سوال: ایک عورت نے شادی کی، عقد نکاح میں اس کا ماموں اس کا ولی تھا، وہ اس عقد کی صحت کے متعلق سوال کرتی ہے۔
جواب: یہ نکاح ولی کے نہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے، کیونکہ ولی کا ہونا نکاح کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے، رہا ماموں تو وہ نکاح میں ولی نہیں بن سکتا۔ اور جب ولی نہ ہو تو نکاح فاسد ہوتا ہے، جمہور اہل علم کا یہی قول ہے اور (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے) مذہب میں بھی مشہور قول یہی ہے۔
اہل علم نے اپنے اس قول کی دلیل اس حدیث سے لی ہے جو ابو موسی اشعری نے روایت کی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لانکاح إلا بولی» [صحيح۔ سنن أبى داود 2085 سنن الترمذي، رقم الحديث 1101]
’’ ولی کے بغیر نکاح (صحیح) نہیں ہے“
اس کو احمد اور اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور ابن مدینی نے اس کو صحیح کہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن وليها فنكا حها باطل، باطل، باطل، فإن دخل بها، فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له»
[صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 2083]
”جو عورت اپنے ولی کی ا جازت کے بغیر خود اپنا نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ پس اگر مرد نے (ولی کی ا جازت کے بغیر کیے جانے والے نکاح کے ذریعہ) اس عورت سے دخول کیا تو مرد کے اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کی وجہ سے عورت حق مہر کی مستحق ہوگی، اور اگر ان کا ولی کے متعلق اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے۔“
اس کو احمد، ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی یہ دعوی کرے کہ اس سے دھوکا ہوا ہے تو اس کی سماعت کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر ان دونوں میں سے ہر ایک (ولی کے بغیر کیے گئے) نکاح کو باقی رکھنا چاہتا ہو تو (ولی کی اجازت سے) ان کانیا نکاح کیا جائے گا اور عورت کو عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس عورت کے حرم میں اسی مرد کا پانی داخل ہوا ہے۔ اور اگر وہ اس نکاح کو جاری نہیں رکھنا چاہتے تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی، اور مرد پر لازم ہوگا کہ وہ اس عورت کو طلاق دے، کیونکہ فاسد نکاح طلاق کا محتاج ہوتا ہے، پھر اگر مرد طلاق دینے سے انکار کرے تو قاضی اس نکا ح کو فسخ کر دے گا۔ (محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ)
جواب: یہ نکاح ولی کے نہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے، کیونکہ ولی کا ہونا نکاح کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے، رہا ماموں تو وہ نکاح میں ولی نہیں بن سکتا۔ اور جب ولی نہ ہو تو نکاح فاسد ہوتا ہے، جمہور اہل علم کا یہی قول ہے اور (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے) مذہب میں بھی مشہور قول یہی ہے۔
اہل علم نے اپنے اس قول کی دلیل اس حدیث سے لی ہے جو ابو موسی اشعری نے روایت کی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لانکاح إلا بولی» [صحيح۔ سنن أبى داود 2085 سنن الترمذي، رقم الحديث 1101]
’’ ولی کے بغیر نکاح (صحیح) نہیں ہے“
اس کو احمد اور اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور ابن مدینی نے اس کو صحیح کہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن وليها فنكا حها باطل، باطل، باطل، فإن دخل بها، فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له»
[صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 2083]
”جو عورت اپنے ولی کی ا جازت کے بغیر خود اپنا نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ پس اگر مرد نے (ولی کی ا جازت کے بغیر کیے جانے والے نکاح کے ذریعہ) اس عورت سے دخول کیا تو مرد کے اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کی وجہ سے عورت حق مہر کی مستحق ہوگی، اور اگر ان کا ولی کے متعلق اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے۔“
اس کو احمد، ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی یہ دعوی کرے کہ اس سے دھوکا ہوا ہے تو اس کی سماعت کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر ان دونوں میں سے ہر ایک (ولی کے بغیر کیے گئے) نکاح کو باقی رکھنا چاہتا ہو تو (ولی کی اجازت سے) ان کانیا نکاح کیا جائے گا اور عورت کو عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس عورت کے حرم میں اسی مرد کا پانی داخل ہوا ہے۔ اور اگر وہ اس نکاح کو جاری نہیں رکھنا چاہتے تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی، اور مرد پر لازم ہوگا کہ وہ اس عورت کو طلاق دے، کیونکہ فاسد نکاح طلاق کا محتاج ہوتا ہے، پھر اگر مرد طلاق دینے سے انکار کرے تو قاضی اس نکا ح کو فسخ کر دے گا۔ (محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ)