سوال: عورت کے لیے پیغام نکا ح بھیجنے والے پر کون سی شرائط عائد کرنا مشروع ہے؟ کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ شرط لگائے کہ وہ اس کو الگ گھر بنا کر دے تاکہ وہ اپنے خاوند کے بھائیوں کے ساتھ اختلاط سے بچ سکے اور اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کرتے ہوئے ان کو بگاڑ سے بچا سکے؟
جواب: اگر تو اس کا اپنے خاوند کے قریبیوں سے دور رہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہے گی تو ان سے (ناجائز) اختلاط کا شکار ہو جائے گی تو اس کے الگ گھر کی شرط لگانے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر یہ مقصد نہیں ہے تو وہ یاد رکھے کہ اللہ رب العزت اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
«أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ» [64-الطلاق: 6]
”انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق۔“
لہٰذا اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ خاوند کو ایسا الگ گھر بنانے کی تکلیف دے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو، اور عورتوں میں سے بہتر عورتیں وہ ہیں جو کم خرچ کرنے والی ہوں۔ لہٰذا اس کو چاہے کہ وہ اپنے خاوند سے وہی مطالبے کرے جن کی وہ استطاعت رکھتا ہو۔
ام سلیم، کیا کہنے ام سلیم کے؟ جب ابوطلحہ نے (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) ان سے شادی کرنے کی خواہش کی تو ام سلیم نے کہا: اے ابو طلحہ ! تیرے جیسے ذی وقار اور مالدار سردار کے پیغام نکاح کو رد نہیں کیا جاتا، لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ تم کافر ہو اور میں مسلمان ہوں اور مسلمان عورت کا کافر آدمی سے نکا ح جائز نہیں ہے۔ ابوطلہ نے کہا: میں اس معاملے میں غور و فکر کروں گا۔ پھر ابوطلہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور ام سلیم سے شادی کر لی اور ابو طلحہ کے اسلام قبول کرنے کو ہی ام سلیم کا حق مہر مقرر کیا گیا۔ اس وقت یہ بات مشہور تھی کہ مسلمانوں میں ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بہتر کسی کا حق مہر نہیں ہے۔ لہٰذا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی معاون و مددگار بن کر رہے جیسا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کیا کرتی تھی۔
رہی (مناسب اور لائق) شرطیں تو وہ اس پر شرط لگائے کہ وہ اس کو رہائش فراہم کرے، اور مفید علم کے حصول میں اس کی مدد کرے اور گھر میں ایسے آلات لہو و لعب اور آلات موسیقی نہ لائے جو اس کے اور اس کی اولاد کے بگاڑ کا سبب بنیں۔ ان تمام چیزوں سے قطع نظر اس کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ نیک آدمی کو اپنے نکا ح کے لیے منتخب کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک فاسق و فاجر آدمی جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی ہے، بوقت نکاح اس کی شرطیں مان لے اور بعد میں ان کو پور انہ کرے۔ [مقبل بن ها دي الوادعي رحمه الله]
جواب: اگر تو اس کا اپنے خاوند کے قریبیوں سے دور رہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہے گی تو ان سے (ناجائز) اختلاط کا شکار ہو جائے گی تو اس کے الگ گھر کی شرط لگانے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر یہ مقصد نہیں ہے تو وہ یاد رکھے کہ اللہ رب العزت اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
«أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ» [64-الطلاق: 6]
”انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق۔“
لہٰذا اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ خاوند کو ایسا الگ گھر بنانے کی تکلیف دے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو، اور عورتوں میں سے بہتر عورتیں وہ ہیں جو کم خرچ کرنے والی ہوں۔ لہٰذا اس کو چاہے کہ وہ اپنے خاوند سے وہی مطالبے کرے جن کی وہ استطاعت رکھتا ہو۔
ام سلیم، کیا کہنے ام سلیم کے؟ جب ابوطلحہ نے (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) ان سے شادی کرنے کی خواہش کی تو ام سلیم نے کہا: اے ابو طلحہ ! تیرے جیسے ذی وقار اور مالدار سردار کے پیغام نکاح کو رد نہیں کیا جاتا، لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ تم کافر ہو اور میں مسلمان ہوں اور مسلمان عورت کا کافر آدمی سے نکا ح جائز نہیں ہے۔ ابوطلہ نے کہا: میں اس معاملے میں غور و فکر کروں گا۔ پھر ابوطلہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور ام سلیم سے شادی کر لی اور ابو طلحہ کے اسلام قبول کرنے کو ہی ام سلیم کا حق مہر مقرر کیا گیا۔ اس وقت یہ بات مشہور تھی کہ مسلمانوں میں ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بہتر کسی کا حق مہر نہیں ہے۔ لہٰذا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی معاون و مددگار بن کر رہے جیسا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کیا کرتی تھی۔
رہی (مناسب اور لائق) شرطیں تو وہ اس پر شرط لگائے کہ وہ اس کو رہائش فراہم کرے، اور مفید علم کے حصول میں اس کی مدد کرے اور گھر میں ایسے آلات لہو و لعب اور آلات موسیقی نہ لائے جو اس کے اور اس کی اولاد کے بگاڑ کا سبب بنیں۔ ان تمام چیزوں سے قطع نظر اس کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ نیک آدمی کو اپنے نکا ح کے لیے منتخب کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک فاسق و فاجر آدمی جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی ہے، بوقت نکاح اس کی شرطیں مان لے اور بعد میں ان کو پور انہ کرے۔ [مقبل بن ها دي الوادعي رحمه الله]