بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
إن الحمد لله نحمده ونستعينه من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
● اللہ کے وجود پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾
﴿القصص: 30﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پس جب موسیٰؑ پہنچے تو انہیں ایک درخت سے جو میدان کے داہنی جانب زمین کے ایک مبارک قطعہ میں تھا یہ آواز آئی کہ اے موسیٰ یقیناً میں ہی اللہ رب العالمین ہوں۔‘‘
وَقَالَ الله تَعَالَى: ﴿ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾
﴿طهٰ: 14﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، پس میری عبادت کرو اور نماز میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾
﴿الاعراف: 54﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا ، وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں آگاہ رہو، اسی کے لیے تخلیق و فرماں روائی کا حق ہے، بابرکت ہے اللہ کی ذات جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
حدیث 1:
﴿عن أنس بن مالكؓ ، أن أعرابيا دخل يوم الجمعة والنبى ﷺ يخطب، فقال يا رسول للہ! هلك المال وجاع العیال ، فادع الله لنا، فرفع يديه ودعا ، فثار السحاب أمثال الجبال ، فلم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته، وفى الجمعة الثانية قام ذالك الأعرابي أو غيره، فقال: يا رسول الله ، هدم البناء وغرق المال ، فادع الله لنا ، فرفع يديه وقال: اللهم حوالينا ولا علينا﴾
صحيح البخارى، كتاب الاستسقاء، باب من تمطر فى المطر حتى يتحادر على لحيته، رقم : 1033 – صحیح مسلم، كتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الإستسقاء رقم :2078.
’’حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی جمعہ کے دن جب رسول الله ﷺ خطبہ دے رہے تھے، آیا اور عرض کرنے لگا، اے اللہ کے رسول! بارش نہ ہونے کی وجہ سے مال ہلاک ہو گیا، عیال بھوکے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں، آپ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی، پس بادل پہاڑوں کی طرح امڈ کر آنے لگے، ابھی آپ اپنے منبر سے بھی نہیں اترے تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش آپ کی ڈاڑھی مبارک پر بہہ رہی ہے، دوسرے جمعہ پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور کھڑا ہوا، پس اُس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! (بارش کی کثرت کے بناء پر) عمارتیں گر گئیں ہیں اور مال غرق ہو گیا، پس اللہ سے ہمارے لیے دعا کریں۔ پس آپ نے ہاتھ اُٹھا لیے، اور کہا اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہم پر نہ برسا‘‘
● اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾
﴿الرعد: 16﴾
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’کہہ دیجیے کون ہے پروردگار آسمانوں اور زمین کا ، کہہ دیں اللہ، آپ کہیں کیا تم اللہ کے علاوہ مددگار بناتے ہو جو اپنے لیے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ﴾
﴿الاعراف : 172﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی تمام اولاد کو نکالا اور ان کو خود انہی پر گواہ بنایا اور پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، ہم اس پر گواہ ہیں (اقرار اس لیے لیا) کہ تم قیامت کے دن کہہ دو کہ ہم اس بات سے بالکل بے خبر تھے۔‘‘
حدیث 2:
﴿و عن أبى بن كعب ، فى قول الله عز وجل: (وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ) قال : جمعهم فجعلهم أزواجا ، ثم صورهم فاستنطقهم ، فتكلموا ثم أخذ عليهم العهد والميثاق ، ( وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ) قالوا: بلى . قال : فإنى أشهد عليكم السماوات السبع والأرضين السبع ، وأشهد عليكم آباكم آدم أن تقولوا يوم القيامة: لم تعلم بهذا، اعلموا أنه لا إله غيري، ولا رب غيرى ولا تشركوا بى شيئا، إنى سأرسل إليكم رسلى يذكرونكم عهدى وميثاقى، وأنزل عليكم كتبى . قالوا: شهدنا بأنك ربنا وإلهنا لارب لنا غيرك ، ولا إله لنا غيرك. فأقروا بذلك، ورفع عليهم آدم عليه السلام ينظر إليهم ، فرأى الغني والفقير، وحسن الصورة ودون ذلك . فقال : رب لولا سويت بين عبادك قال : إني أحببت أن أشكر . وراى الأنبياء فيهم مثل السرج عليهم النور، خصوا بميثاق آخر فى الرسالة والنبوة ، وهو قوله تبارك وتعالى (وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ) إلى قوله (عِيسَى ابْنُ مَرْيَمُ) كان فى تلك الأرواح ، فأرسله إلى مريم عليها السلام فحدث عن أبى : أنه دخل من فيها .﴾
مسند أحمد : 135/5- شیخ حمزہ زین نے اسے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔
اور سید نا ابی بن کعبؓ نے اللہ عزوجل کے فرمان ’’اور جب تیرے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا‘‘ کی تفسیر بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو (نکالنے کے بعد) جمع کیا اور ان کو مذکر و مؤنث بنایا ، ان کو مختلف اقسام میں کیا پھر انہیں شکل عطا کی اور انہیں بلوایا۔ انہوں نے (اللہ کی مشیت کے مطابق) بات کی۔ بعد ازاں ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں ان کی ذات پر گواہ بنایا کہ ’’کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟‘‘ انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے گواہی دی (پھر) اللہ نے فرمایا:
میں تم پر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو گواہ بناتا ہوں نیز تم پر تمہارے باپ آدم کو گواہ بناتا ہوں کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں تو اس کا علم نہ تھا یقین کرو کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور نہ میرے علاوہ کوئی پروردگار ہے، میرے ساتھ تمہیں کسی کو شریک نہیں کرنا ہوگا یقیناً میں تمہاری جانب اپنے پیغمبروں کو بھیجتا رہوں گا جو تمہیں میرے ساتھ ( کیا ہوا) عہد و پیمان یاد دلاتے رہیں گے اور تم پر اپنی کتابوں کو نازل کروں گا۔ انہوں نے کہا، ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار اور معبود ہے، تیرے سوا ہمارا کوئی پروردگار نہیں ہے اور تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان باتوں کا اقرار کیا اور آدمؑ اونچا کر کے سب کو دکھائے گئے ، آدمؑ ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا (ان میں) مالدار اور فقیر ہیں نیز خوبصورت اور بدصورت ہیں۔ آدمؑ نے استفسار کیا، اے میرے پروردگار! تو نے اپنے بندوں کو مساوی کیوں نہیں کیا۔ اللہ نے جواب دیا، میں نے چاہا کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے۔ نیز آدمؑ نے ان انبیاءؑ کو دیکھا کہ وہ روشن قندیلیں ہیں، ان کی روشنی نمایاں ہے ان سے خصوصی عہد و میثاق لیا گیا جس کا تعلق رسالت و نبوت کے ساتھ تھا۔ اس کی وضاحت اللہ کے اس ارشاد میں ہے کہ ’’جب ہم نے انبیاءؑ سے عہد و پیمان لیا‘‘ سے اللہ کے قول ’’عیسیٰ بن مریم‘‘ تک پڑھا یعنی عیسیٰؑ بھی ان ارواح میں تھے کہ ان کی روح کو مریمؑ کی جانب بھیجا پس بیان کیا گیا ہے کہ عیسیٰؑ کی روح مریمؑ کے منہ سے (رحم میں) داخل کی گئی۔‘‘
● اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
﴿آل عمران: 18﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’خود اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی شان یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ انتظام کرنے والا ہے اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی اس کی گواہی دی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زبردست، حکمت والا ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾
﴿الانبياء :87﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پس اس نے پکارا اندھیریوں میں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، پاک ہے تو ، بے شک میں ہی قصور وار ہوں۔‘‘
حدیث 3:
﴿وعن سعدؓ ، قال : قال رسول الله ﷺ: دعوة ذى النون إذا دعا ربه وهو فى بطن الحوت (لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين) لم يدع بها رجل مسلم فى شيء إلا استجاب الله له﴾
سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم: 3505 مسند احمد : 170/1 – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور سیدنا سعدؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یونسؑ کی دعا جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے (جس کا ترجمہ ہے) ’’تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو پاک ہے جب کہ میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘ جو مسلمان بھی ان کلمات کے ساتھ دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
● اللہ تعالی کے اسماء و صفات پر ایمان لانا
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
﴿الاعراف: 180﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور اللہ کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، پس اس کو انہی سے پکارو، اور چھوڑ دو ان کو جو کج روی کرتے ہیں اللہ کے ناموں میں۔ عنقریب انہیں بدلہ دیا جائے گا اس کا جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىۚ﴾
﴿الاسراء : 110﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’کہہ دیجیے تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان، جس سے بھی پکارو اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔‘‘
حدیث 4:
﴿وعن أبى هريرةؓ ، قال : قال رسول الله ﷺ: إن لله تعالى تسعة وتسعين إسما من أحصاها دخل الجنة ، هو الله الذى لا إله إلا هو، الرحمن الرحيم، الملك القدوس، السلام، المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر ،الخالق ، البارئ المصور الغفار القهار، الوهاب، الرزاق ، الفتاح العليم، القابض الباسط ، الخافض ، الرافع المعز ، المذل ، السميع البصير ، الحكم العدل، اللطيف، الخبير، الحليم، العظيم، الغفور، الشكور، العلي الكبير، الحفيظ، المقيت، الحسيب الجليل، ، الكريم ، الرقيب المجيب الواسع ، الحكيم، الودود ، المجيد الباعث الشهيد الحق ، الوكيل القوي ، المتين ، الولي ، الحميد، المحصى، المبديء ، المعيد، المحيى، المميت، الحي القيوم، الواحد الماجد، الواحد، الاحد الصمد القادر المقتدر ، المقدم، المؤخر، الاول، الآخر، الظاهر، الباطن الولي، المتعالى البر التواب المنتقم، العفو ، الرؤوف، مالك ، الملك ، ذو الجلال والاكرام المقسط ، الجامع ، الغني، المغني ، المانع ، الضار ، النافع النور الهادي البديع ،الباقى ، الوارث ، الرشيد الصبور﴾
سنن الترمذى، ابواب الدعوات، رقم : 3507.
اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بلا شبہ اللہ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کو یاد کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اللہ وہ ذات ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے، بادشاہ (عیوب سے) پاک سلامتی والا ہے، امن عطا کرنے والا ہے، حفاظت کرنے والا ہے، غالب ہے، (بندوں کو) مغلوب کرنے والا ہے، کبریائی والا ہے، پیدا کرنے والا ہے، (بلا نمونہ) پیدا کرنے والا ہے،صورتیں بنانے والا ہے (گناہوں پر) پردہ ڈالنے والا ہے، (تمام مخلوق پر) غالب ہے، بہت انعامات دینے والا ہے، رزق عطا کرنے والا ہے، (اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے والا ہے، علم والا ہے، (رزق میں) تنگی کرنے والا ہے، (رزق میں) فراخی کرنے والا ہے، (سرکشوں کو) نیچا کرنے والا ہے، (اپنے دوستوں کو) اونچا کرنے والا ہے، عزت عطا کرنے والا ہے، ذلت کے ساتھ ہمکنار کرنے والا ہے، سننے والا ہے، دیکھنے والا ہے، فیصلے کرنے والا ہے، عدل کرنے والا ہے، باریک بین ہے، (پوشیدہ چیزوں کی) خبر رکھنے والا ہے، حلم والا ہے، عظمت والا ہے، ( گناہوں پر) پردہ ڈالنے والا ہے، قدردان ہے، اونچی شان والا والا ہے، بڑی شان والا ہے، حفاظت کرنے والا ہے، روزی رساں ہے، کافی ہے، جلال والا ہے، سخی ہے، نگہبان ہے (اس سے کوئی چیز اوجھل نہیں)، (دعاؤں کو) قبول کرنے والا ہے، فراخی والا ہے، دانائی والا ہے، (اپنے نیک بندوں سے) محبت کرنے والا ہے، شرف والا ہے، (مرنے کے بعد) اٹھانے والا ہے، اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اس کا وجود حق ہے، کارساز ہے، قوت والا ہے، شدید قوت والا ہے، مدد کرنے والا ہے، حمد وثناء کے لائق ہے، احاطہ کرنے والا ہے، بلا نمونہ بنانے والا ہے، لوٹانے والا ہے، زندہ کرنے والا ہے، مارنے والا ہے، زندہ ہے، قائم ہے، غنی ہے، بزرگی والا ہے، ایک ہے، تنہا ہے، بے نیاز ہے، قدرت والا ہے، اقتدار والا ہے، آگے کرنے والا ہے، ہے کرنے والا ہے، (ہر چیز سے) پہلے ہے، (اور ہر چیز سے) آخر ہے، (ہر چیز پر) غالب ہے، پوشیدہ ہے، (سب چیزوں کا) مالک ہے، بلند ہے، احسان کرنے والا ہے، تو بہ قبول کرنے والا ہے، سزا دینے والا ہے، معاف کرنے والا ہے، شفقت کرنے والا ہے، شہنشاہ ہے، عظمت والا ہے اور عزت والا ہے، انصاف کرنے والا ہے، تمام مخلوق کو اکٹھا کرنے والا ہے، (ہر چیز سے) بے پرواہ ہے، غنی کرنے والا ہے، (ہلاکت کے) اسباب کو روکنے والا ہے، دشمنوں کے لیے ضرر رساں ہے اور دوستوں کو فائدہ دینے والا ہے، روشنی والا ہے، ہدایات دینے والا ہے، (بغیر نمونے کے) پیدا کرنے والا ہے، باقی رہنے والا ہے، وارث ہے، راہنمائی کرنے والا ہے (نافرمانیوں کو دیکھ کر) صبر کرنے والا ہے۔
حدیث 5:
﴿وعن أبى هريرةؓ أن رسول الله ﷺ قال: يضحك الله إلى رجلين: يقتل أحدهما الآخر، يدخلان الجنة، يقاتل هذا فى سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيستشهد .﴾
صحیح بخاری، کتاب الجهاد والسير باب الكافر يقتل المسلم ثم يسلم فيسدد بعد ويقتل ، رقم : 2826 صحيح مسلم، كتاب الامارة، باب بيان الرجلين يقتل احدهما الآخر يدخلان الجنة رقم : 4892.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہنستا ہے ان دو آدمیوں پر کہ ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے مگر دونوں جنت میں جاتے ہیں، ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو تو بہ نصیب کرتا ہے چنانچہ وہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہو جاتا ہے۔‘‘
● فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾
﴿النساء: 136﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل کیں سب پر ایمان لاؤ، اور جس نے اللہ، اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کیا تو وہ راہ راست سے بہت دور جا پڑا ۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ﴾
﴿البقرة : 98﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص دشمن ہوا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کا تو بے شک اللہ دشمن ہے ایسے کافروں کا ۔‘‘
حدیث 6:
﴿وعن أبى سلمة بن عبد الرحمن بن عوف قال: سألت عائشة أم المؤمنين: باى شيء كان نبي الله صلى الله عليه وسلم يفتتح صلاته إذا قام من الليل؟ قالت: كان إذا قام من الليل افتتح صلوته: اللهم رب جبرائيل وميكائيل وإسرائيل، فاطر السموات والأرض ، عالم الغيب والشهادة، أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون، اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنك تهدى من تشاء إلى صراط مستقيم .﴾
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين ،وقصرها باب صلاة النبي ﷺ ودعائه في الليل، رقم : 1811، سنن النسائى ، كتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب بأى شيء يستفتح صلاته بالليل : 1625.
’’اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں، میں نے اُم المومنین سیدہ عائشہؓ سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کس طرح نماز شروع فرماتے تھے جب رات میں کھڑے ہوتے ؟ جواباً ام المومنینؓ نے ارشاد فرمایا کہ جب رات کے وقت نماز کے لیے آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو (ان الفاظ سے) اپنی نماز شروع فرماتے۔ اے اللہ ! جو جبرئیل، میکائیل، اسرافیل کا رب ہے، جس نے آسمانوں او زمین کو بنایا ہے، جو پوشیدہ اور ظاہر باتوں کو جاننے والا ہے، آپ اپنے بندوں کے درمیان اس چیزوں کا فیصلہ فرما دیں گے جن میں وہ اختلاف کرتے تھے، یا اللہ مجھے اپنی عنایت سے، اختلافی امور میں سے حق کی ہدایت عطا فرما۔ تو جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔‘‘
حدیث 7:
﴿وعن أبى هريرةؓ أن رسول الله ﷺ قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ، ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر .﴾
صحیح البخارى، كتاب الصلاة، باب فضل صلاة العصر، رقم : 555.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دن اور رات کے فرشتے باری باری تم میں آتے ہیں، اور نماز فجر اور نماز عصر میں دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔‘‘
● فرشتوں کے ناموں پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ﴾
﴿البقرة: 98﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص دشمن ہوا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کا تو بے شک اللہ دشمن ہے ایسے کافروں کا ۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُم مَّاكِثُونَ﴾
﴿الزخرف: 77﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور اہل جہنم پکاریں گے اے مالک تیرا رب کسی طرح ہمارا کام تمام کر دے، مالک جواب میں کہے گا تم کو اسی حال میں رہنا ہے۔‘‘
حدیث 8:
﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: إذا قبر : الميت أو قال: أحدكم – أتاه ملكان أسودان أزرقان ، يقال لأحدهما المنكر وللآخر النكير.﴾
سنن الترمذى كتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، رقم : 1071 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1391۔
اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو کالے رنگ، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں، ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔
● فرشتوں کی صفات پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ﴾
﴿يوسف: 31﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پس جب ان خواتین نے یوسفؑ کو دیکھا تو حیران ہوگئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور کہنے لگیں، حاش اللہ ! یہ تو انسان نہیں ، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہی ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ یُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ هُمْ لَا یَسْــٴَـمُوْنَ﴾
﴿حم السجدة: 38﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور جو فر شتے اللہ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ وہ تھکتے ہیں، وہ رات دن اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس سے رکتے نہیں ۔‘‘
حدیث 9:
﴿وعن عائشة قالت: قال رسول الله ﷺ: خلقت الملائكة من نور، وخلق الجان من مارج من نار ، وخلق آدم مما وصف لكم .﴾
صحيح مسلم، کتاب الزهد والرقائق، رقم : 7495.
اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ملائکہ نور سے پیدا کیے گئے ہیں، اور جنات آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں سے اور آدم کی تخلیق کے بارے میں تفصیل تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے۔
حدیث 10:
﴿وعن عبد الله مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى قال: رأى رسول الله جبريل فى حلة من رفرف قد ملا ما بين السماء والأرض﴾
سنن ترمذی، ابواب التفسير ، رقم : 3283- محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اور سید نا عبداللہؓ سے اس آیت ’’مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى‘‘ کے متعلق منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریلؑ کو رفرف کے جوڑے میں دیکھا کہ انہوں نے آسمان وزمین کی درمیانی جگہ بھر دی تھی۔‘‘
● فرشتوں کے اعمال پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ ﴿١٦٤﴾ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ﴿١٦٥﴾ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ﴿١٦٦﴾﴾
﴿الصافات: 164 تا 166﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور فرشتے کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کا معین مقام ہے، اور ہم تو صف بستہ کھڑے ہونے والے ہیں اور ہم تو پاکی بیان کرنے والے ہیں۔‘‘
حدیث 11:
﴿وعن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله ﷺ: ما فى السموات السبع موضع قدم ولا شبر ولا كت إلا وفيه ملك قائم ، أو ملك راكع ، أو ملك ساجد ، فإذا كان يوم القيامة قالوا جميعا: سبحانك ما عبدناك حق عبادتك إلا أنا لم نشرك بك شيئا .﴾
معجم كبير للطبراني : 184/2 – محقق نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساتوں آسمانوں میں ایک پاؤں یا ایک بالشت بھر یا ایک ہتھیلی کے برابر بھی جگہ نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ قیام، رکوع یا سجدہ کی حالت میں نہ ہو، پس جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ سب کہیں گے۔ اے اللہ ! تو پاک ہے، جیسا آپ کی عبادت کا حق تھا، ہم ویسے عبادت نہ کر سکے، البتہ ہم نے آپ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔‘‘
● اللہ تعالیٰ کی کتابوں کے نزول پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ﴾
﴿النساء : 136﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل کیں سب پر ایمان لاؤ۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ﴾
﴿الانعام 91﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’جب انہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ آپ پوچھیں کہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لائے تھے جو لوگوں کے لیے نور و ہدایت ہے، تم نے اس کو مختلف اوراق میں لکھ رکھا ہے، اس میں سے کچھ ظاہر کرتے ہو اور اکثر تم چھپاتے ہو۔ اور تمہیں سکھایا جو نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا ، آپ خود ہی کہہ دیں اللہ (نے ہی نازل کی) پھر انہیں چھوڑ دیں کہ وہ اپنی بیودہ خرافات میں مشغول رہیں۔‘‘
حدیث 12:
﴿وعن عبد الله بن عمر أنه سمع رسول الله ﷺ يقول: إنما بقاؤكم فيما سلف قبلكم من الأمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس ، أوتي أهل التوراة التوراة، فعملوا حتى إذا انتصف النهار عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ، ثم أوتي أهل الإنجيل الإنجيل، فعملوا إلى صلاة العصر ثم عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا، ثم أوتينا القرآن فعملنا إلى غروب الشمس فأعطينا قيراطين قيراطين ، فقال أهل الكتابين: أى ربنا أعطيت هؤلاء قيراطين قيراطين وأعطيتنا قيراطا قيراطا، ونحن كنا أكثر عملا ، قال الله عز وجل: هل ظلمتكم من أجركم من شيء؟ قالوا: لا ، قال: فهو فضلى أوتيه من أشاء .﴾
صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلاة، باب من أدرك ركعة من العصر قبل الغروب، رقم : 557.
اور سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، بے شک انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ بے شک دوسری امتوں کی نسبت تمہاری مدت ایسے ہے جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت، اہل تورات کو تورات دی گئی انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ جب نصف النہار ہو گیا تو وہ عاجز آگئے تو انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے عصر تک کام کیا پھر وہ بھی عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ پھر ہمیں قرآن دیا گیا تو ہم نے غروب شمس تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے، تو اہل تو رات اور اہل انجیل نے عرض کیا:
اے ہمارے رب! ان کو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک قیراط، حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ عمل کیا ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا:
کیا میں نے تمہارے اجر میں کچھ ظلم کیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس یہ تو میر افضل ہے۔ جس کو میں چاہتا ہوں دیتا ہوں۔
● کتابوں کے ناموں پر ایمان لانا
قالَ الله تَعَالَى: ﴿قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ﴾
﴿الانعام : 91﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’آپ پوچھیں کہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لائے تھے جو لوگوں کے لیے نور و ہدایت ہے، تم نے اس کو مختلف اوراق میں لکھ رکھا ہے، اس میں سے کچھ ظاہر کرتے ہو اور اکثر تم چھپاتے ہو۔ اور تمہیں سکھایا جو نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا ، آپ خود ہی کہہ دیں اللہ (نے ہی نازل کی) پھر انہیں چھوڑ دیں کہ وہ اپنی بیودہ خرافات میں مشغول رہیں۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّا اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِينَ مِنْ بَعْدِهِ وَ اَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَ أَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهُرُونَ وَسُلَيْمَنَ وَأَتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا﴾
﴿النساء : 163﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’یقینا ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔‘‘
حدیث 13:
﴿وعن البراء بن عازب قال: مر على النبى ﷺ بيهودى محمما مجلودا ، فدعاهم فقال: هكذا تجدون حد الزاني فى كتابكم؟ قالوا: نعم فدعا رجلا من علمائهم ، فقال: أنشدك بالله الذى أنزل التوراة على موسى أهكذا تجدون حد الزاني فى كتابكم؟ قال: لا ، ولولا أنك نشدتني بهذا لم أخبرك، نجده الرجم ، ولكنه كثر فى أشرافنا، فكنا إذا أخذنا الشريف تركناه، وإذا أخذنا الضعيف أقمنا عليه الحد﴾
صحیح بخاری کتاب الحدود، رقم : 6819 ، بمعناه .
