء ويتسّلون بھم إلى الله ، وھذا كان أصل شرك العرب ، قال تعالٰى حكاية عن قوم نوح : ﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ »
(71-نوح:23)

”مشرکین مکہ کا بتوں کے بارے میں یہ اعتقاد نہیں تھا کہ وہ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں، بلکہ ان کا حال ہندوستان، ترکی اور بربر کی مشرک قوموں کی طرح ہی تھا۔ کبھی ان کا اعتقاد یہ بن جاتا ہے کہ یہ نیک لوگوں اور انبیائے کرام کی مورتیاں ہیں اور ان کو اپنا سفارشی بناتے ہیں اور اللہ کی طرف ان کو وسیلہ بناتے ہیں۔ یہی عرب لوگوں کا اصل شرک تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ ”اور انہوں نے کہا : تم کبھی بھی اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا نہ ودّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا“ “ (شرح العقيده الطحاوية : ص ۸۱)

شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ((691-751ھ)) فرماتے ہیں :

«وتلاعب الشيطان بالمشركين في عبادة الأصنام له أسباب عديدة : تلاعب بكلّ قوم على قدر عقولھم ، فطائفة دعاھم إلى عبادتھا من حھة تعظيم الموتى الّذين صوّروا تلك الأصنام على صورھم كما تقدّم عن قوم نوح عليه السلام ، ولھذا لعن النبي صلى الله عليه وسلم المتخذين على القبور المساجد والسرج ، ونھى عن الصلاة إلى القبور ، وسأل ربّه سبحانه أن لا يجعل قبره و ثنا يعبد ، ونھى أمّته أن يتخذوا قبره عيدا ، وقال : ( ( اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائھم مساجد ) ) ، وأمر بتسوية القبور وطمس التماثيل ، فأبى المشركون إلا خلافه في ذلك كله إمّا جھلا وإمّا عنادا لأھل التوحيد ، ولم يضرّھم ذلك شيئا ، وھذا السبب ھو الغالب علي عوّام المشركين ، وأمّا خواصّھم فإنّھم اتخذوھا بزعمھم علي صور الكواكب المؤثرة في العالم عندھم ، وجعلوا لھا بيوتا و سدنة و حجابا وحجبا وقربانا ، ولم يزل ھذا في الدنيا قديما و حديثا.»

”بہت سے اسباب ہیں جن کے ذریعے شیطان نے مشرکین کو بتوں کی عبات میں ملوث کیا۔ اس نے ہر قوم سے اس کی عقل کے مطابق کھیل کیا۔ ایک گروہ کو بتوں کی عبادت کی دعوت مردوں کی تعظیم کے ذریعے دی۔ انہوں نے اپنے بزرگوں کی صورتوں پر مورتیاں بنائیں جیسا کہ قوم نوح کے بارے میں اس بات کو ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت کی ہے جو قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں، نیز آپ نے قبروں کی طرف سے رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع بھی فرمایا ہے۔ اور اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی ہے کہ میر قبر کو ایسا بت نہ بنا دینا جس کی عبادت کی جائے۔ اور اپنی امت کو اپنی قبر کو میلہ گاہ بنانے سے منع بھی فرمایا ہے۔ اور فرمایا : اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائھم مساجد ”ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہوا جنہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا“۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو برابر کرنے اور مورتیوں کو مٹانے کا حکم فرمایا۔ مشرکین نے ان سب باتوں کی مخالفت ہی کی یا اپنی جہالت کی بناء پر یا پھر اہل توحید سے عداوت کی بناء پر حالانکہ اس سے اہل توحید کا کچھ نہیں بگڑا۔ عام مشرکین میں یہی طرز عمل غالب رہا ہے۔ رہے خاص مشرکین تو انہوں نے بت یہ سمجھ کر بنائے تھے کہ یہ بت کائنات میں موجود بااثر ستاروں کی شکل میں ہیں۔ ان مشرکین نے ان بتوں کے لیے آستانوں، غلافوں، دربانوں اور قربانیوں کا اہتمام کیا۔ دنیا میں پرانے اور نئے زمانے میں ایسا ہوتا آیا ہے۔“ 
(إغاثة اللهفان : 223/2، 222) 

نیز فرماتے ہیں : 
فوضع الصنم إنّما كان في الأصل على شكل معبود غائب، فجعلوا الصنم على شكله وھيأته و صورته ليكون نائبا منابه وقائما مقامه، وإنّا فمن المعلوم أنّ عاقلا لا ينحت خشبة أو حجرا بيده تمّ يعتقد أنّه إلھه و معبوده
”بت بنانے کا آغاز کسی غائب معبود کی شکل میں مورتی بنانے سے ہوا۔ مشرکین نے اپنے معبود کی شکل و صورت کے مطابق بت بنا لیے تاکہ وہ ان کے معبود کے قائم مقام ہو جائیں، ورنہ معلوم بات ہے کہ کوئی عاقل اپنے ہاتھ سے کسی لکڑی یا پتھر کو اپنے ہاتھ سے تراش کر اس کے بارے میں یہ اعتقاد نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کا الٰہ اور معبود ہے۔“ (إغاثة اللهفان : 224/2) 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«اِنَّ أَصْلَ الشِّرْكِ فِي الْعَالَمِ كَانَ مِنْ عِبَادَةِ الْبَشَرِ الصَّالِحِينَ وَعِبَادَةِ تَمَاثِيلِهِمْ وَهُمْ الْمَقْصُودُونَ. وَمِنْ الشِّرْكِ مَا كَانَ أَصْلُهُ عِبَادَةَ الْكَوَاكِبِ إمَّا الشَّمْسُ وَإِمَّا الْقَمَرُ وَإِمَّا غَيْرُهُمَا وَصَوَّرَتْ الْأَصْنَامُ طَلَاسِمَ لِتِلْكَ الْكَوَاكِبِ وَشِرْكُ قَوْمِ إبْرَاهِيمَ – وَاَللَّهُ أَعْلَمُ – كَانَ مِنْ هَذَا أَوْ كَانَ بَعْضُهُ مِنْ هَذَا ، وَمِنْ الشِّرْكِ مَا كَانَ أَصْلُهُ عِبَادَةَ الْمَلَائِكَةِ أَوْ الْجِنِّ، وُضِعَتْ الْأَصْنَامُ لِأَجْلِهِمْ، وَإِلَّا فَنَفْسُ الْأَصْنَامِ الْجَمَادِيَّةِ لَمْ تُعْبَدْ لِذَاتِهَا، بَلْ لِأَسْبَابٍ اقْتَضَتْ ذَلِكَ ، وَشِرْكُ الْعَرَبِ كَانَ أَعْظَمُهُ الْأَوَّلَ، وَكَانَ فِيهِ مِنْ الْجَمِيعِ۰»

” دنیا میں شرک کی بنیاد نیک بندوں کی عبادت تھی، نیز ان کی مورتیوں کو بھی پوجا جاتا تھا لیکن مقصود وہی لوگ تھے۔ شرک کی ایک قسم وہ بھی تھی جس کی بنیاد ستاروں کی پرستش پر تھی۔ وہ سورج ہو یا چاند یا کوئی اور ستارے، بتوں نے انہی ستاروں کی طلسمی تصویر پیش کی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا شرک پورا کا پورا یہی تھا یا کچھ نہ کچھ اسی پر مبنی تھا۔ شرک کی ایک اور قسم ہے جس کی بنیاد فرشتوں یا جنوں کی عبادت پر ہے۔ فرشتوں اور جنوں کی یاد میں بت تراشے گئے ہیں، ورنہ بے جان بتوں کی عبادت محض انہی کے لیے کبھی نہیں کی گئی۔ بلکہ ان کی عبادت کے پیچھے مذکورہ اسباب اس کے متقاضی تھے۔ عربوں کے شرک کا بڑا حصہ پہلی قسم کے شرک سے تھا، البتہ ان میں سب طرح کا شرک پایا جاتا تھا۔ “ 
(مجموع الفتاوى لا بن تيمية: 461،460/17)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مذید فرماتے ہیں :

«… ومن هؤلاء من يأتي إلىٰ قبر الشيخ الذي يشرك به ويستغيث به فينزل عليه من الهواء طعام أو نفقة أو سلاح أو غير ذلك مما يطلبه فيظن ذلك كرامة لشيخه، وإنما ذلك كله من الشياطين. وهذا من أعظم الأسباب التي عبدت بها الأوثان. وقد قال الخليل عليه السلام: ﴿وَاجْنُبْنِى وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ﴾ ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَن تَبِعَنِى فَإِنَّهُ مِنِّى وَمَنْ عَصَانِى فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ 
(إبراهيم: 35-36)
كما قال نوح عليه السلام، ومعلوم أن الحجر لا يضل كثيراً من الناس إلا بسبب اقتضى ضلالهم، ولم يكن أحد من عباد الأصنام يعتقد أنها خلقت السماوات والأرض، بل إنما كانوا يتخذونها شفعاء ووسائط لأسباب: منهم من صورها على صور الأنبياء والصالحين، ومنهم من جعلها تماثيل وطلاسم للكواكب والشمس والقمر، ومنهم من جعلها لأجل الجن، ومنهم من جعلها لأجل الملائكة. فالمعبود لهم في قصدهم إنما هو الملائكة والأنبياء والصالحون أو الشمس أو القمر، وهم في نفس الأمر يعبدون الشياطين، فھي التي تقصد من الإنس أن يعبدها وتظهر لهم ما يدعوهم إلى ذلك، كما قال تعالىٰ: ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلائِكَةِ أَهَؤُلاء إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ﴾ ﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾ 
(سبأ:40-41)
وإذا كان العابد ممن لا يستحل عبادة الشياطين أوهموه أنه إنما يدعو الأنبياء والصالحين والملائكة وغيرهم ممن يحسن العابد ظنه به. وأما إن كان ممن لا يحرم عبادة الجن عرفوه أنهم الجن.»

”بعض مشرک ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایسے بزرگ کی قبر پر آتے ہیں جس کے ذریعے وہ شرک کرتے اور جس سے وہ مدد طلب کرتے ہیں تو ان کے پاس فضا سے کوئی کھانا یا خرچ یا اسلحہ وغیرہ جس کی انہیں طلب ہوتی ہے، آ جاتا ہے۔ وہ اسے اس بزرگ کی کرامت سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ بتوں کی پرستش کا بڑا سبب یہی رہا ہے۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی : ﴿وَاجْنُبْنِى وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ﴾ ”اے اللہ! مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں سے کی پوجا سے بچا لینا“ نیز عرض کی : ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ ”اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے“۔ (إبراهيم: 35-36) اسی طرح کی بات سیدنا نوح علیہ السلام نے بھی کی تھی۔ اب یہ بات تو معلوم ہے کہ پتھر لوگوں کو گمراہ نہیں کر سکتا، ہاں کسی ایسے سبب سے یہ کام ہو سکتا ہے جو ان کی گمراہی کا باعث بنا ہو۔ کسی بت پرست کا یہ اعتقاد نہیں ہو سکتا کہ بتوں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ بلکہ بت پرست تو بتوں کو کئی اسباب سے سفارشی اور وسیلہ بناتے تھے۔ بعض مشرکین نے انبیائے کرام اور نیک اولیاء اللہ کی صورتوں پر بت بنائے ہوئے تھے۔ بعض نے ستاروں، سورج اور ستاروں کی مورتیاں بنا لی تھیں۔ بعض نے یہ مورتیاں جنوں کے لئے اور بعض نے فرشتوں کے لیے بنائی تھیں۔ ان بت پرستوں کا مقصد صرف فرشتوں، انبیائے کرام علیہم السلام، نیک بزرگوں یا سورج اور چاند کی عبادت کرنا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ شیاطین کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ شیاطین ہی انسانوں سے بتوں کی عبادت چاہتے ہیں اور ان کے لیے بسا اوقات ایسی چیزیں ظاہر کرتے ہیں جو ان کو شرک کی طرف بلاتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلائِكَةِ أَهَؤُلاء إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ﴾ ﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾
(سبأ:40-41)
 ”اور اس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے : اللہ تو پاک ہے۔ ان کے خلاف تو ہی ہمارا ولی ہے۔ یہ لوگ تو جنوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لاتے تھے۔“ جب عبادت کرنے والا شیاطین کی عبادت کو جائز نہ سمجھتا ہو تو یہ شیاطین اس کو یہ وہم دیتے ہیں کہ وہ تو صرف ان انبیائے کرام، نیک لوگوں اور فرشتوں وغیرہ کو پکار رہا ہے جن کے بارے میں عبادت گزار کو حسن ظن ہوتا ہے۔ اور اگر عبادت گزار جنوں وغیرہ کی عبادت کو حرام نہ سمجھتا ہو تو اسے بتا دیتے ہیں کہ وہ جن ہی ہیں۔“ (مجموع الفتاوى لا بن تيمية الحرانی : 360/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ مذید فرماتے ہیں :

«وقال تعالى: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا﴾ ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا﴾
 (الإسراء: 56 – 57)
قالت طائفة من السلف: كان أقوام يدعون المسيح وعزيرا والملائكة، قال الله تعالى: هؤلاء الذين تدعونهم عبادي كما أنتم عبادي، ويرجون رحمتي كما ترجون رحمتي، ويخافون عذابي كما تخافون عذابي، ويتقربون إلي كما تتقربون إلي، فإذا كان هذا حال من يدعو الأنبياء والملائكة، فكيف بمن دونهم؟ ! . وقال تعالى: ﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا﴾
(الكهف: 102)

وقال تعالى: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ﴾ ﴿وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ﴾
(سبأ: 22 – 23)
فبين سبحانه أن من دعي من دون الله من جميع المخلوقات من الملائكة والبشر وغيرهم أنهم لا يملكون مثقال ذرة في ملكه، وأنه ليس له شريك في ملكه، بل هو سبحانه له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، وأنه ليس له عون يعاونه كما يكون للملك أعوان وظهراء، وأن الشفعاء عنده لا يشفعون إلا لمن ارتضى، فنفى بذلك وجوه الشرك. وذلك أن من يدعون من دونه إما أن يكون مالكا، وإما أن لا يكون مالكا، وإذا لم يكن مالكا فإما أن يكون شريكا، وإما أن لا يكون شريكا، وإذا لم يكن شريكا فإما أن يكون معاونا وإما أن يكون سائلا طالبا، فالأقسام الأول الثلاثة وهي: الملك، والشركة، والمعاونة منتفية. وأما الرابع: فلا يكون إلا من بعد إذنه، كما قال تعالى: ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾
(البقرة: 255)

وكما قال تعالى: ﴿وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى﴾ 
(النجم: 26) 

وقال تعالى: ﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ﴾ ﴿قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ 
(الزمر: 43 – 44)

وقال تعالى: ﴿اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ﴾ 
(السجدة: 4) 

وقال تعالى: ﴿وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ 
(الأنعام: 51) 

وقال تعالى: ﴿مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْتَدْرُسُونَ﴾ 
(آل عمران: 79)

﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ 
(آل عمران: 80)

فإذا جعل من اتخذ الملائكة والنبيين أربابا كافرا فكيف من اتخذ من دونهم من المشايخ وغيرهم أربابا؟ ! وتفصيل القول: أن مطلوب العبد إن كان من الأمور التي لا يقدر عليها إلا الله تعالى. مثل أن يطلب شفاء مريضه من الآدميين والبهائم أو وفاء دينه من غير جهة معينة، أو عافية أهله، وما به من بلاء الدنيا والآخرة، وانتصاره على عدوه، وهداية قلبه، وغفران ذنبه، أو دخوله الجنة، أو نجاته من النار، أو أن يتعلم العلم والقرآن، أو أن يصلح قلبه ويحسن خلقه ويزكي نفسه، وأمثال ذلك: فهذه الأمور كلها لا يجوز أن تطلب إلا من الله تعالىٰ، ولا يجوز أن يقول لملك ولا نبي ولا شيخ – سواء كان حيا أو ميتا – اغفر ذنبي، ولا انصرني على عدوي، ولا اشف مريضي، ولا عافني أو عاف أهلي أو دابتي، وما أشبه ذلك. ومن سأل ذلك مخلوقا كائنا من كان فهو مشرك بربه، من جنس المشركين الذين يعبدون الملائكة والأنبياء والتماثيل التي يصورونها على صورهم، ومن جنس دعاء النصارى للمسيح وأمه.

قال الله تعالى: ﴿وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (المائدة: 116) الآية.

وقال تعالى: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ 
(التوبة: 31)
وأما ما يقدر عليه العبد فيجوز أن يطلب منه في بعض الأحوال دون بعض؛ فإن مسألة المخلوق قد تكون جائزة، وقد تكون منهيا عنها.

قال الله تعالى: ﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ﴾ ﴿وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ﴾ 
(الشرح: 7 – 8)
وأوصى النبي صلى الله عليه وآله وسلم ابن عباس: إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله»

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : 
﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا﴾ ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا﴾
(الإسراء: 56 – 57)
”اے نبی ! کہہ دیجیئے کہ تم جن لوگوں کو اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو، نہ وہ تم سے کسی تکلیف کے ہٹانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ اسے بدلنے کا۔ جنہیں یہ مشرک لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب تک پہنچنے کا وسیلہ ڈھونڈتے کہ ان میں سے کون اللہ سے قریب تر ہو سکتا ہے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بلاشبہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔“ 

سلف صالحین کے ایک گروہ نے کہا ہے : کچھ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، سیدنا عزیر علیہ السلام اور فرشتوں کو پکارتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو تم پکارتے ہو وہ بھی اسی طرح کے بندے ہیں جس طرح کے تم ہو، وہ بھی میری رحمت کے اسی طرح امیدوار ہیں جس طرح تم ہو، وہ بھی میرے عذاب سے اسی طرح ڈرتے ہیں جس طرح تم ڈرتے ہو اور وہ بھی میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح تم کرتے ہو۔ جب انبیائے کرام اور فرشتوں کو پکارنے والوں کا یہ حال ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہو گا ( جو اولیاء اللہ کو پکارتے ہیں ؟) 

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : 
﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا﴾ 
(الكهف: 102)
”کیا پھر کافروں نے یہ سجھ لیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کارساز بنا لیں گے۔ بلاشبہ ہم نے کافروں کے لیے جہنم کی مہمانی تیار کی ہوئی ہے۔“ 

نیز فرمایا : 
﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ﴾ ﴿وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ﴾
(سبأ: 22 – 23)
”اے نبی ! کہہ دیجئیے کہ تم انہیں پکارو جن کو تم نے اللہ کو چھوڑ کر معبود سمجھ رکھا ہے۔ وہ تو آسمانوں اور زمین میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں ہیں نہ ان کا زمین و آسمان میں کوئی حصہ ہے، نہ ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا معاون ہے۔ اس کے ہاں کسی کی سفارش بھی فائدہ نہیں دیتی۔ ہاں جسے وہ اجازت دے۔“ 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ فرشتوں اور انسانوں میں سے جس مخلوق کو پکارا جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں سے ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی اللہ کے لیے بادشاہت اور تعریف ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ جس طرح بادشاہوں کے معاونین اور مددگار ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا کوئی معاون نہیں، نیز سفارشی اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف اس شخص کی سفارش کر سکیں گے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سفارش کو پسند کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے شرک کی تمام اقسام کی نفی کر دی ہے۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ جس کو مشرکین اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں، وہ یا تو مالک ہو گا یا مالک نہیں ہو گا۔ اگر مالک نہیں ہو گا تو یا وہ شریک ہو گا یا شریک نہیں ہو گا۔ اگر وہ شریک نہیں ہو گا تو یا معاون ہو گا یا سوالی و طالب ہو گا۔ پہی تین اقسام یعنی ملکیت، شرکت اور معاونت تو ممتنع ہیں۔ چوتھی قسم یعنی سفارش صرف اس کی اجازت کے بعد ہو سکتی ہے۔ 

فرمان باری تعالیٰ ہے : 
﴿مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾
(البقرة: 255)
”کون ہے جو اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے ؟“ 

نیز فرمایا : 
﴿وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِى السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِى شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى﴾
(النجم: 26)
”آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں کہ ان کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دیتی مگر اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اور پسند کرے، اجازت دے دے۔“

ایک مقام پر فرمایا : 
﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ﴾ ﴿قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ 
(الزمر: 43 – 44)
”کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ کوئی سفارشی بنا لیے ہیں ؟ کہہ دیجئے کہ اگر وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور کچھ نہ سمجھتے ہوں تو ؟ تمام شفاعت اللہ ہی کے لیے ہے، اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔“ 

نیز فرمایا : 
﴿اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ﴾ 
(السجدة: 4)
”اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے، آسمانوں، زمین اور جو کچھ دونوں کے درمیان ہے، چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ تمہارے لیے اس کے سوا کوئی کارساز اور سفارشی نہیں، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟“ 

نیز فرمایا: 
﴿وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ 
(الأنعام: 51)
”اے نبی ! آپ اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرائیں جو اپنے رب کی طرف جمع کیے جانے سے ڈرتے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی کارساز اور سفارشی نہیں۔ شاید کہ وہ ڈریں۔“ 

نیز فرمایا: 
﴿مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ﴾ ﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ 
(آل عمران: 79، 80)
”کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کرے تو وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وہ کہے گا کہ رب والے بن جاؤ، کیونکہ تم اس کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو۔ اور وہ تمہیں اس بات کا حکم نہیں دے گا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو۔ کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا جبکہ تم مسلمان ہو چکے ہو ؟“ 

پس جب فرشتوں اور نبیوں کو اللہ کے علاوہ رب بنانے والا کافر قرار دیا گیا ہے تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے نبیوں اور فرشتوں سے ادنیٰ شیوخ وغیرہم کو رب بنا لیا ہے ؟ اس بات کی تفصیل یہ ہے کہ اگر بندے کا مطلوب ایسی چیز ہو جس پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہو تو ایسے امور صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیے جا سکتے ہیں، مثلاً بیمار انسانوں یا جانوروں کے لیے شفاء کی طلب، اپنے قرض کی غیر معین جہت کے ادائیگی، اپنے گھر والوں کی عافیت، دنیا و آخرت کی آزمائشوں سے چھٹکارا، دشمن پر غلبہ، دل کی ہدایت، گناہوں کی معافی، جنت میں دخول، جہنم سے آزادی، علم اور قرآن کریم کی تعلیم کا حصول، دل کی اصلاح، حسن اخلاق، تزکیہ نفس وغیرہ۔ کسی بادشاہ، نبی یا شیخ سے، وہ زندہ ہو یا مردہ، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے گناہ معاف کر دے، میرے دشمنوں پر مجھے غلبہ دے دے، میرے مریض کو شفاء دے دے، مجھے عافیت دے دے یا میرے گھر والوں یا میرے جانوروں کو صحت دے دے وغیرہ وغیرہ۔ جس شخص نے کسی بھی مخلوق سے ان میں سے کوئی چیز مانگی وہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے والا ہے، بالکل اسی طرح جیسے وہ مشرک جو فرشتوں، انبیائے کرام اور ان مورتیوں کی عبادت کرتے ہیں جو فرشتوں اور انبیائے کرام کی صورتوں پر بنائی گئی ہیں اور بالکل ایسے ہی جیسے نصاریٰ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو پکارتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : 
﴿وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ 
(المائدة: 116)
”جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا دو الٰہ بنا لو؟“ 

نیز فرمایا : 
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ 
(التوبة: 31)
”انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں اور عیسیٰ بن مریم کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنا لیا تھا، حالانکہ ان کو صرف ایک ہی الٰہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بری ہے۔“ 

اب رہیں وہ چیزیں جن پر بندے قادر ہوتے ہیں تو ایسی چیزیں بسا اوقات بندوں سے مانگی جا سکتی ہیں۔ مخلوق سے مانگنا کبھی جائز ہوتا ہے اور کبھی ممنوع۔ 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : 
﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ﴾ ﴿وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ﴾ 
(الشرح: 7 – 8)
”جب آپ فارغ ہوں تو محنت کیجئیے اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کیجئے۔“ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو۔“ 
( زيارة القبور والاستجاد بالمقبور لا بن تيمية :5-11 )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے