● نماز عیدین:
عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر طلوع آفتاب کے بعد کھلے میدان میں پڑھی جانے والی نماز کو ’’صلاۃ العیدین‘‘ کہا جاتا ہے۔ دو رکعت نماز جہری قراءت کے ساتھ باجماعت ادا کی جائے، پہلی اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے بالترتیب سات اور پانچ تکبیرات کہی جائیں ، جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے اس بارے میں حدیث مروی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ بھی نماز عیدین میں بارہ بارہ تکبیرات کہتے تھے۔
مؤطا مالك ، كتاب الصلاة، باب ما جاء فى التكبير والقراءة في صلاة العييدن ، رقم: ۹ – مصنف ابن ابي شيبة ۷۹/۲- سنن الكبرىٰ للبيهقي : ۲۸۸/۳ – امام بیہقیؒ فرماتے ہیں: إسناده صحيح.
◈ نماز عید کا حکم :
نماز عید واجب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ہمیشہ پابندی فرمائی اور ساتھ ساتھ اس کے لیے نکلنے کا حکم بھی دیا۔
اُم عطيہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں نوجوان اور ماہواری والی عورتوں اور پردے میں بیٹھی دوشیزاؤں کو بھی ساتھ نکال لے چلیں ، البتہ ماہواری والی نماز سے (اور دوسری روایت کے لفظ ہیں : عید گاہ سے) دُور رہیں مگر اس موقع پر مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا :
اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے پاس پردے کی چادر نہ ہو تو ؟ فرمایا :
چاہیے اس کی بہن اسے اپنی چادر اوڑھا کر لے جائے ۔“
صحیح بخاری ، کتاب العيدين، رقم : ٩٧٤ – صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، رقم: ۸۹۰.
◈ عیدین میں قراءت :
عبید اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ابو واقد لیثیؓ نے بتایا:
کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن کیا قراءت کی تھی؟ میں نے بتایا کہ:
(اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ) اور (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ)
سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعے میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى) اور (هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِ) کی تلاوت کیا کرتے تھے اور جب عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جاتے تب بھی دونوں نمازوں میں انہی کی قراءت کرتے تھے ۔
صحیح مسلم، کتاب الجمعة، رقم: ۸۷۸.
◈ عیدین کے احکام ومسائل:
➊ نماز کے بعد امام خطبہ عیدین دے گا۔
صحیح بخاری ، کتاب العيدين، رقم : ٩٦٣ .
➊ نماز عیدین میں زائد تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا چاہیے ، کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں ، نبی کریم ﷺ ہر رکعت میں اور ان تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے جو آپ ﷺ رکوع سے پہلے کہتے تھے ۔
سنن ابوداؤد، ابواب تفریع استفتاح الصلاة ، رقم: ۷۷۲ – شیخ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔
➌ عید کے دن ملاقات کرتے ہوئے قبولیت عمل اور برکت کی دعا دینا سلف وخلف علماء سے ثابت ہے۔ چنانچہ امام علی بن ثابت الجزریؒ فرماتے ہیں:
میں نے امام مالکؒ سے ’’ تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ‘‘ کے متعلق سوال کیا ، جو کلمہ لوگ عید کے دن ایک دوسرے سے کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا:
”ہمارے ہاں (مدینہ میں) لوگ ہمیشہ ہی ایسا کرتے آرہے ہیں اور ہم اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے ۔
الثقات لابن حبان : ٩ / ٩٠ ، ترجمه رقم: ١٥٣٤٨.
اور امام مکحولؒ کے بارے میں آتا ہے کہ عید والے دن جب کوئی شخص ان سے ملتا تو وہ اسے یہ دعا ديتے:
’’بَارَكَ اللهُ فِيكَ۔‘‘
تاریخ ابن معين براوية الرواى : ٢٣٦/٢ ، ترجمه : ٥١٦٧ .
➍ عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے اور وہاں پہنچ کر امام کے آنے تک تکبیرات کہنی چاہئیں اور پھر عید نماز سے فارغ ہو کر گھر آ کر بھی تکبیرات کہتے رہے۔
السنن الكبرى للبيهقي : ۲۷۹/۳ ، رقم : ٦١٦٩ – السنن للدار قطني : ٢ / ٤٤ ، رقم : ١٦٩٨ .
➎ تکبیرات کے مختلف الفاظ ثابت ہیں۔ اور ذیل میں دیئے گئے الفاظ بھی ثابت ہیں:
﴿الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، الله أكبر الله أكبر ولله الحمد﴾
مصنف ابن ابی شیبه: ٢/ ٦٧ ، رقم : ٠٥٦٤٩
’’اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اللہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ۔‘‘
➏ عید گاہ میں عورتوں کی شرکت لازمی ہے، اگر چہ وہ حیض یا نفاس کے دن گزار رہی ہوں ۔ حیض و نفاس والی عورتیں نماز سے علیحدہ رہیں لیکن دعا، تکبیرات اور خطبہ میں ضرور شرکت کریں۔
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : ٣٥١۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: ٨٨٣/١٢.
➐ نماز عید سے پہلے یا بعد عید گاہ میں نوافل پڑھنا جائز نہیں ۔
صحیح بخاری کتاب العیدین، رقم: ۹۸۹ – صحیح مسلم، کتاب صلاة العيدين، رقم: ٨٨٤ .
➑ عید الفطر کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھانا مسنون ہے۔
صحیح بخاری، کتاب العيدين، رقم: ٩٥٣ .
➒ عید الاضحی کے دن نماز عید کے بعد کھانا سنت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت سے کھائیں۔
سنن ترمذی، کتاب العيدين، رقم : ٥٤٢ – سنن ابن ماجة، رقم : ١٧٥٦ ـ صحيح ابن خزيمه : ٢/ ٦١، ٦١١، رقم: ١٤٢٦ ـ صحيح ابن حبان، رقم: ۲۸۱۲ – ابن خزیمہ، ابن حبان ، علامہ البانی اور شعیب الارناؤط نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
➓ جب عید جمعے کے دن آجائے تو جس شخص نے عید پڑھ لی ہو، اس پر جمعہ واجب نہیں رہتا۔ وہ جمعے کی بجائے تنہا نماز ظہر پڑھ سکتا ہے۔
سنن أبو داؤد، كتاب الصلاة، رقم: ۱۰۷۳ – سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلوات، رقم: ١٣١١ – محدث البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
⓫ رسول اللہ ﷺ عید کے دن راستہ بدل کے آتے جاتے تھے۔
صحیح بخاری ، کتاب العيدين ، رقم : ٩٨٦ .
↰ نوٹ :
حنفیہ کے نزدیک چھ تکبیرات زائد ہیں، تین پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین دوسری رکعت میں، لیکن ان کی دلیل والا اثر مروی عن ابن مسعود سخت ضعیف ہے۔
ملاحظہ ہو: معالم السنن: ٢٥٢/١ – نيل الأوطار : ٣٥٦/٣- محلى ابن حزم : ٢٩٦/٣ .
◈ نماز استقاء:
قحط سالی کے موقع پر بارانِ رحمت طلب کرنے کے لیے نماز استسقاء ادا کی جاتی ہے۔
◈ طریقہ نماز :
صحابہ کرامؓ نے قحط سالی کا شکوہ کیا ، تو آپ ﷺ مقررہ دن میں میدان کی طرف نکلے اور منبر پر بیٹھ کر وعظ ونصیحت کی اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی ، پھر لوگوں کی جانب پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور چادر کو الٹ پلٹ کیا۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر سے اُتر کر دو رکعت نماز پڑھائی ۔
سنن ابو داؤد، باب رفع اليدين في الإستسقاء، رقم: ۱۱۷۳ ۱۱۷۳۔ شیخ البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
◈ نماز استسقاء کے مسائل :
➊ نماز استسقاء میں جہری قراءت کی جائے ۔
صحيح بخاری ، کتاب الاستسقاء ، رقم : ١٠٢٤ .
➋ ایسے موقع پر الٹے ہاتھوں دُعا کرنا بھی درست ہے ۔
صحيح مسلم، کتاب صلاة الاستسقاء ، رقم : ٢٠٧٥.
➌ چادر پلٹنے کا مطلب یہ ہے کہ امام اس کے ظاہری حصے کو باطنی حصے کی طرف پھیر دے اور لوگ بھی ایسا کریں ۔
سنن ابو داؤد، جماع أبواب صلاة الاستسقاء و تفريعها ، رقم : ١١٦٤ ۔ شیخ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
◈ باران رحمت طلب کرنے کے لیے مسنون دُعائیں:
﴿اللهم اسقنا ، اللهم اسقنا ، اللهم اسقنا﴾
صحيح بخاری ، کتاب الاستسقاء ، رقم: ۱۰۱۳ .
’’اے اللہ ! ہمیں پلا ، اے اللہ ہمیں پلا ، اے اللہ ہمیں سیراب کر دے۔‘‘
﴿اللهم اسقنا غينا مغينا مريئا نافعا غير ضار ، عاجلا غير آجل﴾
سنن ابو داؤد، باب رفع اليدين في الاستسقاء ، رقم: ١١٦٩ – صحيح ابن خزيمه ، رقم: ١٤١٦ – مستدرك حاكم: ۲۲۷/۱ – ابن خزیمہ اور حاکم نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اے اللہ ! ہمیں بارش عنایت فرما، از حد مفید ، مددگار، بہترین انجام والی ، جو شادابی لائے ، نفع آور ہو ، کسی ضرر کا باعث نہ بنے ، جلدی آئے اور دیر نہ کرے۔‘‘
﴿اللهم اسق عبادك ، وبهائمك ، وانشر رحمتك وأحي بلدك الميت﴾
سنن ابوداؤد، باب رفع اليدين في الإستسقاء ، رقم : ۱۱۷۶۔ شیخ البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
’’اے اللہ ! اپنے بندوں اور اپنے جانوروں کو پانی پلا۔ اپنی رحمت عام کر دے اور اپنی خشک زمین کو تر و تازہ کر دے۔‘‘