اور سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے، جناب رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے یہودی گزرا کوئلے سے کالا کیا ہوا اور کوڑے سے سزا یافتہ ۔ آپ نے یہودیوں کو بلایا۔ اور ارشاد فرمایا:
کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا:
ہاں، پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک شخص کو بلایا، اور فرمایا:
میں تجھ کو قسم دیتا ہوں اللہ کی جس نے اتارا تو رات کو موسیٰؑ پر کیا تمہاری کتاب میں زنا کی یہی حد ہے؟ وہ بولا نہیں۔ اور اگر آپ مجھ کو یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ ہماری کتاب میں تو زنا کی حد رجم ہے، لیکن ہم میں عزت دار لوگ بہت زنا کرنے لگے تو جب ہم کسی بڑے آدمی کو زنا میں پکڑتے تو اس کو چھوڑ دیتے، اور جب غریب آدمی کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کرتے۔
● ان کتابوں کی اخبار کی تصدیق کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا ﴿٨٣﴾ إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا ﴿٨٤﴾ فَأَتْبَعَ سَبَبًا ﴿٨٥﴾ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا ﴿٨٦﴾ قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا ﴿٨٧﴾ وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ۖ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا ﴿٨٨﴾ ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا ﴿٨٩﴾ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا ﴿٩٠﴾ كَذَٰلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا ﴿٩١﴾ ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا ﴿٩٢﴾ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا ﴿٩٣﴾ قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ﴿٩٤﴾ قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ﴿٩٥﴾ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا سَاوَىٰ بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انفُخُوا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا ﴿٩٦﴾ فَمَا اسْطَاعُوا أَن يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا ﴿٩٧﴾ قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا ﴿٩٨﴾﴾
﴿الكهف: 83 تا 98﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور آپ سے ذوالقر نین کا واقعہ یہ لوگ دریافت کر رہے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔ ہم نے اسے زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور اسے ہر چیز کے سامان بھی عنایت کر دیئے تھے وہ ایک راہ کے پیچھے لگا۔ یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ایک قوم کو بھی پایا ، ہم نے فرمایا کہ اے ذوالقرنین ایا تو تو انہیں تکلیف پہنچائے یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے۔ اس نے کہا کہ جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے، پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت تر عذاب دے گا۔ ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اس کے لیے بدلے میں بھلائی ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی ہی کا حکم دیں گے۔ پھر وہ اور راہ کے پیچھے لگا۔ یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر لکھتا پایا کہ ان کے لیے ہم نے اس سے اور کوئی اور نہیں بنائی۔ واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا۔ یہاں تک کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین! یا جوج ماجوج اس ملک میں (بڑے بھاری) فسادی ہیں، تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ خرچ کا انتظام کر دیں؟ ( اس شرط پر کہ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں۔ اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت و طاقت سے میری مدد کرو۔ میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنا دیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں لا دو یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ تا وقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کر دیا، تو فرمایا میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ تا کہ اس پر ڈال دوں۔ پس تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے۔ کہا یہ صرف میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا، بے شک میرے رب کا وعدہ سچا اور حق ہے۔‘‘
حدیث 14:
﴿وعن أنس، قال : قال رسول الله ﷺ: ما من نبي إلا قد انذر أمته الأعور الكذاب ، ألا إنه أعور ، وإن ربكم ليس بأعور، مكتوب بين عينيه : ك ف ر.﴾
صحيح البخاری، رقم: 7431 ، صحیح مسلم، كتاب الفتن، رقم: 7363.
اور حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ہر پیغمبر نے اپنی امت کو کانے کذاب سے ڈرایا ہے۔ خبر دارا اس میں کچھ شک نہیں کہ دجال کانا ہے جبکہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے، دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوگا۔
● ان کتابوں کے غیر منسوخہ احکام پر عمل کرنا
قَالَ الله تَعَالَى: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾
﴿المائدة: 48﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، اور ان کی محافظ بھی ہے۔ اس لیے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ فیصلہ کیجیے۔ اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی ہے۔‘‘
حدیث 15:
﴿وعن ابن عمرؓ قال: أتي رسول الله ﷺ بيهودى ويهودية قد أحدثا جميعا ، فقال لهم: ما تجدون فى كتابكم؟ قالوا إن أحبارنا أحدثوا تحميم الوجه والتجبية ، قال عبد الله بن سلام ادعهم يا رسول الله بالتوراة ، فأتي بها فوضع أحدهم يده على آية الرجم وجعل يقرأ ما قبلها وما بعدها ، فقال له ابن سلام: ارفع يدك ، فإذا آية الرجم تحت يده ، فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرحما ، قال ابن عمر: فرحما عند البلاط، فرأيت اليهودى أجنا عليها .﴾
صحیح بخاری کتاب الحدود، باب الرجم في البلاط ، رقم : 6819 .
اور سیدنا ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت لائے گئے جن دونوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم اپنی کتاب میں اس کی سزا کیا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے علماء نے اس کی سزا چہرہ کو سیاہ کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا ایجاد کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ! ان سے تورات منگوائیں، جب تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک نے آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنا شروع کر دیا۔ تو حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ، جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم اس کے نیچے تھی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان دونوں کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ پس انہیں رجم کر دیا گیا۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ انہیں بلاط (ایک مقام) میں رجم کیا گیا، میں نے دیکھا کہ ایک یہودی اس عورت پر جھک جھک پڑتا تھا۔
● اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لانے کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ﴾
﴿الحج : 75﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغمبر منتخب فرماتا ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾
﴿الانعام : 124﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور جب ان کو کوئی نشانی پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک خود ہم کو ویسی چیز نہ دی جائے جیسی اللہ کے رسولوں کو دی جا چکی ہے، اللہ ہی اپنے پیغام بھیجنے کے محل اور موقع کو خوب جانتا ہے۔ عنقریب ان مجرموں کو اللہ کے ہاں ان حیلہ سازیوں کی پاداش میں جن کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے، بڑی ذلت اور سخت عذاب سے ہمکنار ہونا پڑے گا۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴾
﴿الاسراء: 1﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا، جس کے ارد گرد کو ہم نے با برکت بنایا ہے تاکہ ہم اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔‘‘
حدیث 16:
﴿وعن أبى هريرة ، قال : قال رسول الله ﷺ : ما من الأنبياء من نبي إلا قد أعطى من الآيات ما مثله آمن عليه البشر، وإنما كان الذى أعطيت وحيا أوحى الله إلى ، وارجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة .﴾
صحيح البخارى، كتاب فضائل القرآن، رقم: 4891، صحیح مسلم، رقم: 358 ، مسند احمد : 341/2.
اور سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کو معجزات میں سے صرف اس قدر حصہ دیا گیا ہے کہ جس پر انسان ایمان لا سکے اور مجھے جو معجزہ عطا کیا گیا ہے وہ وحی (کلام الہیٰ) ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میری جانب بھیجا ہے پس (اسی کی وجہ سے) میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔
● رسولوں کی رسالت پر ایمان لانا
قَالَ الله تَعَالى: ﴿اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ﴾
﴿الحج: 75﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے اپنے رسول منتخب کرتا ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا﴾
﴿النساء: 163﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی ۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
﴿الحديد: 25﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’البتہ تحقیق ہم نے اپنے پیغمبروں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا، اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور تراز و ا تا را تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قائم رہیں، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت ہیبت وقوت ہے اور لوگوں کے لیے اور بھی فائدے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بن دیکھے کون کرتا ہے۔ بے شک اللہ قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘
حدیث 17:
﴿وعن أنسؓ قال: قال النبى ﷺ: ما بعث نبي إلا أندر أمته الأعور الكذاب، ألا إنه أعور ، وإن ربكم ليس بأعور، وإن بين عينيه مكتوب كافر﴾
صحيح البخارى، كتاب الفتن، باب ذكر الدجال رقم : 7131 صحیح مسلم كتاب الفتن واشراط الساعة، باب ذكر الدجال وصفته ،وما معه، رقم : 7363.
اور حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر اس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ڈرانے کا فریضہ سرانجام نہ دیا ہو۔ یاد رکھو وہ کانا ہے اور تمہارا رب کا نا نہیں ہے، اور دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کا فرلکھا ہوا ہے۔‘‘
حدیث 18:
﴿وعن جابر، أن رسول الله ﷺ، قال : عرض على الأنبياء، فإذا موسى ضرب من الرجال ، كأنه من رجال شنوءة ، ورأيت عيسى ابن مريم – عليه السلام فإذا أقرب من رأيت به شبها عروة بن مسعود، ورأيت إبراهيم صلوات الله عليه فإذا أقرب من رأيت به شبها صاحبكم يعني نفسه، ورأيت جبرئيل – عليه السلام – فإذا أقرب من رأيت به شبها دحية﴾
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم : 423.
اور سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میرے سامنے پیغمبر پیش کیے گئے ، تو موسیٰؑ درمیانے قد کے آدمی تھے (یعنی نہ بہت موٹے نہ بہت دہلے) جیسے شنوءة قبیلے کے لوگ، اور میں نے دیکھا عیسی بن مریمؑ کو میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عروہ بن مسعود کو پاتا ہوں، میں نے دیکھا ابراہیمؑ کو، سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں (یعنی آپ ﷺ خود) اور میں نے دیکھا جبرائیلؑ کو، سب سے زیادہ مشابہ ان کے دحیہؓ ہیں ۔
حدیث 19:
﴿وعن أبى ذرؓ قال: قلت: يا رسول الله كم الأنبياء قال: مائة ألف وعشرون ألفا، قلت يا رسول الله كم الرسل من ذلك ؟ قال ثلا تمائة وثلاثة عشر جما غفيرا، قال: قلت: من كان أولهم؟ قال: آدم ، قلت يا رسول الله! أنبي مرسل ؟ قال: نعم خلقه الله بيده ونفخ من روح ، وكلمه قبلا ، ثم قال: يا أبا ذرا أربعة سريانيون: آدم وشيت وأخنوخ وهو إدريس ، وهو أول من خط بالقلم ونوح ، وأربعة من العرب: هود وشعيب وصالح ونبيك محمد .﴾
صحیح ابن حبان كتاب البر والاحسان، باب ماجاء في الطاعات وثوابها : 287/1۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور سیدنا ابو ذرؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا انبیاء کتنے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایک لاکھ بیس ہزار، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان میں سے رسول کتنے ہیں؟ ارشاد فرمایا:
تین سو تیرہ، جو ایک بڑی تعداد ہے۔ میں نے پوچھا ان میں سے سب سے پہلے کون ہے؟ ارشاد فرمایا:
آدم، میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا وہ نبی رسول ہیں؟ فرمایا:
ہاں اللہ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی روح ان میں پھونکی، سب سے پہلے ان سے کلام کیا۔ پھر فرمایا:
اے ابوذر! ان میں چارسریانی تھے، شیث اور اخنوخ ، جو ادریس ہیں اور انہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوحؑ۔ اور چار پیغمبر عرب ہیں، ہود، شعیب، صالح اور تمہارے نبی محمد ﷺ ۔
● رسولوں کے ناموں پر ایمان لانا
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا﴾
﴿النساء: 164﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور رسولوں میں سے کچھ کے بارے میں ہم نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے، اور کچھ رسولوں کا بیان آپ پر نہیں کیا۔ اور اللہ نے موسیٰؑ سے (براہ راست) بات کی ۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَؕ-وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾
﴿المومن 78﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں جن میں سے کچھ تو وہ ہیں کہ ان کے حالات ہم نے آپ سے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کا بیان ہم نے آپ سے نہیں کیا، اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ لے آئے پھر جب اللہ کا حکم آجائے گا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس وقت اہل باطل سخت خسارے میں ہوں گے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿٨٣﴾ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٨٥﴾ وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾﴾
﴿الانعام: 83 تا 86﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور یہ ہماری وہ دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں بتائی تھی۔ ہم جس کو چاہتے ہیں اس کا مرتبہ بلند کر دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑے علم والا ہے اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور ہم نے ابراہیم سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور ہم نے اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو اور ایوب اور یوسف کو اور موسیٰ اور ہارون کو بھی ہدایت دی، اور نیک کام کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ اور نیز اس کی اولاد میں سے زکریا اور یحییٰ اور عیسی اور الیاس کو ہدایت سے نوازا۔ یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے اور نیز اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو ہدایت عطاء کی اور ان سب کو ہم نے اپنے اپنے زمانے میں اقوام عالم پر فضیلت دی تھی ۔‘‘
حدیث 20:
﴿و عن ابن عباسؓ قال: قال رسول الله ﷺ: مررت ليلة أسري بي على موسى بن عمران عليه السلام رجل آدم طوال جعد كأنه من رجال شنونة، ورأيت عيسى ابن مريم مربوع الخلق إلى الحمرة والبياض سبط الرأس ، وأرى مالكا خازن النار والدجال فى آيات أراهن الله إياه (فَلَا تَكُنْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآىٕهٖ) قال: كان قتادة يفسرها أن نبي الله ﷺ قد لقي موسى عليه السلام .﴾
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم : 419.
اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس رات مجھے اسرا کروایا گیا میں موسیٰ بن عمرانؑ کے پاس سے گزرا، وہ شنوء ہ قبیلہ کے مردوں کی طرح گندمی رنگ، طویل القامت، گھنگریالے بالوں والے تھے، اور میں نے عیسی بن مریمؑ کو دیکھا، ان کا قد درمیانہ، رنگ سرخ وسفید سر کے بال سیدھے تھے اور مالک دوزخ کا داروغہ اور دجال دکھائے گئے، بہت سی نشانیوں میں جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھائیں، ’’تو آپ ان سے ملاقات میں شک نہ کریں ۔‘‘ (سورۃ سجدہ آیت ۲۳) راوی نے کہا:
قتادہ اس آیت کی تفسیر بتاتے کہ رسول الله ﷺ نے موسیٰؑ سے ملاقات کی ۔
● رسولوں کی اخبار کی تصدیق کرنا
قالَ اللهُ تَعَالَى:﴿قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
﴿البقرة: 38﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔‘‘
حدیث 21:
﴿وعن أبى سعيد الخدريؓ عن النبى ﷺ قال: إن أهل الجنة يتراثون أهل الغرف من فوقهم ، كما يترانون الكوكب الدرى الغابر فى الأفق من المشرق أو المغرب لتفاضل ما بينهم، قالوا: يا رسول الله! تلك منازل الأنبياء لا يبلغها غيرهم، قال: بلى والذي نفسي بيده رجال آمنوا بالله وصدقوا المرسلين .﴾
صحيح البخارى، كتاب بدء الخلق، باب ماجاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة ، رقم : 3256.
اور سیدنا ابو سعید الخدریؓ رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اہل جنت اپنے اوپر کے بالا خانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے مغربی یا مشرقی گوشہ کے قریب ایک روشن ستارہ کو دیکھتے ہیں اس فرق کے سبب سے جو ان کے درمیان ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! وہ تو انبیاءؑ کے مقامات ہیں وہاں دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی وہ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔
حدیث 22:
﴿وعن أبى سعيد الخدري قال: بينا النبى ﷺ يقسم ذات يوم قسما، فقال ذو الخويصرة – رجل من بنى تميم – يا رسول الله اعدل، قال: ويلك، من يعدل إذا لم أعدل؟ فقال عمر: انذن لى فلأضرب عنقه، قال: لا ، إن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم، وصيامه مع صيامهم ، يمرقون من الدين كمروق السهم من الرمية، ينظر إلى نصله فلا يوجد فيه شيء ، ثم ينظر إلى رصافه فلا يوجد فيه شيء ، ثم ينظر إلى نضيه فلا يوجد فيه شيء ، ثم ينظر إلى قذذه فلا يوجد فيه شيء ، قد سبق الفرث والدم ، يخرجون على حين فرقة من الناس ، آيتهم رجل إحدى يديه مثل ثدي المرأة ، أو مثل البضعة تدردر ، قال أبو سعيد: أشهد لسمعته من النبى صلى الله عليه وسلم، وأشهد أنى كنت مع على حين قاتلهم ، فالتمس فى القتلى، فأتي به على النعت الذى نعت النبى ﷺ﴾
صحیح بخاری، كتاب الأدب، رقم : 6163.
اور سیدنا ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہوا آنحضرت ﷺ مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے، اتنے میں ذوالخویصرة (جو بنی تمیم قبیلے کا ایک شخص تھا) کہنے لگا:
یا رسول اللہ ! انصاف کیجیے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تجھے پر افسوس اگر میں (اللہ کا رسول ہو کر) انصاف نہ کروں تو پھر (دنیا میں) کون انصاف کرے گا ؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! (یہ منافق معلوم ہوتا ہے) اجازت دیجیے، اس کی گردن اڑا دیتا ہوں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نہیں، اس کے کچھ جوڑ والے (میری امت میں) پیدا ہوں گے (یعنی خارجی مردود) تم ان کی نماز کے سامنے اپنی نماز کو حقیر جانو گے، اور ان کے روزے کے سامنے اپنے روزے حقیر سمجھو گے (لیکن ان سب باتوں کے با وجود) دین اسلام سے ایسے باہر ہو جائیں گے جیسے وہ تیر جو شکار کے جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، اس کی پیکان کو دیکھو تو اس میں کچھ نشان نہیں ملتا (نہ خون نہ گوشت) پھر پٹھے کو دیکھو تو اس میں بھی کچھ نہیں۔ پھر لکڑی کو دیکھو تو اس میں بھی کچھ نہیں پھر قذ ذ کو دیکھو تو حال یہی۔ وہ تولید و خون سب کو چھوڑ کر زن سے نکل گیا یہ لوگ اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑ جائے گی (ایک خلیفہ پر نہ ہوں گے) ان کی نشانی یہ ہے ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح تھل تھل رہا ہوگا ۔ حضرت ابوسعید الخدریؓ کہتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں، میں نے یہ حدیث آنحضرت ﷺ سے سنی تھی اور حضرت علیؓ کے ساتھ ہو کر ان لوگوں سے (نہروان میں) لڑا تھا تو لاشوں میں اس شخص کی تلاش کی گئی پھر دیکھا تو اس کا وہی حال تھا جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا۔ (اس کا ایک ہاتھ پستان کی طرح تھا)
● رسولوں میں جو رسول ہماری طرف مبعوث ہوئے ان کی شریعت پر عمل کرنا
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
﴿النساء: 65﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پس تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں آپ کو منصف نہ بنا لیں پھر اس پر اپنے دلوں میں کوئی حرج بھی محسوس نہ کریں، اور آپ جو فیصلہ کر دیں اسے پوری طرح تسلیم کر لیں۔‘‘
حدیث 23:
﴿وعن عروة قال: خاصم الزبير رجلا من الأنصار فى شريج من الحرة، فقال النبى ﷺ: اسق يا زبير، ثم أرسل الماء إلى جارك. فقال الأنصاري: يا رسول الله أن كان ابن عمتك؟ فتلون وجه رسول الله ﷺ ثم قال: اسق يا زبير ، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر ، ثم أرسل الماء إلى جارك، واستوعى النبى ﷺ للزبير حقه فى صريح الحكم حين أحفظه الأنصاري، وكان أشار عليهما بأمر لهما فيه سعة ، قال الزبير: فما أحسب هذه الآيات إلا نزلت فى ذلك (فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ) ﴾
صحيح البخارى، كتاب التفسير ، باب قول الله تعالىٰ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ…. سورة النساء [65]، رقم : 4585.
اور جناب عروہ نے بیان کیا کہ حضرت زبیرؓ کا ایک انصاری سے مقام حرہ کے ایک نالے کے بارے میں نزاع ہو گیا، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
زبیر پہلے تم اپنا باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو پانی دے دینا۔ اس پر انصاری نے کہا اس لیے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں، یہ سن کر آپ ﷺ کا رنگ بدل گیا، اور ارشاد فرمایا، زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑ دو۔ اس مرتبہ آپ ﷺ نے بصراحت زبیر کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی کہ غصہ قدرتی تھا، پہلے آپ نے فیصلے میں ان دونوں کی رعایت رکھی تھی۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ آیت اسی واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ’’پس تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک ایماندار نہ ہوں گے جب تک اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم (فیصل) نہ بنا لیں۔‘‘
حدیث 24:
﴿وعن عبد الله بن عمرو بن العاصؓ أن هذه الآية التى فى القرآن (یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا) قال: فى التوراة يا أيها النبى إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا وحرزا للأميين ، أنت عبدى ورسولى سميتك المتوكل ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب بالأسواق، ولا يدفع السيئة بالسيئة، ولكن يعفو ويصفح ، ولن يقضه الله حتى يقيم به الملة الموجاء بأن يقولوا: لا إله إلا الله، فيفتح بها أعينا عميا ، وآذانا صما وقلوبا غلفا .﴾
صحيح البخارى، كتاب التفسير سورة الفتح، باب (انا ارسلنك شاهدا ومبشرا ونذيرا)، رقم : 4838.
اور سید نا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کہ ’’اے نبی بے شک ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ جو قرآن میں ہے، تورات میں ارشاد ہے:
اے نبی بے شک ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور اُمیوں کے لیے بچاؤ کا ذریعہ بنا کر بھیجا ہے، آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، نہ تو آپ بدخو ہیں، اور نہ سخت مزاج، اور نہ ہی بازار میں شور مچانے والے، اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں، بلکہ معاف کرتے ہیں، اور درگز رفرماتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان کو نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ ان کے ذریعے بگڑی ہوئی ملت کو درست کر لے کہ وہ لوگ کہیں کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور وہ اس کلمے کے ذریعے اندھی آنکھوں اور بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دیں گے۔
حدیث 25:
﴿وعن أبى هريرة أن رسول الله ﷺ قال: فضلت على الأنبياء بسي أعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب وأحلت لى الغنائم ، وجعلت لى الأرض طهورا ومسجدا، وأرسلت إلى الخلق كافة ، وختم بي النبيون .﴾
صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلوة، رقم : 1167.
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مجھے چھ چیزوں کے ساتھ دیگر انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، مجھے جوامع الکلم دیئے گئے اور رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، اور میرے لیے مال غنیمت کو حلال کر دیا گیا، اور میرے لیے زمین کو پاکی کا ذریعہ اور سجدہ گاہ بنایا گیا اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر سلسلہ انبیاء ختم کر دیا گیا۔
● یوم بعث پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ﴿١٥﴾ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ ﴿١٦﴾﴾
﴿المومنون 15-16﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’پھر تم سب اس کے بعد یقیناً مرنے والے ہو، پھر تم بلا شبہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَلَا يَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ﴿٤﴾ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿٥﴾ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦﴾﴾
﴿المطففين: 4-6﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’کیا ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں کہ وہ اس دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے جو بڑا سخت دن ہے۔ جس دن تمام لوگ رب العالمین کے رو برو کھڑے ہوں گے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾
﴿الزمر: 68﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو وہ مخلوق جو آسمانوں اور زمین میں ہے، بیہوش ہو جائے گی، مگر جس کو اللہ چاہے، پھر جب صور میں دوبارہ پھونک ماری جائے گی تو سب کے سب یکا یک کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے۔‘‘
حدیث 26:
﴿وعن ابن عباس قال: خطب النبى الله فقال: إنكم محشورون إلى الله حفاة عراة غرلا (كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ) ثم إن أول من يكسى يوم القيامة إبراهيم ، ألا إنه يجاه برجال من أمتي ، فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول: يارب أصحابي، فيقال: لا تدري ما أحدثوا بعدك . فأقول كما قال العبد الصالح (وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْۚ-فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ) فيقال: إن هؤلاء لم يزالوا مرتذين على أعقابهم مند فارقتهم .﴾
صحيح البخارى، كتاب التفسير سورة الانبياء، باب كما بدأنا اول خلق نعيده وعدا علينا، رقم : 4740.
اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ تم سب لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں ننگے جسم اور غیر مختون حالت میں اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے) ’’جیسے ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ اسی طرح لوٹا ئیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے بے شک ہم یہ کریں گے۔‘‘ پھر سب سے پہلے ابراہیمؑ کو کپڑے پہنائے جائیں گے، اور کچھ لوگ میری امت کے لائے جائیں گے اور انہیں شمال (جہنم) کی طرف لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ تو میرے ساتھی ہیں، مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا چیزیں ایجاد کیں تھیں اور اس وقت میں وہی کچھ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیؑ) نے کہا:آیت قرآنی:
﴿وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْۚ-فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْؕ-وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ﴾
مجھے بتایا جائے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد دین سے بالکل پھر گئے تھے۔
حدیث 27:
﴿وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ وعن أنس قال: قال رسول الله ﷺ: بعثت أنا والساعة كهاتين، قال: وضم السبابة والوسطى .اللهِ ﷺ: بُعِثْتُ أَنا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ، قَالَ: وَضَمَّ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطى .﴾
صحیح بخارى، كتاب الفتن وأشراط الساعة رقم : 7408.
اور حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مجھے اور قیامت کو اس طرح قریب قریب بھیجا گیا ہے اور آپ ﷺ نے دونوں انگلیاں (سبابہ اور وسطی) ملا لیں ۔
● حساب و جزاء پر ایمان لانا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۙ-لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى﴾
﴿النجم: 31﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اللہ کا ہی ہے تاکہ آخر کار برائی کرنے والوں کو ان کے کیسے کا بدلہ اور اچھائی کرنے والوں کو اچھا بدلہ عطا کرے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ﴿٢٥﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم ﴿٢٦﴾﴾
﴿الغاشية: 25-26﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے پھر ہمارے ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ﴿٦﴾ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾﴾
﴿الزلزال: 6-8﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اس دن لوگ مختلف جماعتیں بن کر واپس ہوں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں ، تو جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی اسے وہاں دیکھ لے گا، اور جس شخص نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی اس کو بھی وہاں دیکھ لے گا۔‘‘
حدیث 28:
﴿وعن صفوان بن محرز المازني قال: بينما أنا أمشي مع ابن عمرؓ آخذ بيده ، إذ عرض رجل فقال: كيف سمعت رسول الله ﷺ فى النجوى؟ فقال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: إن الله يدني المؤمن فيضع عليه كتفه ويستره فيقول: أتعرف ذنب كذا أتعرف ذنب كذا؟ فيقول: نعم أى رب حتى إذا قرره بذنوبه ورأى فى نفسه أنه هلك، قال: سترتها عليك فى الدنيا، وأنا أغفرها لك اليوم ، فيعطى كتاب حسناته ، وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد: (هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ) ﴾
﴿هود: 1﴾
صحيح البخاری ، کتاب المظالم والغضب، باب قول الله تعالى ألا لعنة الله على الظالمين ، رقم : 2441۔
اور حضرت صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں کہ میں ابن عمرؓ کے ساتھ ایک مرتبہ ان کا ہاتھ پکڑے جا رہا تھا کہ ایک شخص سامنے سے آیا، اور کہا تم نے سرگوشی کے متعلق نبی کریم ﷺ سے کیا سنا ؟ انہوں نے فرمایا:
میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی کسی مومن کو قریب کریں گے اس پر اپنا پردہ ڈالیں گے اور اسے چھپا کر فرمائیں گے کیا تمہیں فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ یاد ہے؟
وہ عرض کرے گا جی ہاں اے رب ! یہاں تک کہ جب اسے اپنے گناہوں کا اندازہ ہو جائے گا اور وہ سمجھنے لگے گا کہ وہ تو ہلاک ہو گیا ہے۔ تو اللہ فرمائیں گے، میں نے دنیا میں تیری ستر پوشی کی تھی اور آج بھی میں تیری بخشش کرتا ہوں۔ پھر اسے حسنات (نیکیوں) کی کتاب دے دی جائے گی۔ رہے کافر اور منافق تو ان کے بارے میں گواہی دینے والے کہیں گئے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا خبر دار ظالموں پر اللہ کی طرف سے لعنت ہے۔
حدیث 29:
﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم ، إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه .﴾
صحيح البخارى، كتاب المظالم والغضب، باب من كانت له مظلمة عند الرجل، فحللها له هل يبين مظلمته رقم : 2449.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے دوسرے پر کوئی ظلم، اس کی عزت یا دیگر کسی اور چیز میں کیا ہو تو اسے چاہیے کہ آج ہی اسے حلال کروا لے اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جب نہ کوئی دینار ہوگا نہ درہم، اگر ظالم کے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بقدر اس سے لے لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کے گناہ لے کر اس پر لاد دیئے جائیں گے۔‘‘
● جنت اور جہنم پر ایمان لانا
قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ﴿٧﴾ جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ ﴿٨﴾﴾
﴿البيئة: 7-8﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو یہ لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں ان کا صلہ رب کے ہاں ایسے دائمی باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ، یہ صلہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا﴾
﴿الكهف: 29﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک ہم نے ظالموں کے لیے ایک ایسی آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس کی قناتیں ان کافروں کو گھیرے ہوئے ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو چہروں کو بھون ڈالے گا، کیا ہی برا پانی ہے اور وہ آگ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘
حدیث 30:
﴿وعن أبى سعيد الخدريؓ عن النبى ﷺ قال: إن أهل الجنة يتراتون أهل الغرف من فوقهم كما يترالون الكوكب الدرى الغابر فى الأفق من المشرق أو المغرب لتفاضل ما بينهم قالوا: يا رسول الله تلك منازل الأنبياء لا يبلغها غيرهم، قال: بلى، والذي نفسي بيده! رجال آمنوا بالله وصدقوا المرسلين﴾
صحيح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب في صفة الجنة وأنها مخلوقة، رقم : 3256.
اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اہل جنت اپنے اوپر کے بالا خانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے مغربی یا مشرقی گوشہ کے قریب ایک روشن ستارہ کو دیکھتے ہیں اس فرق کے سبب سے جو ان کے درمیان ہے، صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ تو انبیاء کے مقامات ہیں، وہاں دوسرا نہیں پہنچ سکتا ، آپ نے ارشاد فرمایا:
قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی وہ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔
حدیث 31:
﴿وعن عدى بن حاتم: أن النبى ﷺ ذكر النار فأشاح بوجهه فتعوذ منها ، ثم ذكر النار فأشاح بوجهه فتعوذ منها ، ثم قال: اتقوا النار ولو بشق تمرة، فمن لم يجد فبكلمة طيبة .﴾
صحيح البخارى، كتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، رقم : 6563۔
اور عدی بن حاتم بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آگ کا ذکر فرمایا، تو اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی۔ پھر دوزخ کا ذکر کیا اور چہرہ مبارک پھیر کر پناہ مانگی پھر ارشاد فرمایا:
آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو اور اگر وہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کے ذریعے۔
حدیث 32:
﴿وعن أنس بن مالكؓ أنه حدثهم أن رسول الله ﷺ قال: له إن العبد إذا وضع فى قبره، وتولى عنه أصحابه، وإنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول فى هذا الرجل لمحمد ﷺ فأما المؤمن فيقول: أشهد أنه عبد الله ? ورسوله ، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة فيراهما جميعا ، قال قتادة: وذكر لنا أنه يفسح له فى قبره، ثم رجع إلى حديث أنس قال: وأما المنافق والكافر ، فيقال له: ما كنت تقول فى هذا الرجل؟ فيقول لا أدرى، كنت أقول ما يقول الناس فيقال: لا دريت ولا تليت ويضرب بمطارق من حديد ضربة فيصيح صيحة يسمعه من يليه غير الثقلين .﴾
صحيح البخارى كتاب الجنائز، باب ما جاء فى عذاب القبر، رقم : 1374 .
اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں، تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص (محمد رسول اللہ ﷺ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنادیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافر یا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے، اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا ارد گرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
حدیث 33:
﴿وعن ابن عباس قال: مر النبى ﷺ بحائط من حيطان المدينة أو مكة ، فسمع صوت إنسانين يعذبان فى قبورهما ، فقال النبى ﷺ: يعذبان وما يعذبان فى كبير ، ثم قال: بلى ، كان أحدهما لا يستتر من بوله، وكان الآخر يمشي بالنميمة، ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين ، فوضع على كل قبر منهما كسرة، فقيل له: يا رسول الله الم فعلت هذا؟ قال: لعله أن يخفف عنهما ما لم تيسا أو إلى أن ييبسا﴾
صحيح البخاری، کتاب الوضوء، باب من الكبائر ان لا يسستر من بوله رقم : 216۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے پاس سے گزرے تو آپ نے دو آدمیوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، پس نبی ﷺ نے فرمایا:
ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز کی بناء پر عذاب نہیں دیا جا رہا، پھر فرمایا ، ہاں ان میں سے ایک اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا، پھر آپ نے ایک تر شاخ منگوائی پھر اس کے دو ٹکڑے کیے، پھر ایک ایک ان میں سے ہر ایک قبر پر رکھ دی۔ تو آپ سے پوچھا گیا:
یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیوں کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا:
اس کے خشک ہونے تک شاید ان سے عذاب کم کر دیا جائے ۔
تمام اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾
﴿الطلاق: 12﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے، اور انہی کی طرح زمین کو بھی، ان سب میں حکم نازل ہوتا رہتا ہے تا کہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے اعتبار سے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾
﴿الانعام: 59﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور اللہ کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، اللہ کے علاوہ انہیں کوئی نہیں جانتا، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر یہ کہ اللہ اسے جانتا ہے اور اسی طرح نہ کوئی دانہ جو زمین کی تاریکیوں میں ہو اور نہ کوئی تر اور کوئی خشک مگر یہ کہ وہ لوح محفوظ میں ہے۔‘‘
حدیث 34:
﴿و عن ابن عمر ، قال : قال النبى : مفاتح الغيب خمس ، ثم قرأ: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث﴾
صحيح البخارى، كتاب التفسير ، رقم : 4778، مسند أحمد : 24/2.
اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
غیب کی چابیاں پانچ ہیں، پھر آپ نے قرآن مجید کی آیت پڑھی کہ:
بے شک اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش نازل کرتا ہے.
● تمام اشیاء کی کتابت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ وَ عِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِیْظٌ﴾
﴿ق:4﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’تحقیق ہم سب جانتے ہیں، جو زمین ان سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ﴾
﴿يٰس: 12﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے۔‘‘
حدیث 35:
﴿وعن ابن عباس قال: كنت خلف رسول الله ﷺ يوما ، فقال: يا غلام إني أعلمك كلمات، احفظ الله يحفظك ، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف .﴾
سنن الترمذى، كتاب صفة القيامة، رقم : 2516 ، المشكاة، رقم : 5302 – محمد البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا، آپ نے ارشاد فرمایا: اے لڑکے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں، اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تیری حفاظت کرے گا، تم اس کی حفاظت کرو اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔ جب تم سوال کرو، تو اللہ سے کرو اور جب تم مدد مانگوں تو اللہ سے مدد مانگو اور جان لو کہ اگر امت تمہیں کچھ نفع دینے پر متفق ہو جائے تو وہ تمہیں وہی نفع دے سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے پر متفق ہو جائے تو وہ صرف وہی نقصان پہنچا سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔‘‘
حدیث 36:
﴿وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السموات والأرض بخمسين ألف سنة، قال: وعرشه على الماء .﴾
صحیح مسلم ، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسىٰ ﷺ رقم :6748.
اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھیں، فرمایا:
❀ اور اس کا عرش پانی پر تھا۔
●اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت
قالَ اللهُ تَعَالَى:﴿وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾
﴿التكوير 28﴾
❀ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’اس کے لیے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾
﴿الاعراف: 188﴾
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’آپ کہہ دیجیے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں نہ ضر کا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب دان ہوتا تو بہت سے فائدے اپنے لیے لے لیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا، میں تو صرف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں اس قوم کو جو بات مانتی ہے۔‘‘
حدیث 37:
﴿و عن ابن عمر يقول: قال رسول الله ﷺ: كل شيء بقدر ، حتى العجر و الكيس أو الكيس والعجر .﴾
صحیح مسلم، کتاب القدر، رقم : 6751 .
اور سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے، یہاں تک کہ بجز اور دانائی بھی۔
● اشیاء کی تخلیق (پیدا کرنا)
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ﴾
﴿الزمر: 62﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔‘‘
﴿وَقَالَ اللهُ تَعَالَى ﴿ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ﴾
﴿الانعام: 102﴾
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’یہی اللہ تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے لہذا تم اس کی عبادت کرو اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔‘‘
حدیث 38:
﴿وعن ابن عباس، عن النبى قال: إن الله وضع عن أمتى الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه .﴾
سنن ابن ماجه ،کتاب الطلاق باب طلاق المكره والناسي ، رقم : 2045 – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اور سیدنا ابن عباسؓ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطاء نسیان اور ہر اس چیز سے جس پر مجبور کیے گئے ہیں، اٹھا لیے ہیں۔
حدیث 39:
● قدریہ کی مذمت کا بیان
﴿وحدثني نافع ، أن ابن عمرؓ جائه رجل فقال: إن فلانا يقرأ عليك السلام فقال له: إنه قد بلغنى أنه قد أحدث ، فإن كان قد أحدث ، فلا تقرته مني السلام فإني سمعت رسول الله ﷺ يقول: يكون فى هذه الأمة أو فى أمتى – الشك منه خسف أو مسخ أو قلف فى أهل القدر .﴾
سنن الترمذى، ابواب القدر ، باب ،16، سنن ابن ماجه ، رقم : 4061 – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
اور سید نا ابن عمرؓ کے پاس ایک شخص آیا، اور کہا کہ فلاں آپ کو سلام کہہ رہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ اس نے دین میں بدعت ایجاد کی ہے، اگر یہ صحیح ہے تو میری طرف سے اسے سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ اس امت میں یا میری امت میں راوی کو شک ہے، زمین میں دھنسنا اور شکلوں کا مسخ ہونا یا پتھروں کا برسنا قدریوں میں ہوگا۔‘‘
حدیث 40:
● تقدیر کی اہمیت کا بیان
﴿وعن علي، قال: قال رسول الله ﷺ: لا يؤمن عبد حتى يؤمن بأربع ، يشهد أن لا إله إلا الله وأنى محمد رسول الله بعثني بالحق، ويؤمن بالموت ، وبالبعث بعد الموت ، ويؤمن بالقدر .﴾
سنن الترمذی، ابواب القدر، باب ماجاء ان الايمان بالقدر خيره وشره، رقم : 2145 واللفظ له، سنن ابن ماجة، المقدمة، باب في القدر رقم : 81 – محدث البانی نے اسے
’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اور حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کوئی شخص تب تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک چار چیزوں پر ایمان نہ لائے، گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، اور موت پر اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان رکھے۔
وصلى الله تعالىٰ على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين